ہمارے خاندان میں مانگنے کا سلسلہ گزشتہ ہزاروں سال سے نسل در نسل چلا آ رہا ہے، ہمیں یہ شرف حاصل ہے کہ ہمارے آباءنے دنیا کی ہر کرنسی میں بھیک مانگی ہے
شہزاد اعظم
واقعہ ہے ہماری ناپختہ عمری کا، اور ناپختگی بھی اتنی کہ ہم کھانے پینے کی تمام اشیاءبھی اپنی امی جان سے مانگ کر کھایاکرتے تھے۔ اس دور میں ہمیں مانگنے والے اور مانگنے والیاںبہت پیارے اور پیاری لگتی تھیںکیونکہ ہمیں اُن میں اپنی شبیہ دکھائی دیتی تھی۔ ہم سوچتے تھے کہ اُنمیں اور ہم میں صرف اتنا فرق ہے کہ ہم ہر شے کسی سے نہیں مانگتے ،صرف امی جان سے مانگتے ہیں اور یہ لوگ سب سے مانگتے ہیں صرف امی جان سے نہیںمانگتے ۔ہم اس تفاوت کا بھید جاننا چاہتے تھے مگر اس کےلئے ضروری تھا کہ ہم خود کسی فقیر، منگتے ، بھکاری یا سوالی سے استفسار کریں اور ایسا کرنے کےلئے ضروری تھا کہ ہم تنہاءگھر سے باہر جانے کے قابل ہوجائیں چنانچہ ہمیں 5برس انتظار کرنا پڑا۔ ہم چھٹی جماعت میں پہنچے تو مس شکیلہ نے ایک روز ہماری امی سے کہا کہ اب آپ کے فرزند اس قابل ہوگئے ہیں کہ اکیلے ہی اسکول آ جا سکےں اس لئے اب آپ انہیں اکیلا ہی بھیج دیا کریں۔امی جان نے مس شکیلہ کی بات مان لی۔ اگلے ہی روز ہم تنہاءاسکول کےلئے نکل کھڑے ہوئے ۔ ہم بے حد خوش تھے کہ آج اسکول کے باہراس کہنہ مشق فقیر ”منگو بابا“ سے استفسار کریں گے کہ آپ ہر ایک سے مانگتے ہیں پھر امی سے کیوں نہیںمانگتے ؟منگونے کہا کہ برخوردار! ہم نے تو اپنے ہاں کی اَمیوںکو بھی مانگنے پر لگایا ہوا ہے۔ اگر وہ نہیں مانگیں گی تو ہماری یومیہ آمدنی میںایک فرد کی کمائی کی کمی واقع نہیںہو گی؟یہ سن کر ہم ”بکا ہکا“ رہ گئے۔ہمارے اس ”بکے ہکے پن“ میں اس وقت اوربھی اضافہ ہوا جب ”منگو“ نے اپنی مونچھوں کو تا¶ دیتے اور گردن اکڑا کر ٹیڑھی کرتے ہوئے انتہائی تفاخر سے فرمایا کہ بھیا! ہمارے خاندان کا ہر فرد مانگتا ہے ، ہم اٹھائی گیرے نہیں، خاندانی فقیر ہیں۔ ہمارا باپ، دادا، سکڑ دادا، لکڑ دادا، پھکڑ دادا، سب کے سب بھکاری تھے۔ ہمارے پیرانِ فرتوت بتاتے تھے کہ ہمارے خاندان میں مانگنے کا سلسلہ گزشتہ ہزاروں سال سے نسل در نسل چلا آ رہا ہے۔ ہمیں یہ شرف حاصل ہے کہ ہمارے آباءنے دنیا کی ہر کرنسی میں بھیک مانگی ہے۔ ہم سے150پشت پہلے ہمارے ”ابااور امّائے قدیم “دیہات کی پگڈنڈیوں اور شہروں کے پختہ راستوں پر کھڑے ہو کر ہر آنے جانے والے سے کہا کرتے تھے کہ ”ایک ٹھیکری کا سوال ہے بابا۔“ اس کے بعد قریباً111 پشت قبل ہماری” امّائے قدیم“ جب ا پنے ”دولہا“کے ساتھ بھیک مانگنے نکلتی تھیں تو یہ جوڑا لوگوں سے کہا کرتا تھا کہ ”ایک کوڑی کا سوال ہے بابا۔“ ہمارے آباءکی چندنسلیں مزید گزریں تو نئے نویلے زن و شوبھکاری جب ”پیشہ ورانہ ذمہ داریاں“ نبھانے کےلئے گھر سے نکلتے تو یوں ایک دوسرے کی آواز میں آواز ملاتے کہ ”ایک اشرفی کا سوال ہے بابا۔“
منگوہمارے وطنِ عزیز میں زندہ دلان کے شہر لاہورکے قدیم محلے میں نصب لکڑی کے صدیوں پرانے دروازے کے پاس بیٹھا صدا لگاتا سنائی دیتا ہے کہ ”ایک سو کے نوٹ کا سوال ہے بابا“۔ہم گزشتہ ماہ اپریل کی 19تاریخ کو پنجاب کے دارالحکومت ”لاہور“ میں موجود تھے۔ ہمیں اپنی ناپختہ عمری یاد آئی تو ہم اسی محلے جا پہنچے۔ہم منگوکو دیکھ کر حیران رہ گئے۔35سال بعد اس سے ملاقات ہوئی تھی۔ اس کی عمر آج قریباً90برس کی ہوگی مگر صحت قابل رشک ، بالوں میں سفیدی ذرا زیادہ ہوگئی مگر باقی کچھ نہیں بدلا۔ہم نے کہا کہ صحت کا راز کیا ہے؟ کہنے لگا کہ اچھا کھانا، ذہنی تفکرات سے دور رہنا،من مانی کرنا، کسی کی نہ سننا اوربھرپور نیند سونا۔ ایسے میں صحت خراب ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
ہم نے منگو سے کہا کہ کیا آپ نے کبھی اپنی ”اصلاح“ کی کوشش کی؟ یہ سن کر منگو سیخ پا ہو گیا۔ اس نے کہا کہ آپ ہمیں ”بگڑی ہوئی شخصیت“ قرار دینا چاہتے ہو؟ ہم نے ایسا کون سا گناہ کیا ہے؟ ہم نے کسی کو سہانے خواب یا سبز باغ نہیں دکھائے، ہم نے اپنا اُلو سیدھا کرنے کےلئے کسی سے خواہ مخواہ کے وعدے نہیں کئے۔ ہم نے کسی سے کبھی جھوٹ نہیں بولا، ہم نے کسی انسان کو تو دور کی بات ، کسی بلے یا بلی کو بھی بوری میں بند کر کے نہیں پھینکا۔ہم نے دکھی انسانیت کو جعلی ادویہ دے کر نہیں مارا، ہم نے کسی فیکٹری میں آگ لگا کر لوگوں کو زندہ نہیں جلایا، ہم نے کسی سے بھتے نہیں لئے، ہم نے لوگوں کو گدھے کا گوشت نہیں کھلایا، ہم نے گھٹیا اور غیر معیاری خوردنی اشیاءمہنگے داموں بیچ کر اپنی تجوریاں نہیں بھریں۔ ہم نے ذخیرہ اندوزی کر کے حرام کا نفع نہیں کمایا، ہم نے آج تک لانڈری میںمیلے کچیلے کپڑے دھلواکر سفید کروائے ہیں، سیاہ دھن کوسفید کرنے کےلئے لانڈری کا استعمال کبھی نہیں کیا کیونکہ ہمارے پاس سیاہ دھن موجود ہی نہیں۔ ہم نے رشوتیں لے کر مجرموں کو آزاد نہیں کیا، ہم نے بھاری بھرکم فیسیں لے کر قاتل کو بے گناہ اور مقتول کو واجب القتل قرار نہیں دلوایا۔ہم تو راہ گیروں کو آتا جاتا دیکھ کر آواز لگا دیتے ہیں کہ جو دے اس کابھی بھلا اور جو نہ دے اس کا بھی بھلا۔ آپ یقین جانئے میں قسم کھانے کےلئے تیار ہوں کہ ہمارے خاندانِ فقیران کا کوئی بھکاری ”پانامہ“ میں بھیک نہیں مانگتا۔ میرا سوال یہ ہے کہ آپ نے اتنے بگڑے ہو¶ں کو تو کبھی اصلاح کےلئے نہیں کہا، آپ کو ایک ہم ہی ”بگاڑکاسبب“ دکھائی دیتے ہیں؟ہم نے منگو کو سمجھاتے ہوئے کہا کہ ہمارامطلب یہ ہرگز نہیں تھا، یوں سمجھیں زبان پھسل گئی تھی، ہم کہنا یہ چاہتے تھے کہ کیا آپ نے کبھی ”پروفیشن چینج“یعنی پیشہ تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کی؟ منگو نے کہا کہ ”پروفیشن چینج“ کا ا یک واقعہ کئی صدیوں قبل ہم سے89 پشت پہلے پیش آیا تھا۔ ہوا یوں کہ ہمارے ایک کھپٹ دادا کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی۔ وہ انتہائی خوبصورت تھی۔ نین نقش ایسے کہ اسکی ماں نے پیدائش کے بعد جیسے ہی بیٹی کو دیکھا تو حیرت، خوشی اور تجسس سے دھاڑیں مار کر رونے لگی کہ میں اتنی حَسین بیٹی کو کیسے پالوں گی۔بہر حال ماں باپ نے اس کا نام جگنو رکھا، اسے بھیک مانگ مانگ کر پال پوس کر جوان کیا۔ ایک روز اُس وقت کا راجہ 7گھوڑوں والی بگھی میں سوار وہاں سے گزراتو اس کی نظر جگنو پر پڑی۔ اس نے اس ”بھکاری فیملی “کو اپنے محل میں بلوایااور جگنو سے شادی کرنے کا ارادہ ظاہر کیا۔ فقیر اور فقیرنی نے اپنی بیٹی کا رشتہ دینے میں ذرا بھی دیر نہ کی اور شادی ہوگئی۔منگو نے کہا کہ ہمارے ” کھپٹ دادااور دادی“ اتنی ہرک آن والے تھے کہ راجہ کے کہنے کے باوجود انہوں نے محل میں رہنا گوارہ نہیں کیابلکہ اپنی کھولی میں واپس چلے آئے۔کہتے ہیں کہ راجہ نے جگنو کو اپنی رانی بنانے کے بعد کہا کہ آپ اپنا کوئی خواب بتائیے تاکہ میں اسے حقیقت بنا کر آپکے سامنے پیش کر سکوں۔ اس نے فٹ سے جواب دیا کہ راجہ جی! میرا خواب ہے کہ 10کوس طویل پختہ راستہ ہو ، اس کے ایک جانب ہر کوس میں 100طاق موجود ہوں، اس راستے پرمیں برہنہ پا جا رہی ہوں،میرے ہاتھ میں ڈھوبرا ہو مگر سونے کا، میں ہر طاق کے پاس رُک کر آواز لگا¶ں کہ ایک اشرفی کا سوال ہے بابا اور فوراً ہی طاق سے ہاتھ نمودارہو اور میرے ڈھوبرے میں اشرفی ڈال دے....... سنا ہے راجہ نے جگنو کا خواب پورا کر دیا تھا۔ یہ واقعہ جس علاقے میں ہوا تھا وہ آج بھی کراچی میں موجود ہے اور ”فقیر کالونی“ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ منگو نے سینہ تان کر کہا کہ وطن عزیز کے اکثر بڑے چھوٹوں میں ہماری نسل کے افرادموجود ہیں ، ہمارا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔
٭٭٭٭٭٭