Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شب برات، حقیقت کیا ہے؟

نصف شعبان کی فضیلت ثابت ہے،بعض سلف اس رات نوافل کااہتمام کیاکرتے تھے لیکن لوگوں کا مسجد میں اکٹھا ہوکر عبادت کرنا بدعت ہے
* * * اسدالرحمان تیمی* * *
عوام میں نصف شعبان کی رات کا اہتمام کرنے اور خاص طور سے اسی رات میں عبادات انجام دینے کے کئی اسباب ہیں، جس میں سب سے پہلی اور اہم وجہ ہے: بعض علماء کرام کا اس رات کا اہتمام کرنا اور ان کا اپنی کتابوں میں اس رات کو خصوصی فضیلت والا بتانا۔(دیکھئے قوت القلوب، ابوطالب مکی)ایک اور سبب یہ بھی ہے کہ رسول اللہ کی طرف منسوب ایسی بہت ساری احادیث کا وجود جن سے اس رات کی فضیلت، اس میں اعمال کی پیشی، عمر کی تحدید، رزق کی تقسیم، دعاء کی قبولیت اور خود رسول اللہ کااس رات عبادات کے اہتمام کا پتہ چلتا ہے لہٰذا اس عظیم ثواب کے حصول اور سنت نبوی ا کی پیروی میں لوگ اس رات کااہتمام اور اس رات کی تعظیم میں بہت زیادہ مبالغہ کرتے ہیں۔مزید براں فرمان باری تعالیٰ: ’’فیہا یفرق کل أمر حکیم‘‘ (الدخان:۴)اسی رات میں ہر فیصلہ شدہ معاملہ بانٹ دیا جاتا ہے‘‘کی بعض تفاسیر میں آیا ہے کہ اس سے مراد نصف شعبان کی رات ہے۔ علامہ زمخشری کہتے ہیں: اس رات کے 4 نام ہیںـ: اللیلۃ المبارکۃ، لیلۃ البراء ۃ، لیلۃ الصک ولیلۃ الرحمۃ، اس رات کی5خصوصیات بیان کی جاتی ہیں: ہرفیصلہ شدہ معاملہ کی تقسیم ، اس رات عبادت کی فضیلت، رحمت کا نزول، نبی کو اسی رات شفاعت سے نوازا گیا، ظاہر ی طور پر اس رات زمزم کا پانی بڑھ جاتا ہے۔(الکشاف للزمخشری) جبکہ وہ مبارک رات جس میں ہر فیصلہ شدہ معاملہ کی بانٹ ہوتی ہے ،اس سے کون سی رات مرادہے،اس سلسلے میں علماء کے دو اقوال ہیں: پہلا قول یہ ہے کہ اس سے شب قدر مراد ہے۔ یہی جمہور علماء کا کہنا ہے، عبداللہ بن عمر ؓ، مجاہد، ضحاک، قتادہ، ابوزید اور حسن بصری رحمہم اللہ اور بہت سارے اسلاف سے یہی منقول ہے۔(دیکھئے: زاد المسیر لابن الجوزی) زیادہ تر مفسرین کا بھی ماننا ہے کہ مذکورہ رات سے مراد شب قدر ہے۔ چنانچہ فرمان باری تعالیٰ: بے شک ہم نے اسے (قرآن) ایک برکت والی رات میں نازل کیا ہے، ہم نے بے شک (اس کے ذریعہ انسانوں کو) ڈرانا چاہے، اسی رات میں ہر فیصلہ شدہ معاملہ بانٹ دیا جاتاہے۔(الدخان4)
اس آیت کی تفسیر میں علماء فرماتے ہیں کہ برکت والی رات سے مراد شب قدر ہے، یہاں اللہ تعالیٰ نے رات کو مبہم رکھا ہے لیکن دوسری جگہ واضح کردیا ہے کہ جس برکت والی رات میں قرآن کریم اتارا گیا ہے، وہ شب قدر ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: بے شک ہم نے قرآن کو لیلۃ القدر یعنی خیروبرکت والی رات میں نازل کیا ہے۔ اور یہ نزول رمضان المباک کے مہینہ میں ہواجیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:وہ رمضان کا مہینہ تھا جس میں قرآن نازل ہوا۔