Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پشاور میں بار بار لُٹنے والے شہری جنہیں ’عدم تحفظ نے نفسیاتی مریض بنا دیا‘

سید آباد کے بزرگ رہائشی ذوہیب خان بھی تین مرتبہ راہزنی کے شکار ہوئے۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)
خیبرپختونخوا کے شہر پشاور میں سٹریٹ کرائمز کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے۔ موبائل فونز اور موٹر سائیکل چھیننے کے واقعات پیش آ رہے ہیں۔
کچھ شہری تو ایسے بھی ہیں جو متعدد بار راہزنی کا شکار ہو چکے ہیں۔
ایک شہری عظمت علی خان کو تو آٹھ مرتبہ موبائل فون اور نقدی سے محروم کیا گیا۔
عظمت علی خان کا تعلق پشاور صدر سے ہے۔
اُردو  نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے عظمت نے بتایا کہ چھ مرتبہ سمارٹ فون جبکہ دو بار ان سے پرس چھینا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ ‘یہ واقعات گلبرگ کے علاقے میں پیش آئے۔ دو دفعہ ایف آئی آر درج کرائی مگر کچھ نہ ہوا بلکہ اس چند ماہ بعد مجھے پھر لوٹا گیا۔‘
عظمت علی خان کے مطابق ’ڈاکو دیدہ دلیری سے منہ چھپائے بغیر کارروائی کرتے ہیں اور اکثر واقعات پولیس سٹیشن کے بالکل قریب پیش آئے۔‘  
’آخری بار میرے ساتھ تین دوست بھی تھے۔ ہم سب کو اسلحے کی نوک پر نقدی اور موبائل فون سے محروم کر دیا گیا۔‘ 
انہوں نے کہا ’میں اب اتنا مایوس ہوچکا ہوں کہ ایک دو واقعات کے بعد اب مقدمہ بھی درج نہیں کراتا کیونکہ اس کا کوئی فائدہ نہیں۔‘
شہری عظمت علی کا مزید کہنا تھا کہ ’عدم تحفظ نے مجھے نفسیاتی مریض بنا دیا۔ اب تو موبائل فون گھر پر رکھ کر باہر نکلنا پڑتا ہے۔‘

بزرگ شہری تین مرتبہ موٹرسائیکل سے محروم

سید آباد کے بزرگ رہائشی ذوہیب خان بھی تین مرتبہ راہزنی کے شکار ہوئے اور تینوں واقعات ایک ہی تھانے کی حدود میں پیش آئے۔
بزرگ شہری سے پہلی دفعہ ان کے گھر میں ڈکیتی ہوئی۔ اس وقت ڈاکو نقدی کے ساتھ بائیک بھی لے گئے۔
پھر کچھ عرصے بعد راہزنوں نے ان کی موٹرسائیکل چھین لی جبکہ تیسری دفعہ بھی راستے پر ان کو لوٹا گیا اور ڈاکو ان کی ایک اور بائیک لے اڑے۔
تینوں واقعات کے بعد شہری نے مقدمات درج کرائے مگر ان کیسز میں کوئی پیش رفت ہوئی اور نہ ہی کوئی ملزم گرفتار ہوا۔ 

صحافی بھی ڈاکوؤں کے نشانے پر

پشاور کے علاقے بشیر آباد میں رہائش پذیر سنئیر صحافی ظفر اقبال بھی دو بار موبائل فون سے محروم کیے جا چکے ہیں۔
ظفر اقبال نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا ’ڈاکو دونوں مرتبہ اسلحہ دکھا کر موبائل لے گئے۔ میں نے مقدمہ درج نہیں کرایا کیونکہ اس کا فائدہ نہیں۔ الٹا پولیس پوچھ گچھ کرکے پریشان کرتی ہے۔‘
’اب تو شام کے بعد موبائل فون گھر پر رکھ کر باہر جاتا ہوں۔‘
 انہوں نے بتایا کہ ’راہزنی کے واقعات کا انسان کی نفسیات پر اثر پڑتا ہے۔‘
پشاور کے نجی نیوز چینل سے وابستہ ایک اور صحافی سجاد حیدر کے ساتھ بھی دو مرتبہ ایسی وارداتیں ہو چکی ہیں۔
ایک اور شہری نوید احمد نے اردو نیوز کو بتایا کہ ان سے تین دفعہ ڈاکو نقدی اور موبائل فون چھین کر لے گئے جبکہ ایک بار مزاحمت پر ان کے ساتھ مار پیٹ بھی ہوئی۔
نوید احمد کے مطابق ایک واقعہ سرکی روڈ جبکہ دو واقعات گھر جاتے ہوئے وزیر باغ روڈ پر پیش آئے۔
’پہلے واقعے کی رپورٹ کرنے تھانے گیا تھا مگر پولیس نے ایف آئی آر کی بجائے سادہ کاغذ پر روزنامچہ لکھ کر دیا۔‘

شواہد دیکھ کر ایف آئی آر درج کرتے ہیں: پولیس

ایس پی فقیر آباد سرکل ڈاکٹر عمر نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’افسران بالا کی جانب سے ہدایت کی گئی ہے کہ جو بھی رپورٹ کے لیے آئے گا، ایس ایچ او موقع پر جا کر دیکھے گا اور ایف آئی آر درج کرے گا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’گزشتہ ہفتے فقیرآباد تھانے میں متعدد ایف آئی آرز درج کی گئیں۔ ان واقعات میں بھی ایف آئی آر ہوئی جن میں پہلے انکوائری بنتی تھی۔‘
ایس پی فقیر آباد ڈاکٹر عمر کے مطابق بعض واقعات میں سی سی ٹی وی فوٹیج اور دیگر شواہد دیکھ کر ایف آئی آر درج کی جاتی ہے، اس لیے تھوڑی بہت تاخیر ہوجاتی ہے۔
کیپیٹل پولیس سٹی پولیس کے ترجمان کے مطابق’ 22 اور 23 مارچ کو پولیس نے اہم کارروائی کی جس میں 10 ملزمان گرفتار کیے گئے۔ ملزمان کا تعلق خطرناک راہزن گینگ سے ہے۔‘
پولیس کے مطابق ’یہ ملزمان راہ چلتے شہریوں کو لوٹتے تھے۔گرفتاری کے بعد ملزمان سے نقدی اور سمارٹ فونز بھی برآمد کیے گئے۔‘
پولیس کے مطابق ‘راہزن گینگ میں افغان شہری بھی ملوث ہیں۔‘

شیئر: