Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہماری بے وفائیوں پر شکوہ کناں، وطن کے در و دیوار

شور اور گردوغبار کا طوفان مکینوں کا مقدر بن گئے، ایسی ’’ریل سہولت‘‘ کا کیا فائدہ جومعاشرے کے ایک اہم حصے کا نقصان کردے
- - - - - - - - -
تسنیم امجد۔ریاض
- - - - - - - -
مغل شہنشاہ فن تعمیر کا بہترین ذوق رکھتے تھے۔ انہوں نے مختلف عمارتوں، باغات ، مقبروں اور قلعے جس کاوش، سخت محنت اور زرکثیر سے بنوائے، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں کیونکہ کئی انقلابات اور طویل گردش ایام کے باوجود یہ اسی دبدبے اور رعب کا نشان ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ فن ،فنکار کی شخصیت کا مظہر ہوتا ہے۔ اسی طرح عمارت بھی اس کی تعمیر کرانے والے کی شخصیت کا عکس ہوتی ہے۔ مغلوں کی عمارتیں وسیع،فراخ اور کشادہ ہیں جو ان کی شخصیت کے علاوہ ان کی تہذیب کی فراخی کی بھی مظہر ہیں۔
چوبرجی، مغل دور کی یادگار ہے ۔یہ ساڑھے تین سو سال قبل شہزادی زیب النساء نے تعمیر کرائی تھی جو شہنشاہ اورنگ زیب کی بیٹی تھی۔ چوبرجی یعنی 4 میناروں والی اس عمارت کی تعمیر کے پس پردہ کچھ کہانیاں وابستہ ہیں ۔ ایک کہانی کے مطابق جب ان کی طبیعت ناساز ہوئی تو طبیب نے انہیں صبح ٹھنڈی ہوا میں دریا کے کنارے پانی میں پاؤ ں ڈال کر بیٹھنے کیلئے کہا۔ اپنے وقت کی یہ شاندار عمارت تھی۔ تاریخی ورثہ ہے، اس کی حفاظت سب کی ذمہ داری ہے لیکن بدقسمتی سے اپنے ورثے کاہمیں کچھ بھی احساس نہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ہر قوم کو اپنی روایات کا احترام کرنا چاہئے۔ ایسی اقوام ہی اپنے ورثوں کا تحفظ کرنے کی عادی ہوتی ہیں۔ حال ہی میں چوبرجی کو دیکھنے کا اتفاق ہوا تو بہت ہی افسوس ہوا۔ ایک مینار پر لگایاگیا ہمارا پرچم بھی خمیدہ ہو رہا تھا جو انتظامیہ کی عدم توجہی کا عکس تھا ، کسی کو بھی اس کا احساس نہ تھا۔ میناروں پر کیا گیا کام بری طرح خراب ہوچکا تھا ، ٹائلز ٹوٹی ہوئی تھیں۔یوں کہ: ’’ وہ بھی بالکل کتابوں کی طرح ہے، الفاظ سے بھرپور مگر خاموش‘‘ چوبرجی کی مانند وطن میں دیگر ثقافتی ورثہ بھی لاپروائی کا شکار ہے۔ کہیں گلی محلے کے لڑکوں نے کرکٹ اور گلی ڈنڈا کھیلنے کے میدان بنا رکھے ہیں تو کہیں نشہ بازوں نے اپنی آماجگاہیں قائم کر رکھی ہیں۔ چوبرجی میں بھی مقامی آبادی کا کہنا ہے کہ نشئی آکر اپنی لت پوری کرتے ہیں۔ پولیس کو سب خبر ہے لیکن وہ آنکھیں بند کئے گزر جاتی ہے۔ ورثہ نسل در نسل چلتا ہے جس سے آگاہی ہوتی ہے۔ یہ تو محسوس کرنے اور سوچنے کا عمل ہے ، ان کا تمام ترطمطراق سے قائم رہنا ہی قوم کی اصل پہچان ہے۔ یہ قوم ہی اسے زندہ رکھتی ہے۔ ذہنی نشو ونما کے لئے یہ نہایت اہم اور معاشرے کی بقاء کیلئے بہت ضروری ہے۔ ماضی میں بزرگوں کی یہ عادت تھی کہ چھٹی کے دن خاندان کے بچوں کو لے کر تاریخی مقامات کی سیر کو جاتے اور راستے بھر ان مقامات کی تفصیل کہانی کی صورت میں سناتے ۔ اس طرح ایک عمل یعنی پریکٹیکل ہو جاتا جو کبھی نہ بھولنے والا عمل ہوتاتھا۔ شہر ملتان میں ایک تاریخی مقام قلعہ ہے جہاں پر قدیم تعمیرات موجود ہیں۔ ان کی تعمیر خود ایک کہانی کی ترجمانی کرتی ہے۔ عوام وہاں جاتے ہیں ، اکثر آج بھی اپنے بچوں کو وہاں کی تاریخی اہمیت کے بارے میں روشناس کراتے ہیں۔
آپا کا کہنا ہے کہ ان کے سسر کی آج بھی وہی عادت ہے ۔چھٹی کے دن بچوں کو لے کر چل دیتے ہیں اور وہ راستے میں گرم گرم پوری حلوہ کھانے کے شوق میں ساتھ ہوجاتے ہیں ۔واپسی پر بھی انہی مقامات کے بارے میں اتنی باتیں ہوتی تھیں کہ سب ازبر ہوجاتاتھا۔
قارئین! ہمیں کسی بھی تبدیلی کا خیرمقدم کرنا چاہئے لیکن حکومت کی یہ پالیسی ہونی چاہئے کہ اس تبدیلی میں اپنے ورثے کو نقصان نہ پہنچے۔ کاش ہمارے صاحبانِ اقتدار اس حقیقت کو جانیں کہ اپنے ورثے کی بدولت وہ معاشی آمدنی میں اضافے کرسکتے ہیں۔
بیشتر ممالک اپنے تاریخی ورثوں سے کمائی کررہے ہیں۔ یہاں ترکی کی مثال دی جا سکتی ہے کہ جہاں کمال اتاترک کے محل اور دوسری تاریخی عمارتوں کو دیکھنے والوںکا تانتا بندھا رہتا ہے ۔ ٹکٹ کتنا مہنگا ہے ، سیاح اس کی پروا نہیں کرتے کیونکہ وہ مقامات بہت اعلیٰ طور پر منظم رکھے گئے ہیں۔ برسوں قبل لگائے گئے پردے اور بستر آج بھی اسی حالت میں ہیں جنہیں دیکھنے کیلئے لوگ دور دور سے آتے ہیں۔ وطن میں سیاسی محاذ آرائیوں کے نتیجے میں وطن کی فضا جس قدر مکدر ہوچکی ہے ،اس میں محب ِوطن شہریوں کا سانس لینا دوبھر ہوچکا ہے۔ سیاسی رسہ کشی میں سیاستدانوں کا تو کچھ نقصان نہیں لیکن عوام اور خصوصی طور پر نسل نو کا مزاج مغرب کی جانب مڑ رہا ہے۔ انہیں ان کی پہچان کرانے والا کوئی نہیں ۔وہ دوسروں کی روایات میں پناہ ڈھونڈ نے میں مصروف ہیں۔ اپنے صاحبانِ اختیار سے ہمارا یہ سوال ہے کہ ایک مثبت قدم اٹھانے کے بعد دوسراقدم منفی کیوں؟ہمیں چاہئے کہ ہر قدم پر قانون کا احترام ملحوظ خاطر رکھیں ۔
عوام بے چارے کئی ماہ سے جس تکلیف سے گزر رہے ہیں ،اس کا مداوا کون کرے گا؟ آس پڑوس کی دکانوں کے کاروبار بند ہیں، قریبی مکانات ٹوٹ پھوٹ اور ہیوی مشینری کی زد میں ہیں۔ شور اور گردوغبار کا طوفان مکینوںکا مقدر بن گئے ہیں ۔ ایسی ’’ریل سہولت‘‘ کا کیا فائدہ جومعاشرے کے ایک اہم حصے کا نقصان کردے۔ عوام کی سہولت کا احساس دوسری جانب بھی ہونا چاہئے ۔ ٹوٹے پھوٹے راستے ، بھوک، بے روزگاری ، دہشت گردی اور آپا دھاپی کو کیا نام دیاجائے گا؟ ملک کو قائم ہوئے 70 برس ہوگئے لیکن غریب آج بھی اچھے وقت کے انتظار میں جئے جارہے ہیں ۔
ذمہ داران کی توجہ نہ تو تعلیم کی جانب ہے اور نہ ہی دیگر مسائل کی جانب۔ پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب میں نہروں کے کنارے اور درختوں کے تلے قائم اسکول کیا کسی کو نظر نہیں آتے جہاں گندگی اور مچھروں کی یلغار میں بچے والدین کا حکم ماننے پر مجبورہوتے ہیں۔ ایسے ماحول میں انہوں نے کیا پڑھنا کیا ہے؟ تنظیم وترتیب کے بغیر خاطر خواہ کامیابی ممکن نہیں ہوسکتی۔ ضرورت اس جذبے کی ہے جو حصول وطن کے وقت تھا۔ صوبائی تعصب کوترک کرنا ضروری ہے۔ پنجاب حکومت اپنی واہ واہ کے لئے میٹرو اور نہ جانے کیا کیا منصوبے متعارف کراکر بھی عوام کے دل نہ جیت سکی۔ میٹرو پر بیٹھ کر خالی پیٹ اپنے مسائل پر رونا بھی کوئی گوارہ نہیں کرے گا۔سچ یہ ہے کہ آج وطن کے در و دیوار ہماری بے وفائیوںپر شکوہ کناں ہیں۔ بلا شبہ ہم نے ان سے وفا نہیں کی۔ کاش خوف آخرت ہمارے دل میں جاگ جائے اور ہمارے اصلاح کا ذریعہ بن جائے۔

شیئر: