Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’صوبائی اسمبلیاں تحلیل ہوئیں تو صرف متعلقہ اسمبلی کا الیکشن ہوگا‘

الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کے صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرنے کے فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ صوبائی اسمبلی تحلیل ہونے پر صرف متعلقہ صوبائی اسمبلی کا الیکشن ہو گا۔
پیر کو اپنے ایک بیان میں ترجمان الیکشن کمیشن نے کہا کہ جتنے بھی ارکان مستعفی ہوں گے 60 روز میں ضمنی الیکشن کرا دیں گے۔ صوبائی اسمبلیاں تحلیل ہونے پر قومی اسمبلی کا نہیں صوبائی اسمبلی کا الیکشن ہو گا۔
الیکشن کمیشن کے مطابق ایک سال میں ضمنی اور عام انتخابات کرانا مشکل ہے مگر قانون کے پابند ہیں۔ قومی اسمبلی کی  ایک نشست پر 8 سے 10 کروڑ روپے اخراجات آتے ہیں۔ صوبائی اسمبلی  کے اخراجات کا تخمینہ 6 سے 7 کروڑ روپے ہے۔
تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری نے الیکشن کمیشن کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’الیکشن کمیشن رانا ثنااللہ کا ترجمان ادارہ بن چکا ہے؟‘
اپنی ٹویٹ میں انہوں نے لکھا کہ ’نااہل الیکشن کمشنر اور افسران سرکاری خزانے پر بوجھ ہیں۔ صوبائی اسمبلیاں تحلیل ہونے پر 90 دنوں میں انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے۔اپنی تیاری کریں بیانات جاری کرنا آپ کا کام نہیں۔‘

تحریک انصاف کا مشاورتی اجلاس جاری

دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے پیر کو چاروں صوبائی اسمبلیوں سے استعفوں کی تاریخ پر غور کے لیے اجلاس طلب کررکھا ہے۔
پیر کو پی ٹی آئی کے رہنما فواد چوہدری نے اپنے ٹویٹ میں لکھا کہ ’اس اجلاس میں پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلی تحلیل کرنے، سندھ اور بلوچستان اسمبلی سے استعفے دینے کی تاریخ پر غور کیا جائے گا۔‘
انہوں نے مزید لکھا کہ ’ (استعفوں کے) فیصلے کے بعد پاکستان کی 64 فیصد نشستیں خالی ہو جائیں گی اور عام انتخابات کی راہ ہموار ہو گی۔‘

مسلم لیگ ن کی قیادت نے بھی سر جوڑ لیے

مسلم لیگ ن کی ترجمان عظمیٰ بخاری کا کہنا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ ن کا مشاورتی اجلاس آج ہو رہا ہے۔ عمران خان اور ان کی پارٹی استعفے نہیں دے گی، انھوں نے قومی اسمبلی سے استعفے دیے اور بعد میں سپیکر اسمبلی کے پاس گئے کہ ہمارے استعفے قبول نہ کریں۔‘
پیر کو لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ’پاکستان مسلم لیگ ن نے مشاورتی اجلاس طلب کر رکھا ہے۔ ہم تمام آئینی اور قانونی طریقہ کار فالو کریں گے۔‘
خیال رہے کہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے 26 نومبر کو راولپنڈی جلسے میں خطاب کرتے ہوئے تمام صوبائی اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا تھا۔
عمران خان نے اپنے خطاب صوبائی حکومتوں سے باہر نکلنے کی تاریخ  نہیں دی تھی۔ انہوں نے کہا تھا کہ وہ تمام وزرائے اعلیٰ اور پارلیمانی پارٹیوں سے مشاورت شروع کر رہے ہیں اور جلد ہی اسمبلیوں سے نکلنے کا حتمی اعلان کریں گے۔
پی ٹی آئی کے راولپنڈی جلسے کے اگلے روز صوبہ پنجاب کے وزیراعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی نے کہا کہ ’پنجاب حکومت عمران خان کی امانت ہے اور جب وہ اسمبلیاں توڑنے کا کہیں گے تو ایک منٹ کی دیر نہیں ہو گی۔‘
اتوار کو اپنے ایک ویڈیو بیان میں چوہدری پرویز الٰہی کا کہنا تھا کہ ’ہم وضع دار لوگ ہیں جس کے ساتھ چلتے ہیں اس کا ساتھ نہیں چھوڑتے۔ اسمبلیوں سے جب استعفے دیے تو شہباز شریف کی 27 کلومیٹر کی حکومت 27 گھنٹے بھی نہیں چل سکے گی۔‘
اس سے قبل اتوار ہی کو پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کی اسمبلی کے سپیکر اور تحریک انصاف کے رہنما مشتاق غنی نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ان کے تمام ارکان اسمبلی چھوڑنے کے لیے تیار ہیں۔
مشتاق غنی نے کہا کہ ’پارٹی کے چیئرمین عمران خان کے حکم کے منتظر ہیں، اسمبلی چھوڑنے میں ایک منٹ کی تاخیر نہیں ہوگی۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اسمبلی سے نکلنے کو تیار ہیں، عمران خان کے حکم کا انتظار ہے اور ایک لمحے کی بھی تاخیر نہیں ہو گی۔‘
مشتاق غنی نے مزید کہا کہ خیبرپختونخوا اسمبلی سے اگر پی ٹی آئی کے ارکان نکل جائیں تو پیچھے خالی کرسیاں رہ جائیں گی۔

شیئر: