تہران میں قید ایرانی نژاد امریکی شہری کی بھوک ہڑتال
سیامک نمازی نے خط میں لکھا ہے کہ وہ سات روزہ بھوک ہڑتال شروع کر رہے ہیں (فوٹو: روئٹرز)
سات سال سے زائد عرصے سے جاسوسی کے الزام میں تہران میں قید ایرانی نژاد امریکی شہری نے صدر جو بائیڈن سے اپیل کی ہے کہ اُنہیں واپس اپنے ملک لایا جائے۔
عرب نیوز کے مطابق 51 سالہ سیامک نمازی نے صدر جو بائیڈن کو خط میں لکھا ہے کہ وہ سات روزہ بھوک ہڑتال شروع کر رہے ہیں۔
انہوں نے لکھا ہے کہ ’جب اوباما انتظامیہ نے مجھے غیر ارادی طور پر خطرے میں چھوڑا اور 16 جنوری 2016 کو ایران کے یرغمال بنائے گئے دیگر امریکی شہریوں کو رہا کیا گیا تو امریکی حکومت نے میرے خاندان سے وعدہ کیا تھا کہ وہ ہفتوں کے اندر مجھے بحفاظت گھر پہنچا دیں گے۔
سیامک نمازی نے مزید کہا کہ ’سات سال اور دو صدور کے ادوار کے بعد بھی میں تہران کی بدنام زمانہ ایوین جیل میں قید ہوں۔‘
انہوں نے امریکی صدر جو بائیڈن سے کہا کہ وہ اگلے ہفتے ایران میں ’ایک منٹ زیر حراست امریکی شہریوں کے مصائب کے بارے میں سوچتے ہوئے گزاریں۔‘ اِن یرغمال شہریوں میں 67 سالہ ماہر ماحولیات مراد طہبازجو برطانوی شہریت بھی رکھتے ہیں اور 58 سالہ تاجر عماد شرگی شامل ہیں۔
سیامک نمازی نے کہا کہ وہ سات دنوں تک بھوک ہڑتال پر رہیں گے۔ ’میں صرف اتنا چاہتا ہوں کہ اگلے سات دنوں کے لیے آپ کے دنوں کا ایک منٹ ایران میں امریکی یرغمالیوں کی مصیبتوں کے بارے میں سوچنے کے لیے وقف ہو۔‘
انہوں نے لکھا کہ ’میری زندگی کے ہر سال کے لیے آپ کے وقت کا صرف ایک منٹ جو میں نے ایون جیل میں کھو دیا جبکہ امریکی حکومت مجھے بچا سکتی تھی لیکن ایسا نہیں ہوا۔‘
وائٹ ہاؤس کی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان نے کہا ہے کہ ’حکومت سیامک نمازی کی آزادی کو محفوظ بنانے کے لیے پُرعزم ہے۔‘
ترجمان کا کہنا تھا کہ ’ہم ان تمام امریکی شہریوں کے ساتھ جو ایران میں غلط طریقے سے حراست میں ہیں، وطن واپس لانے کے لیے انتھک محنت کر رہے ہیں۔ ایران کی جانب سے امریکی شہریوں کو سیاسی فائدے کے لیے غلط طریقے سے حراست میں لینا اشتعال انگیز ہے۔‘
امریکہ نے سیامک نمازی کے خلاف جاسوسی کے الزامات کو بےبنیاد قرار دیتے ہوئے مسترد کیا تھا۔