Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

رنگِ تغزل

* * * * * * * * * * * * * * * * * * * *
* * * * * * * ** * * * * * * * * * * *
جھانک کر دیکھو میرے دل میں اجالا کتنا

کتنے منظر ہیں یہاں، رنگ نرالا کتنا

میں اکیلا نہیں، برباد ہوئے ہیں کتنے
 اس کی چاہت میں ہوا منہ میرا کالا کتنا
میں تو ناکام تھا، گمنام ہی مرجاتا میں
 اک ستمگر نے مرا نام اچھالا کتنا
 کتنے لوگوں سے مراسم ہیں پرانے میرے
میرے لوگوں نے غم ہجر بھی پالا کتنا
 دل کے ویرانے میں کھلتے ہیں دریچے ایسے
جن پہ پردوں کی جگہ آج ہے جالا کتنا
اس کو دیکھا تو کہا مجھ سے تڑپ کر دل نے
کیوں نہ مرجاؤں مجھے دو گے سنبھالا کتنا
شدت پیاس سے ممکن ہے لڑھک جاؤں میں
سامنے آپ کے آنکھوں کا پیالا کتنا
میں نے سوچا کہ نکالوں اسے دل سے اپنے
بس یہی سوچ کر دل میں نے کھنگالا کتنا
- - - - - --- -- - - -
 ڈاکٹر شفیق ندوی۔ریاض

- - - - - - - - -  ---

میں ہوں انساں کہ سنگِ صحرا ہوں
 ہرگھڑی دھوپ ہی میں جلتا ہوں
میں اندھیرا ہوں، میں اجالاہوں
میں تغیر کے ساتھ زندہ ہوں
ہوں نئی نسل کے تصرف میں
اپنی تہذیب کا میں ورثہ ہوں
امنِ عالم توہوگیاغارت
بس اسی واسطے میں ڈرتا ہوں
 زندگی ہے بہت ہی نازک شئے
ڈرسے سہما ہوا میں رہتا ہوں
زندگی بٹ گئی ہے حصوں میں
 نام اپنا ہی بھول بیٹھا ہوں
دور کتنا حَسین ہے شاہد
 میں مگر سادگی سے چلتا ہوں
- - - - - -
 شاہد نعیم۔جدہ

شیئر: