ان میں تین صحافیوں کو اوپن ہارٹ سرجری، پانچ کو سٹنٹ ڈلوائے گئے جبکہ دو کی انجیوگرافی کی گئی ہے۔
پشاور کے سینئیر صحافی ایم ریاض نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’خبر کی تلاش اور ڈیڈ لائن کو پورا کرنے کی دوڑ میں صحافی کو اپنی صحت کی پروا نہیں رہتی۔‘
’صحافیوں کو مالی مشکلات کا بھی سامنا ہے۔ اس لیے وہ ڈپریشن اور ذہنی تناؤ میں مبتلا رہتے ہیں۔‘
ایم ریاض کے مطابق قلیل عرصے میں صحافیوں میں دل کے امراض میں اضافہ ہو گیا ہے جو کہ تشویش ناک ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اخبارات کے بیشتر صحافیوں کی تنخواہیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اگر وہ نوکری سے فارغ کر دیے جاتے ہیں تو مارکیٹ میں ملازمت کے مواقع بھی موجود نہیں ہیں۔‘
پشاور پریس کلب کے جنرل سیکرٹری عرفان موسی زئی نے موقف اپنایا کہ ’بطور رپورٹر وہ سارا دن خبر کے پیچھے بھاگتے ہیں۔ ان کو کھانے کی فکر ہوتی ہے نہ آرام کرنے کی۔‘
’زیادہ سٹریس کی وجہ سے صحافیوں کو نیند بھی نہیں آتی ہے۔ شاید یہی وجوہات ہیں کیونکہ ہم اپنے لیے وقت نہیں نکال سکتے۔‘
ماہر امراض قلب کی رائے
پشاور انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے میڈیکل ڈائریکٹر اور سرجن پروفیسر ڈاکٹر شاہکار احمد شاہ نے اردو نیوز کو بتایا کہ دل کے امراض میں مجموعی طور پر اضافہ ہوا ہے جس کے مختلف وجوہات ہیں۔
انہوں نے کہا ’ایک تو ہماری غذا متوازن نہیں ہے جیسا کہ ہمارے گھروں میں بناسپتی گھی کا بہت زیادہ استعمال کیا جاتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہم اپنی صحت کو وقت نہیں دیتے یعنی مرغن غذا کھانے کے بعد ورزش وغیرہ بالکل نہیں کرتے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا ’صحافی برادری میں سگریٹ نوشی کا رحجان بھی بہت زیادہ ہے جو کہ دل کے امراض میں اضافے کی ایک بڑی وجہ ہے۔‘
انہوں نے مشورہ دیا کہ’40 سال عمر کے بعد ہر کسی کو سال میں ایک دفعہ اپنا معائنہ کروا لینا چاہیے تاکہ اگر کوئی پیچیدگی سامنے آتی ہے تو اس کا علاج کیا جا سکے۔‘
پشاور کے صحافیوں میں دل کی بیماریاں سامنے آنے کے بعد پریس کلب میں میڈیکل کیمپ بھی لگایا گیا جس میں تمام ممبران کے ایکو اور ای سی جی ٹیسٹ کروائے گئے۔
سکریننگ کے بعد 10 سے زائد صحافیوں کو مزید معائنے کے لیے پشاور انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں آنے کا مشورہ بھی دیا گیا۔
’کراچی کے صحافی بھی محفوظ نہیں‘
کراچی میں بھی صحافیوں کی بڑی تعداد دل کے عارضے کا شکار ہے۔
سیکریٹری کراچی پریس کلب شعیب احمد نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ گزشتہ برس 25 سے زائد صحافیوں کو امراض قلب کی وجہ سے ہسپتال منتقل کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’صحافت کے شعبے سے وابستہ افراد مسلسل سٹریس لینے کی وجہ سے بیماریوں کے شکار ہو رہے ہیں۔‘
’صحافیوں کو کئی مشکلات کا سامنا ہے۔ ایک جانب تنخواہوں کی ادائیگیاں نہیں ہو رہیں تو دوسری جانب مہنگائی میں بے تحاشا اضافے کے باوجود اداروں میں کئی کئی سال سے تنخواہیں نہیں بڑھائی گئیں۔‘
شعیب احمد نے مزید کہا کہ ’اس مشکل صورتحال میں کام کرنے والوں کو مختلف جگہوں سے پریشر کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘
’حکومت نے صحافیوں کے تحفظ کے لیے بل تو بنایا ہے، لیکن اس پر عملدرآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔‘