Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

توشہ خانہ کیس: عمران خان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری، کب کیا ہوا؟ 

الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں عمران خان کے خلاف فوجداری کارروائی کا حکم دیا تھا۔ (فوٹو: فیس بک عمران خان)
اسلام آباد ہائی کورٹ نے توشہ خانہ کیس میں پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان کے وارنٹ گرفتاری معطل کرنے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے انھیں ٹرائل کورٹ میں بیان حلفی جمع کرانے کا حکم دے دیا ہے۔ 
توشہ خانہ کیس میں عمران خان کی پیشی اور فرد جرم کا معاملہ تقریباً دو ماہ سے التوا کا شکار ہے۔ اس دوران عدالت نے کئی بار عمران خان کی طبی بنیادوں پر حاضری سے استثنیٰ کی درخواست منظور کی 28 فروری کو پیش نہ ہونے کی وجہ سے عدالت نے پہلی بار ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے۔ 
توشہ خانہ ریفرنس کیس پر فوجداری کارروائی کا آغاز نومبر 2022 میں ہوا تھا۔ کارروائی کے لیے ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنر نے ریفرنس ٹرائل کورٹ کو بھیجا تھا۔ جس کے بعد اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ کورٹ نے عمران خان کے خلاف ٹرائل کا باضابطہ آغاز کر دیا ہے۔ ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال 22 نومبر کو پہلی سماعت کی۔ 
عمران خان چونکہ ان دنوں زخمی تھے اس لیے ہر پیشی پر ان کی جانب سے حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دائر ہوتی رہی اور عدالت نے اسے منظور بھی کیا۔ 
31 جنوری 2023 کو عدالت نے فیصلہ کیا کہ اس کیس میں عمران خان پر فرد جرم 7 فروری کو عائد کیا جائے گی۔ اس سلسلے میں عدالت نے عمران خان کو طب کیا لیکن حسب سابق وہ عدالت میں حاضر نہیں ہوئے۔
عدالت نے ان کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست قبول کرتے ہوئے انھیں 21 فروری کو دوبارہ طلب کیا لیکن ایک مرتبہ پھر غیر حاضری کی وجہ سے فرد جرم عائد نہ ہوسکی۔ 
28 فروری کو عمران خان کو ممنوعہ فنڈنگ کیس میں جوڈیشل کمپلیکس کی بینکنگ کورٹ، دہشت گردی کے مقدمے میں انسداد دہشت گردی کی عدالت، توشہ خانہ ریفرنس میں ایف 8 کچہری (مقامی عدالت) اور اسی عدالت میں اقدام قتل کے مقدمے میں پیش ہونا تھا۔

Caption

تاہم عمران خان بینکنگ کورٹ اور انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش ہونے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ چلے گئے جہاں انھوں نے اقدام قتل کے مقدمے میں عبوری ضمانت حاصل کی اور لاہور واپس روانہ ہوگئے۔ عمران خان نے سکیورٹی وجوہات کو بنیاد بناتے ہوئے ایف ایٹ کچہری میں پیش ہونے سے انکار کر دیا۔ جس کے بعد عدالت نے ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرتے ہوئے انھیں گرفتار کرکے 8 مارچ کو پیش کرنے کا حکم دیا۔ 

5  مارچ کو اسلام آباد پولیس کی ٹیم زمان پارک پہنچی جہاں ان کی تحریک انصاف کے کارکنان کے ساتھ مڈبھیڑ بھی ہوئی تاہم شبلی فراز نے وارنٹ وصول کرتے ہوئے پولیس کو لکھ کر دیا کہ عمران خان اس وقت دستیاب نہیں ہیں۔ 
7 مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کے وارنٹ گرفتاری معطل کرتے ہوئے اُنہیں 13 مارچ کو پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔ عدالت نے قرار دیا کہ اگر عمران خان 13 مارچ کو پیش نہیں ہوتے تو عدالت قانون کے مطابق آگے بڑھے۔ 
13  مارچ کو بھی عمران خان عدالت میں پیش نہ ہوئے جس کے بعد عدالت نے ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری معطل کرتے ہوئے انھیں گرفتار کرکے 18 مارچ کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا۔ 
ان وارنٹس کی تعمیل کے لیے ڈی آئی جی آپریشنز اسلام آباد شہزاد بخاری کی قیادت میں پولیس لاہور زمان پارک پہنچی جہاں انھوں نے لاہور پولیس کی مدد سے عمران خان کی رہائش گاہ پر جانے کی کوشش کی۔ 
پولیس کی بھاری نفری کے ہمراہ گزشتہ روز سے زمان پارک پر موجود ہے جہاں اسے پی ٹی آئی کارکنان کی جانب سے شدید مزاحمت کا سامنا ہے۔ 24 گھنٹے سے زائد کا وقت گزر جانے کے باوجود اسلام آباد پولیس زمان پارک سے عمران خان کو اب تک گرفتار نہ کرسکی۔
زمان پارک کے اردگرد پولیس کی اضافی نفری تعینات کردی گئی ہے جس نے علاقے کو مکمل طور پر گھیر رکھا ہے جب کہ قصور، گوجرانوالا اور شیخوپورہ سے پولیس کی بھاری نفری بھی پہنچ گئی ہے۔ زمان پارک میں پنجاب رینجرز کو بھی طلب کرلیا گیا ہے۔
زمان پارک میں پولیس کی جانب سے آنسو گیس کی شیلنگ کی جاری رہی۔ متعدد شیل عمران خان کی رہائش گاہ کے اندر  بھی گرے۔  واٹر کینن کا استعمال بھی کیا جاتا رہا ہے، پی ٹی آئی کارکنوں کی جانب سے پولیس اور رینجرز پر پتھراؤ کیا جاتا رہا ہے۔

عدالت نے کہا عمران خان اپنی درخواست سیشن کورٹ میں دائر کریں اور ٹرائل کورٹ قانون کے مطابق بیان حلفی کو دیکھے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

پتھراؤ سے پولیس اہلکاروں سمیت رینجرز  اہلکار بھی زخمی ہوئے جس کے بعد پولیس نے حکمت تبدیل کرتے ہوئے زمان پارک کو خالی کر دیا ہے۔ 
گزشتہ روز پیدا ہونے والی صورت حال کے بعد تحریک انصاف نے دوبارہ اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا اور منگل کو ہی سماعت کرنے کی استدعا کی۔
تاہم چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے استدعا مسترد کرتے ہوئے سماعت آج بدھ کے لیے مقرر کی تھی۔ 
عدالت نے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا جسے کچھ دیر بعد سناتے ہوئے عدالت نے کہا عمران خان اپنی درخواست سیشن کورٹ میں دائر کریں اور ٹرائل کورٹ قانون کے مطابق بیان حلفی کو دیکھے۔

توشہ خانہ کیس ہے کیا؟

اگست 2022 میں الیکشن کمیشن میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے ایم این ایز کی درخواست پر سپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف نے الیکشن کمیشن کو عمران خان کی نااہلی کے لیے ایک ریفرنس بھیجا تھا۔

ریفرنس میں کہا گیا تھا کہ عمران خان نے اپنے اثاثوں میں توشہ خانہ سے لیے گئے تحائف کی فروخت سے حاصل رقم کی تفصیل نہیں بتائی۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

ریفرنس میں کہا گیا تھا کہ ’عمران خان نے اپنے اثاثوں میں توشہ خانہ سے لیے گئے تحائف اور ان تحائف کی فروخت سے حاصل کی گئی رقم کی تفصیل نہیں بتائی۔‘
ریفرنس کے مطابق عمران خان نے دوست ممالک سے توشہ خانہ میں حاصل ہونے والے بیش قیمت تحائف کو الیکشن کمیشن میں جمع کروائے گئے اپنے سالانہ گوشواروں میں دو سال تک ظاہر نہیں کیا اور یہ تحائف صرف سال 2020-21 کے گوشواروں میں اس وقت ظاہر کیے گئے جب توشہ خانہ سکینڈل اخبارات کی زینت بن گیا۔
عمران خان اور ان کی جماعت نے ان تمام کیسز کو بدنیتی پر مبنی قرار دیتے ہوئے کسی قسم کی غیر قانونی سرگرمی میں ملوث ہونے سے انکار کیا۔
الیکشن کمیشن نے اکتوبر 2022 میں ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے قرار دیا تھا کہ عمران خان نے اثاثوں کی غلط تفصیلات جمع کرائیں اور کرپٹ پریکٹسز کے مرتکب ہوئے۔ 
الیکشن کمیشن نے فیصلے میں عمران خان کے خلاف فوجداری کارروائی کا حکم دیا تھا۔

شیئر: