پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے افغان خواتین کی یونیورسٹیوں میں تعلیم پر پابندی پر مایوسی کا اظہار کیا ہے تاہم کہا ہے کہ بہترین طریقہ یہ ہے کہ طالبان کے ساتھ بات چیت جاری رہنی چاہیے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق واشنگٹن کے دورے کے موقعے پر انہوں نے کہا کہ ’جو فیصلہ آج لیا گیا، مجھے اس سے مایوسی ہوئی ہے۔‘
لیکن انہوں نے کہا کہ ’اب بھی میرے خیال میں ہمارے مقصد تک پہنچنے کا سب سے آسان راستہ۔۔۔ خواتین کی تعلیم اور دیگر چیزوں کے حوالے سے بہت سی مشکلات کے باوجود۔۔۔ کابل کا راستہ ہے اور عبوری حکومت کے ذریعے ہے۔‘
مزید پڑھیں
-
افغانستان میں ایک ہی دن میں 20 افراد کو کوڑوں کی سزاNode ID: 725801
-
افغانستان میں لڑکیوں کے یونیورسٹی تعلیم حاصل کرنے پر پابندیNode ID: 727506
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل اور امریکہ کے وزیر خارجہ نے بھی طالبان کے فیصلے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
بدھ کو اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گتریس نے افغانستان کے موجودہ حکام پر زور دیا کہ وہ ہر سطح پر تعلیم تک مساوی رسائی کو یقینی بنائیں۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے کہا کہ ’تعلیم سے انکار نہ صرف خواتین اور لڑکیوں کے مساوی حقوق کی خلاف ورزی ہے بلکہ اس سے ملک کے مستقبل پر تباہ کن اثرات پڑیں گے۔‘
طالبان حکومت کا یہ فیصلہ فوری طور پر نافذ ہو گیا ہے اور اگلے حکم تک خواتین اب گھروں پر رہیں گی۔
امریکی وزیر خارجہ انتونی بلنکن نے کہا ہے کہ ان کو طالبان کے فیصلے سے سخت مایوسی ہوئی ہے۔
انہوں نے ٹویٹ کیا کہ اس فیصلے نے واضح طور پر بین الاقوامی برادری میں طالبان کو اپنی حکومت کے تسلیم ہونے کے مقصد سے پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا ہے کہ تعلیم کا حق بنیادی انسانی حق ہے اور طالبان کی ذمہ داری ہے کہ اس کی پاسداری کریں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے طالبان سے مطالبہ کیا ہے کہ اس فیصلے کو واپس لیا جائے۔
طالبان نے 90 کی دہائی میں اپنے پہلے دور حکومت میں خواتین کی تعلیم پر پابندی عائد کی تھی اور ان کو محرم کے بغیر گھروں سے نکلنے کی اجازت نہیں تھی۔
دوسری مرتبہ اقتدار پر کنٹرول کے بعد بھی طالبان نے بتدریج نوے کی دہائی کے اقدامات پر عملدرآمد شروع کر دیا ہے۔
لڑکیوں کے سیکنڈری سکول جانے پر پابندی عائد ہے۔ خواتین عوامی مقامات پر بھی نہیں جا سکتیں اور محرم کے بغیر سفر پر بھی پابندی ہے۔
ٹوئٹر پر بھی صارفین اس فیصلے پر تنقید کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ خواتین کے خواب بکھر رہے ہیں۔
برطانیہ کے پناہ گزینوں کے وزیر کی سابق مشیر شبنم نسیمی نے کہا ہے کہ خواتین کے سکول جانے پر پابندی کے تقریباً 17 مہینوں بعد طالبان نے خواتین کے یونیورسٹی جانے پر بھی پابندی عائد کر دی ہے۔
انہوں نے اس فیصلے کو انسانیت کے خلاف جرم قرار دیا اور کہا کہ دنیا میں افغانستان واحد ملک ہے جہاں خواتین اور لڑکیوں کے سکول اور یونیورسٹیوں میں جانے پر پابندی ہے۔
So after almost 17 months of banning teenage girls from school. The Taliban decide to BAN women from universities too.
Afghanistan is the ONLY country in the world that bans women and girls from going to school & university.
This is a crime against humanity & it must not stand. pic.twitter.com/igK1wpg2n0
— Shabnam Nasimi (@NasimiShabnam) December 20, 2022
پاکستان کے ناورے کے سابق سفیر اور افغانستان کے نمائندہ خصوصی جل گنر ایرکسن نے ٹویٹ کیا کہ ’افغانستان مستقبل میں کہاں سے خواتین ڈاکٹر، نرسز، اساتذہ اور دائیاں ڈھونڈے گا؟‘
So where will Afghanistan find female doctors, nurses, teachers and midwives in the future?
— Kjell-Gunnar Eriksen (@KgeKjell) December 20, 2022