پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے وزیراعظم ہوتے ہوئے جس احتجاجی سیاست کا آغاز کیا، گیارہ ماہ گزرنے کے باوجود وہ اس کو کئی مراحل سے گزار کر اسی شدت کے ساتھ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
ان گیارہ ماہ میں جہاں تحریک انصاف کے ورکرز نے اپنے بارے میں پائے جانے والے تصور کو غلط ثابت کر دیا ہے وہیں تحریک انصاف کے کئی رہنما منظرعام سے اوجھل ہیں۔
گزشتہ روز بھی جب پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے وارنٹ گرفتاری کی تعمیل کے لیے پولیس زمان پارک پہنچی تو سینکڑوں کی تعداد میں کارکنان نے پولیس کا راستہ روکا۔ پولیس کے ساتھ جھڑپوں میں درجنوں زخمی، درجنوں گرفتار اور سینکڑوں نے آنسو گیس اور لاٹھی چارج کا مقابلہ کیا۔ پولیس کی لاکھ کوششوں کے باوجود کارکنان نے نہ صرف پولیس کو عمران خان تک نہیں پہنچنے دیا بلکہ کئی بار پولیس کو پسپا ہونے پر مجبور کیا۔
مزید پڑھیں
-
پولیس ایکشن صبح دس بجے تک معطل، عمران خان کے وارنٹ برقرارNode ID: 750486
-
پولیس کی آمد سے پسپائی تک، زمان پارک میں کیا ہوتا رہا؟Node ID: 750506
-
پی ٹی آئی کے کارکنوں نے ’برگر کلاس‘ ہونے کا تاثر ختم کر دیا ہے؟Node ID: 750556
پولیس کی اس ساری کارروائی کے دوران جب کارکن پولیس تشدد کا سامنا کر رہے تھے تو گزشتہ چار سال وفاق اور پنجاب جبکہ گزشتہ نو سال سے کے پی میں اقتدار کے مزے لوٹنے والے اکثر قائدین منظر عام سے غائب تھے۔
کوئی بھی ایسا نہیں تھا کہ جو پرجوش کارکنان کو منظم کرنے اور انھیں پولیس کے تشدد سے بچانے کے لیے سامنے آتا۔ فرخ حبیب، حماد اظہر، زرتاج گل، مسرت چیمہ، عالیہ حمزہ کے علاوہ کسی کو بھی براہ راست پولیس کا سامنا کرتے ہوئے نہیں دیکھا گیا۔
اس حوالے سے لاہور سے صحافی اجمل جامی نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ’پی ٹی آئی کارکنان نے برگر پارٹی کا ٹیگ اتار پھینکا ہے، لیکن پارٹی کی انتہائی مرکزی قیادت کارکنان میں موجود نہیں تھی۔ فرخ حبیب، زرتاج گل، عالیہ حمزہ جیسی جوان قیادت تو موجود رہی لیکن عثمان بزدار، پرویز الٰہی اور دیگر اہم مرکزی رہنما میدان عمل میں موجود نہیں تھے۔‘
اس صورت حال میں بہت سے پارٹی رہنما، سابق وفاقی و صوبائی وزراء منظرعام سے غائب ہیں لیکن سب سے زیادہ جن تین افراد کی کمی محسوس کی جا رہی ہے ان میں پارٹی کے نئے صدر چوہدری پرویز الٰہی، صوبہ پنجاب سے سابق وزیراعلیٰ عثمان بزدار اور کے پی کے سابق وزیر اعلیٰ محمود خان شامل ہیں۔

اگر عمران خان کی اپنی کابینہ کا جائزہ لیا جائے تو ان کی کابینہ کے سینیئر ترین وزیر شاہ محمود قریشی جیل بھرو تحریک میں بھی موجود تھے اور کل بھی زمان پارک میں دکھائی دیے، لیکن پولیس کارروائی کے سامنا کرنے کارکنان کے ساتھ باہر نہیں آئے۔ اسد عمر بھی کل لاہور میں ہونے کے باوجود زمان پارک سے دور رہ کر ورکرز بلانے کی تگ و دو میں لگے رہے۔ پرویز خٹک اسلام آباد میں بیٹھ کر کارکنان کو لاہور پہنچنے کی ہدایت کرتے رہے۔ اسد قیصر، فواد چودھری اور شبلی فراز اسلام آباد میں عدالتی محاذ سنبھالے ہوئے تھے۔ فواد چودھری نے بدھ کے روز لاہور میں وکلا کو بھی کافی حد تک متحرک کیا۔
مراد سعید، علی امین گنڈا پور، حماد اظہر، علی زیدی، ذولفی بخاری، قاسم سوری وقفے وقفے سے کارکنان کے ساتھ زمان پارک کے باہر آنسو گیس کا سامنا کرتے ہوئے نظر آئے۔ اعظم سواتی ہمہ وقت زمان پارک کے اندر عمران خان کے ساتھ موجود رہے۔
تاہم گزشتہ گیارہ ماہ سے عمران خان کابینہ کے حصہ رہنے والے جو وزراء منظر سے غائب ہیں ان میں خسرو بختیار، شفقت محمود، سید فخر امام، غلام سرور خان، نورالحق قادری، مونس الٰہی، محمد میاں سومرو، علی محمد خان، شہریار آفریدی، ایوب آفریدی ملک امین اسلم اور شہزاد اکبر شامل ہیں۔
دوسری جانب جہاں عمران خان کے ووٹوں سے پنجاب کے وزیراعلیٰ رہنے والے عثمان بزدار کا دور دور تک نام و نشان نہیں مل رہا تو پارٹی کے تازہ تازہ صدر بننے والے پرویز الٰہی زمان پارک سے چند کلومیٹر دور لاہور میں اپنے گھر میں موجود ہیں اور عمران خان اور اپنی جماعت کے ورکرز سے اظہار یکجہتی کے لیے زمان پارک نہیں آ سکے۔ پنجاب کابینہ کے اہم ارکان راجہ بشارت، یاسر ہمایوں، مراد راس، ہاشم صوگر، میاں محمود الرشید، محسن لغاری، ہاشم جواں بخت اور چوہدری ظہیرالدین بھی موجودہ صورت حال میں قائدانہ کردار ادا کرنے سے قاصر رہے۔
البتہ یاسمین راشد اور فیاض الحسن چوہان کسی نہ کسی محاذ پر اپنی موجودگی کا احساس دلانے میں کامیاب ضرور ہوئے ہیں۔