(البقرہ185) اور یہاں جس برکت والی رات کا جس میں ذکر ہوا ہے، اس برکت کو اللہ تعالیٰ نے اپنے اس بیان میں صاف کردیا کہ : لیلۃ القدر’’ ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس رات کو مبارکۃ (برکت والی ) رات کا نام اس لئے دیا ہے کہ اللہ اس رات لوگوں کے درجات میں اضافہ فرماتا ہے، ان کی لغزشوں کو معاف کرتا ہے، قسمت کی تقسیم کرتا ہے، رحمت پھیلاتا ہے اور خیر عطا کرتا ہے۔ (احکام القرآن لابن العربی) ابن العربی کہتے ہیں: ’’اکثر علماء کے نزدیک ’’فیہا یفرق کل امر حکیم‘‘ (الدخان: ۴) [ اسی رات میں ہر طے شدہ معاملہ بانٹ دیا جاتاہے] سے مراد شب قدر ہے جبکہ کچھ علماء کا کہنا ہے کہ یہ نصف شعبان کی رات ہے لیکن یہ بے بنیاد بات ہے کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی سچی اور فیصلہ کن کتاب قرآن مجید میں فرمایا:’’شہر رمضان الذی انزل فیہ القرآن ‘‘ (البقرۃ: ۱۸۵) [وہ رمضان کا مہینہ تھا جس میں قرآن نازل ہوا] یہاں اللہ تعالیٰ نے قطعی طور پر یہ بتادیا کہ نزولِ قرآن رمضان میں ہوا اور پھر رات کے وقت کی تعیین کرتے ہوئے فرمایا: ’’فی لیلۃ مبارکۃ‘‘ (الدخان: ۳) [برکت والی رات میں] لہٰذا جس نے یہ گمان کیا کہ یہ دوسری کوئی رات ہے اس نے اللہ تعالیٰ پر بہتان باندھا۔ (احکام القرآن لابن العربی) ابن الجوزی کہتے ہیں: ’’جو یہ کہتا ہے کہ اس سے مراد نصف شعبان کی رات ہے اس کی دلیل کچھ ضعیف آثار ہیں جو قابل اعتبار نہیں‘‘ (زاد المسیر) علامہ شنقیطی کہتے ہیں: ’’وہ احادیث جن کی بنا پر بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ شعبان کی رات ہے، قرآن کی صراحت کے خلاف ہونے کے ساتھ ساتھ بے بنیادبھی ہیں، ان میں سے کسی کی سند درست نہیں، جیسا کہ ابن العربی اور دوسرے محققین کا کہنا ہے ۔
حیرت ہے اس مسلمان پر جو نصِ قرآن کی محالفت کرتاہے اور قرآن وصحیح حدیث سے کسی دلیل کے بغیر قرآن کی وضاحت سے انحراف کرتا ہے‘‘۔ (اضواء البیان) نصف شعبان کی رات کی فضیلت میں بعض علماء کے اقوال: اگر عوام اس رات کا اہتمام کرتے ہیںاور زیادہ سے زیادہ اس رات میں نماز ،دعااور نیکی کے امور انجام دیتے ہیں تو اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کچھ علماء عظام سے اس رات کی فضیلت منقول ہے اور اللہ کے رسول اللہکی طرف منسوب ایسی ڈھیر ساری احادیث ہیں جن سے اس رات کی اہمیت کا پتہ چلتاہے نیز مذکورہ بالاسطور میں سلف کی ایک جماعت کا قول گزرچکا ہے کہ آیتِ کریمہ : ’’فیہا یفرق کل امرحکیم‘‘ (الدخان4) [اسی رات ہر طے شدہ معاملہ بانٹ دیا جاتا ہے] سے مراد نصف شعبان کی رات ہے، ذیل میں اس رات کی فضیلت اورعظمت کی بابت بعض علماء کے اقوال نقل کئے جاتے ہیں:ـ امام احمد اور بعض حنابلہ سے منقول ہے کہ نصف شعبان کی رات فضیلت والی ہے۔ (الفروع) امام شافعی سے مروی ہے کہ 5 راتوں میں خاص طور پر دعاء کی قبول کی جاتی ہے جن میں نصف شعبان کی رات بھی ہے۔
(السنن الکبریٰ للبیہقی) ملاعلی القاری کہتے ہیں: اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ نصف شعبان کی رات میں فرق (طے شدہ معاملہ کا بٹوارہ ) ہوتا ہے، جیسا کہ حدیث اس کی صراحت کرتی ہے، البتہ اختلاف اس میں ہے کہ آیت میں مذکورہ رات سے مراد کونسی ہے، درست بات یہ ہے کہ نصف شعبان کی رات اس سے مراد نہیں، ایسی صورت میں آیت اور حدیث سے یہ اخذ کیا جائے گا کہ ان دونوں راتوں میں طے شدہ معاملہ کی بانٹ ہوتی ہے، دونوں راتوں کی عظمت کی وجہ سے ، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ایک رات میں اجمالی طور پر ’’فرق‘‘ (طے شدہ معاملہ کی تقسیم) ہو اور دوسری رات میں تفصیلی طور پر ، یا یہ کہ ایک رات دنیوی امور کے لئے جبکہ دوسری اخروی امور کے لئے خاص ہو، وغیرہ دگر عقلی احتمالات۔ (نقلا عن تحفۃ الاحوذی) نواب صدیق حسن خان نے اپنی کتاب ’’السراج الوہاج‘‘ میں لکھا ہے کہ :’’ شعبان میں روزے کی کثرت کی تخصیص کی ایک وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ اس ماہ میں بندوں کے اعمال کی پیشی ہوتی ہے‘‘ (السراج الوہاج) عبدالرحمن مبارکپوری کہتے ہیں: نصف شعبان کی رات کی فضیلت کی بابت کچھ احادیث آئی ہیں جو مجموعی طور پر بتاتی ہیں کہ ان احادیث کی کچھ نہ کچھ اصل ہے۔ (تحفۃ الاحوذی) عبدالرازق نے بیان کیا ہے کہ زیادمنقری جو ایک قاضی تھے، کہا کرتے تھے کہ نصف شعبان کی رات (کی عبادت) کا اجر شب قدر کے اجر کی مانند ہے۔ (المصنف لعبدالرزاق) امام نووی کی ’’المنہاج‘‘میں بھی اس طرح کی باتیں ہیں جن سے اس رات کی فضیلت کا پتہ چلتا ہے اور یہ کہ اس رات اللہ کے ہاں بندوں کے اعمال کی پیشی ہوتی ہے۔ (منہاج الطالبین للنووی) ابن تیمیہ فرماتے ہیں : بہت سارے علماء یا ہمارے بیشتر حنبلی علماء اور ان کے علاوہ دیگر حضرات کی رائے یہی ہے کہ اس رات کی فضیلت ہے۔امام احمد کی بات سے یہی معلوم پڑتا ہے، چونکہ اس بارے میں متعدد احادیث آئی ہیں، سلف کے آثار سے اس کی تصدیق ہوتی ہے مسانید اورسنن میں اس کی بعض فضیلتیں مروی ہیں، گرچہ اس بارے میں دوسری چیزیں اپنی طرف سے گڑھی ہوتی ہیں۔
(اقتضاء الصراط المستقیم) بعلی کہتے ہیں: جہاں تک نصف شعبان کی رات کی بات ہے، تو اس کی فضیلت ثابت ہے، سلف میں بعض لوگ اس رات نوافل کااہتمام کیاکرتے تھے لیکن لوگوں کا مسجد میں اکٹھا ہوکر عبادت کرنا بدعت ہے۔ نصف شعبان کی رات کی فضیلت احادیث کی آئینے میں: اس کی فضیلت میں جو احادیث آئی ہیں، ان میں چند درج ذیل ہیں: سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، بیان کرتی ہیں کہ ایک رات میں نے نبی ا کو (بستر پر) نہیں پایا، میں ان کی تلاش میں نکلی، وہ مجھے بقیع میں ملے، اس حال میں کہ اپنا سر آسمان کی طرف بلند کئے ہوئے تھے، مجھے دیکھ کر فرمایا: اے عائشہ ! کیا تجھے اندیشہ تھاکہ اللہ اور اس کے رسول تمہارے ساتھ زیادتی کریں گے؟ عائشہ فرماتی ہیں: میں نے عرض کیا،نہیںیہ بات نہیں، مجھے گمان ہوا کہ آپ اپنی کسی بیوی کے پاس چلے گئے ہیں، فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ نصف شعبان کی رات آسمان دنیا پر اتر تا ہے اور قبیلۂ کلب کی بکریوںکے بال کی تعداد سے بھی زیادہ لوگوں کی بخشش فرماتا ہے‘‘۔ یہ ایک ضعیف حدیث ہے۔دیکھئے ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلاۃ، باب ماجاء فی لیلۃ النصف من شعبان۔ امام ترمذی: کہتے ہیں: عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ حدیث صرف حجاج کے سند سے ہی مجھے معلوم ہے۔ میں نے محمد سے سنا کہ یہ حدیث ضعیف ہے۔ یحیٰ بن ابی کثیر نے عروہ سے نہیں سنا ہے، محمد کہتے ہیں حجاج نے یحیٰ بن ابی کثیر سے بھی نہیں سنا ہے۔
عبدالرحمن مبارکپوری صاحب تحفۃ الاحوذی کہتے ہیں: یہ حدیث حجاج اور یحیٰ کے درمیان اور یحیٰ اور عروہ کے درمیان دو جگہوں پہ منقطع ہے۔ التہذیب میں ہیـ: یحیٰ بن المتوکل العمری کو احمد، ابن معین اور دوسرے لوگوں نے ضعیف گردانا ہے۔ ابن معین نے کہاہے کہ وہ کچھ بھی نہیں ہے ۔ جو زجانی نے کہتے ہیں: اس کی حدیثیں منکر ہیں۔ دارقطنی کہتے ہیں: یہ حدیث کئی مضطرب اور غیر ثابت سندوں مروی ہے۔ صاحب ’’العلل المتناہیۃ‘‘ نے اسے سلیمان بن ابی کریمۃ عن ہشام عن عروۃ عن ابیہ عن عائشہ کی سند سے بھی روایت کیا ہے۔ ابن الجوزی اس سند کے بارے میں کہتے ہیں : یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔ ابن عدی کہتے ہیں: سلمان بن ابی کریمہ کی حدیثیں منکر ہیں۔ اس کی ایک دوسرے سند میں عطاء بن عجلان ہے جس کے بارے میں یحیٰ بن معین فرماتے ہیں: وہ بھی کچھ نہیں ہے ،اس کے لئے حدیثیں گھڑی جاتی تھیں۔ بخاری نے اسے منکر الحدیث کہا ہے: فیض القدیر للمناوی، الکامل لابن عدی)۔ ابن ماجہ کی ایک دوسری روایت ہے :ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ رسول اللہ سے روایت کرتے ہیں کہ ’’نصف شعبان کی رات اللہ تعالیٰ آسمانِ دنیا پرآتا ہے اور شرک وکینہ پرور کو چھوڑ کر اپنی ساری مخلوق کی مغفرت فرماتا ہے۔ (ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلاۃ، باب ماجاء فی لیلۃ النصف من شعبان، مجمع الزوائد میںہے: ’’اس کی سند ضعیف ہے۔ عبداللہ بن لہیعہ کے ضعف اور الولید بن مسلم کی تدلیس کی وجہ سے۔
امام منذری کہتے ہیں: حدیث کے راوی ابن عز رب کی ابو موسیٰ سے ملاقات نہیں، اس حدیث کو صاحب کنزالعمال نے بھی ابن ماجہ کے حوالے سے نقل کیا ہے۔ العلل المتناہیۃ، مصنف عبدالرزاق اورتحفۃ الذاکرین للشوکانی میں اس کو دیکھا جاسکتا ہے)۔ تقریبا اسی قسم کے الفاظ میں یہ حدیث معاذ بن جبل سے بھی مروی ہے۔(منذری ’’الترغیب والترہیب‘‘ میں اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں: رواہ الطبرانی وابن حبان فی صحیحہ)۔ سیدناابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی نے فرمایا:اللہ تعالیٰ نصف شعبان کی رات آسمان دنیا پر اتر تاہے اور ہر شخص کی مغفرت فرماتا ہے سوائے اس کے جس کے دل میں کینہ ہو یا جو اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہو۔ صاحب ’’العلل المتناہیۃ‘‘نے اسے ذکر کرنے کے بعدکہا ہے کہ یہ حدیث درست ہے نہ ثابت ہے۔ابن حبان اس کے ایک راوی عبدالملک کے بارے میں کہتے ہیںکہ’’لایتابع علی حدیثہ‘‘۔امام یحیٰ بن معین اور نسائی کہتے ہیں کہ’’ وہ کچھ بھی نہیں ہے‘‘ ۔بخاری کہتے ہیں: ’’اس کی یہ حدیث محل نظر ہے‘‘ ۔ دیکھئے میزان الاعتدال لیکن منذری ’’الترغیب ‘‘ کہتے ہیں کہ ’’ امام بزار اور بیہقی نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ایک سند سے روایت کیا ہے جس میں کوئی حرج نہیں‘‘۔ یہ حدیث ایک دوسری سند : الاحوص بن حکیم عن حبیب بن صہیب عن ابی ثعلبہ الخشنی سے بھی منقول ہے۔(’’العلل المتناہیۃ‘‘ ابن الجوزی کہتے ہیں:
’’یہ حدیث صحیح نہیں ہے‘‘، امام احمد فرماتے ہیں: ’’احوص کی احادیث روایت نہیں جاتیں‘‘، یحیٰ بن معین کہتے ہیں: ’’وہ کچھ بھی نہیں‘‘ دار قطنی کہتے ہیں: ’’وہ منکر الحدیث ہے‘‘، اور’’یہ حدیث مضطرب اور غیر ثابت ہے‘‘، جبکہ بیہقی نے ’’مرسل جید‘‘ کہا ہے) ایک دوسری سند سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے۔ (’’العلل المتناہیۃ‘‘، ابن الجوزی کہتے ہیں: ’’ حدیث درست نہیں، اس میں کئی مجہول راوی ہیں‘‘۔ دارقطنی کہتے ہیں: ’’یہ حدیث معاذ اورعائشہ رضی اللہ عنہا سے بھی منقول ہے، کہا جاتا ہے کہ یہ مکحول کا قول ہے، بہر حال یہ حدیث ثابت نہیں‘‘) بعض روایات میں آیا ہے کہ نصف شعبان کی رات میں عمر لکھ دی جاتی ہے اور اس سال مرنے والوں کے بارے میں فیصلہ ہوتا ہے۔مثلا دینوری نے اپنی کتا ب ’’المجالسۃ‘‘ میں راشد بن سعدان سے روایت کیا ہے کہ نبی نے فرمایا:نصف شعبان کی رات اللہ تعالیٰ موت کے فرشتہ کو اس سال مرنے والوں کے بارے میں وحی بھیجتا ہے‘‘۔(الترغیب للمنذریوقال: رواہ ابویعلی۔ وہو غریب واسنادہ حسن والدر المنثور، وکنزل العمال، ونسبہ الی الدینوری فی المجالسۃ عن راشد بن سعد مرسلا وفی المیزان، وثقۃ ابن معین وضعفہ ابن حزم والتہذیب) ابن ابی الدنیا نے عطاء بن یسار سے روایت کیا جاتا ہے کہ’’جب نصف شعبان کی رات ہوتی ہے تو موت کے فرشتہ کو ایک صحیفہ دیاجاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اس میں جن لوگوں کے نام ہیں ان کی روح قبض کرلو، بندہ بستر پہ سویا ہوتا ہے، شادی کرتا ہے اور گھر بناتا ہے جبکہ اس کا نام اس صحیفہ میں لکھا ہوتا ہے۔ (الدرالمنثور، ومصنف عبدالرزاق) 

شیئر: