* * * * * * * * * * * * * * * * * * * *
* * * * * * * ** * * * * * * * * * * *
جھانک کر دیکھو میرے دل میں اجالا کتنا
کتنے منظر ہیں یہاں، رنگ نرالا کتنا
میں اکیلا نہیں، برباد ہوئے ہیں کتنے
اس کی چاہت میں ہوا منہ میرا کالا کتنا
میں تو ناکام تھا، گمنام ہی مرجاتا میں
اک ستمگر نے مرا نام اچھالا کتنا
کتنے لوگوں سے مراسم ہیں پرانے میرے
میرے لوگوں نے غم ہجر بھی پالا کتنا
دل کے ویرانے میں کھلتے ہیں دریچے ایسے
جن پہ پردوں کی جگہ آج ہے جالا کتنا
اس کو دیکھا تو کہا مجھ سے تڑپ کر دل نے
کیوں نہ مرجاؤں مجھے دو گے سنبھالا کتنا
شدت پیاس سے ممکن ہے لڑھک جاؤں میں
سامنے آپ کے آنکھوں کا پیالا کتنا
میں نے سوچا کہ نکالوں اسے دل سے اپنے
بس یہی سوچ کر دل میں نے کھنگالا کتنا
- - - - - --- -- - - -
ڈاکٹر شفیق ندوی۔ریاض
- - - - - - - - - ---