Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

رمضان میں رحمت رحمان کا خصوصی ٹائم ٹیبل اور اس سے استفادہ

رمضان کے دنوں میں ہمیں بامقصد روزہ رکھناہے تو اس کی راتوں کو قیام وقرآن سے معمور بناناہے
* * * * * * ڈاکٹر سعید احمد عنایت اللہ۔ مکہ مکرمہ * * * * * *
ہم وہ عناصر وعوامل بیان کر رہے ہیں جنہیں رمضان المبارک میں رحمان کی رحمت کا خصوصی ربانی چارٹ اور ٹائم ٹیبل بھی کہہ سکتے ہیں کہ یہی عناصر حضرتِ انسان کی تہذیب وتزکیہ اور روزہ دار کے لئے مقصدروزہ کے حصول میں مؤثر ترین وسائل وذارئع ہیں : اولاً : روزہ دار کا روزہ سحری سے شروع ہورہا ہے ۔ سحور ،سنت رسول ہے،ارشاد نبویؐ ہے ’’ اے مسلمانو! سحری کیا کرو یقینا اس میں تمہارے لئے برکت ہے ۔‘‘یاد رہے کہ جملہ برکات کا مرجع خالق کی ذاتِ گرامی ہے تو سحری کا عمل روزہ دار کو رحمان رحیم رب سے وابستہ کرنے کا بہترین ذریعہ ثابت ہوتاہے،نیز آپ نے فرمایا کہ’’ اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے سحری کرنے والوں پر درود بھیجتے ہیں ۔‘‘نیز فرمایا’’ہمارے اور اہل کتاب کے روزہ میں فرق ہمارا سحری کرناہے ۔‘‘دیکھئے سحری کے عمل نے روزہ دار کو نہ صرف خالق سے وابستہ کیا بلکہ اسے اس کی رحمت کا مستحق ٹھہرایا ۔
سحری خیر امت کا طرہ ٔ امتیاز ہے ۔پھر سحری میں جاگنا ،روزہ دار کیلئے سحری کے دیگر لوازمات کو آسان بنادیتاہے ۔وہ وضوکرتاہے ،نفل نماز پڑھ لیتاہے ،تو بہ واستغفار کرتاہے ،فجر کی سنتیں اور فرض اداکرتاہے اور یہی اقامت الصلاۃ اہل تقویٰ کی دوسری نمایاں صفت ہے ۔ ثانیاً: روزہ دار صبح صادق سے غروب آفتاب تک جملہ حلال کھانے ،پینے اور بہت سے دیگر حلال اعمال سے وہ رکا رہتاہے ۔رہے محرماتِ شرعیہ تو وہ ان کے قریب بھی نہیں بھٹکتا۔یہ ساری مشق انہی محرمات سے مستقل طورپر بچنے کی خاطر کرائی جارہی ہے ۔ ثالثاً: روزہ کا اہتمام ہورہا ہے ۔غروب آفتا ب جو روزہ کا وقت اختتام ہے ،اس میں تو ہر روزہ دار پورے ذوق وشوق سے اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ رہتا ہے ۔روزہ رکھتے وقت اظہار ِاخلاص ، دورانِ روزہ اللہ تعالیٰ کی عظمت کا استحضار اور افطار کے وقت ، پھر اظہارِ اخلاص ، آغاز واختتام کے مابین بھی اخلاص سے دن گزارنا،یہی ایمان وتقویٰ کی روح ہے،پھرافطار کے وقت دعاء جو روزہ دار کرتاہے ،اسمیں بھی تامل کیجئے کہ دعا تو عبادت کا مغز ہے ۔
دعا میں بندہ اللہ تعالیٰ کے سب سے زیادہ قریب ہوتاہے،یہی تقویٰ سے غرض وغایت ہے ۔ رابعاً:اس ماہِ مبارک کی ایک خصوصیت رمضان کی راتوں کا قیام ہے جس میں قرآن کی طویل قرأت اور سماع ،پھر وہ اقامت الصلاۃ میں جو ایمان بالغیب یا شہادتین کے بعد قرآن ہی نے اہل تقویٰ کی نمایاں صفت بتائی ہے رحمان کی عبادت کا اعلیٰ ترین مظہر ہے اور عباد الرحمن متقین کا دوسرا حسین ترین لقب ہے ،قرآن نے رحمان کے بندوں کی راتوں کا یوں تذکرہ فرمایا ہے : والذین یبیتون لربہم سجدا وقیاما’’جو اپنی راتیں اپنے رب کے حضور قیام اور سجدہ میں گزارتے ہیں ۔‘‘( الفرقان34) یقینا یہ ماہ رمضان اس صفت میں پختگی پیدا کرنے میں بہترین معین ومددگار ثابت ہوتاہے ۔ تأمل کیجئے کہ اس ماہ مبارک میں سحور یعنی آغاز تا افطار پھر سنت قیام اللیل،سنت انفاق فی سبیل اللہ اور اس پر مستزاد صدقۂ فطر یہ سب کے سب تقویٰ کے حصول کیلئے مؤثر ترین عناصر اور کامیاب ترین اسباب وذرائع ہیں جو صرف اور صرف اس ماہ مبارک میں تقویٰ کا سازگار ماحول پیداکرتے ہیں ۔ حق تعالیٰ شانہ ہم میں شعور پیداکردے کہ ہمیں یہ استحضارر ہے کہ ہمیں سال کے اس افضل ترین مہینے کے شب وروز میں بہترین زادِ راہ ’’ تقویٰ‘‘ کی زینت سے آراستہ ہونا ہے تاکہ رمضان اور ما بعد رمضان ہم مخلصینِ عباد الرحمن ثابت ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے رمضان کو ایک ایسا عظیم الشان روحانی ،اصلاحی وتربیتی مدرسہ قراردیا جس میں تربیت پانے والے اس سے فراغت کے بعد تقویٰ کی دولت سے مالا مال ،نور وبصیرت سے منور منصب عرفان ومعرفت سے آراستہ اور مزین ہوتے ہیں۔الغرض سچے روزہ دار روزہ کے مقصد کو پالینے والے ہوتے ہیں ۔
اگر روزہ دار کا روزہ با مقصد نہیں اور اسے اس کے وہ منافع حاصل نہ ہوں جو اس کی فرضیت کا باعث اور حکمت ہیں تو ایسے شخص کا رمضان کیسا ہے ؟ یہ موضوع بھی ایک مؤمن کی زندگی میں خاص اہمیت کا حامل ہے اور لائقِ تأمل بھی ،اس سلسلے میں ہمارے لئے آنحضرت کی ہدایات موجود ہیں جیساکہ احادیث مبارکہ میں آیا ہے کہ جناب نبی کریم نے مسجد نبویؐ میں اپنے منبر مبارکہ پر چڑھتے ہوئے جب پہلی سیڑھی پر قدم رکھا تو ’’آمین ‘‘فرمایا،اسی طرح دوسری سیڑھی پر جب قدم مبارک رکھا تو ’’آمین ‘‘فرمایااسی طرح تیسری سیڑھی پر چڑھتے ہوئے بھی ’’آمین ‘‘فرمایا۔صحابہ کرام نے آپ سے آپ کے آمین کہنے کی وجہ دریافت کی تو آپ نے اس کی توجیہ میں فرمایا کہ:جبرئیل علیہ السلام نے ایک بار اس شخص کی محرومی کی دعاکی جس نے رحمت للعالمین کا نام مبارک سنا مگر آپ پر درود نہ بھیجا جس پر آپ نے آمین فرمایا، دوسری بار اس شخص کی محرومی کی دعا کی جس نے والدین یا ان میں سے کسی ایک کو پایا مگر پھر بھی جنت نہ پاسکا جس پر آپ نے آمین فرمایا۔ اسی طرح جبرئیل علیہ السلام نے تیسری بار اس شخص کی محرومی کی دعاکی جس نے رمضان المبارک کا مہینہ پایا مگر مغفرت نہ پاسکا ۔آپ نے اس پر بھی آمین فرمایا ۔ اب غور کرنے کی بات یہ ہے کہ جس کی محرومی کی دعا جبرئیل امین کریں اور اس بد دعا پر آمین جناب نبی کریم فرمائیں تو ایسے شخص کی محرومی میں کیا شک رہ جاتاہے؟
یاد رکھیں کہ اللہ کی رحمت کے حصول کیلئے بندے کی طرف سے سعی ،ارادہ ،اس کی طرف میلان اور اس کی طلب شرط ہے ۔بندہ ایک بالشت بڑھے تو رحمتِ ربانی ایک گز اس کی طرف بڑھتی ہے ۔بندہ اس کی طرف چلے تو رحمت ربانی اس کی طرف دوڑتی ہے۔ جناب نبی کریم رمضان کے شب وروز گزارنے کیلئے خصوصی ہدایات امت کو عطافرمائیں۔ ان ایام مبارکہ کو ان ہدایات کے مطابق گزارنے والا کبھی محروم نہیں ہوسکتا اور وہ اس ربانی اصلاحی مدرسہ کا کامیاب فارغ التحصیل قرار پائے گا۔ رمضان کی عظمت اور اس کے شب وروز گزارنے کے طریقہ کے بارے میں سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ نبی کریم نے شعبان کی آخری تاریخ میں ہمیں وعظ فرمایا کہ’’ تم پر عظمت والا مہینہ سایہ فگن ہورہا ہے ،یہ بڑی ہی برکتوں والا مہینہ ہے ۔ایسا مہینہ جس میں ایک رات ہے جو ہزار ماہ سے افضل ہے ۔اللہ تعالیٰ نے اس کے روزہ کو تمہارے لئے فریضہ قراردیا اور اس کی رات کے قیام کو تمہارے لئے باعث اجر وثواب بنادیا ،جو شخص اس ماہ مبارک میں کسی نیکی کے ذریعہ اللہ کا قرب حاصل کرے ایسا ہے جیسے اس نے غیر رمضان میں فریضہ اداکیا اور جو شخص اس ماہ میں فریضہ اداکرے ایسا ہے جیسے اس نے غیر رمضان میں 70 فرض اداکئے ۔ یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے ، یہ لوگوں کے ساتھ غم خواری کا مہینہ ہے، اس میں مؤمن کا رزق بڑھادیاجاتاہے ۔جس نے کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرایا تو یہ اس کے لئے گناہوں سے بخشش اور جہنم سے نجات کا سبب ہے اور اسے روزہ دار کی مثل ہی ثواب ملے گا مگرر وزہ دار کا اجر کم نہ ہوگا ۔‘‘صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ہم میں سے ہر شخص کو اتنی وسعت نہیں کہ روزہ دار کو افطار کرائے ،تو آپ نے فرمایا ’’ یہ ثواب تو اللہ تعالیٰ ایک کھجور پر یا ایک گھونٹ پانی پر یا ایک گھونٹ لسی پر افطار کرانے پر دے دیتے ہیں ۔یہ ایسا مہینہ ہے جس کا اول اللہ کی رحمت ،درمیانی حصہ مغفرت اور آخری حصہ آگ سے چھٹکارا ہے ۔
جو شخص اس مہینہ میں اپنے غلام سے بوجھ ہلکا کرے حق تعالیٰ شانہ اس کی مغفرت فرماتے ہیں اور اسے آگ سے آزادی دیتے ہیں اورتم اس ماہ میں 4 چیزوں کی کثرت رکھو جن میں2چیزیں اللہ تعالیٰ کی رضا کے واسطے اور2چیزیں ایسی ہیں جن سے تمہیں چارۂ کار نہیں ۔پہلی2 چیزیں جن سے تم اپنے رب کو راضی کرو ،وہ کلمہ طیبہ اور استغفار کی کثرت ہے اوردوسری 2چیزیں یہ ہیں ،جنت کی طلب کرو اور آگ سے پناہ مانگو ۔جو شخص کسی روزہ دار کو پانی پلائے حق تعالیٰ شانہ قیامت کے دن میرے حوض سے اسے ایسا پانی پلائیں گے جس کے بعد جنت میں داخل ہونے تک پیاس نہیں لگے کی۔‘‘ آنحضرت کے اس طویل ارشاد گرامی میں قابل تأمل امور جن کا ہمارے رمضان المبارک کے فیضان رحمان بننے سے گہرا تعلق ہے ،انہیں ہم نمبر وار ذکر کرتے ہیں : اولاً: اس کے استقبال اور اپنی ذہنی و فکری اور عملی تیاری اور استعداد ہو کہ اس کا ایک لحظہ بھی غفلت میں نہ گزرے ۔ ثانیاً:دن کو ایسا روزہ جس سے صرف بھوک پیاس ہی نہ ملے بلکہ اس کا ثمرِ حقیقی تقویٰ ہمیں حاصل ہو ثالثاً: اُس کی راتیں ضرورت سے زائد پر تکلف اور متنوع کھانوں یا محض تفریحی پروگراموں کی نذر نہ ہوجائیں جس طرح کہ آج کل ہمارے ذرائع ابلاغ عامہ کا شیوہ بن چکا ہے کہ وہ اس ماہ مبارک کی راتوں میں اپنے سامعین وناظرین کی تمامتر توجہات اپنی طرف مبذول کرانے کی خاطر خصوصی رمضانی تفریحی پروگرام بڑی جانفشانی اور کمال ہوشیاری سے پیشگی منصوبہ بندی کرکے پیش کرنے میں مصروف عمل رہتے ہیں اورہم اہلِ غفلت رمضان کی بابرکت راتوں کی برکات سے محروم رہتے ہیں ( الا ماشاء اللہ )۔
رابعاً:آنحضرت نے رمضان کی راتوں کو قیمتی بنانے کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ’’ ان کے قیام کو اللہ تعالیٰ نے تمہارے اجر وثواب کا اورقرب الہٰی کا ذریعہ بنایا ‘‘ پوری امت مسلمہ خیر القرون سے اس ماہ میں قیام کرتی چلی آرہی ہے اور انشاء اللہ قیامت تک کرتی رہے گی جس میں مسلمان قرآن کریم کی تلاوت کرتے یا اسے سنتے ہیں۔قیام وقرآن اور رمضان کا باہم ربط ہے ،جناب رسول اللہ اس ماہ مبارک میں جبریل علیہ السلام کے ساتھ قرآن کا دور فرماتے تھے ،امت مسلمہ خیر القرون سے تاحال قیام اللیل یا تراویح میں قرآن کریم کا ختم کرتی ہے ۔قیام رمضان کے بارے حضرت عمرؓ نے مسلمانوں کو 20 رکعات پر جمع فرمایا اور رسول اللہ نے امت کو اپنی اور اپنے خلفائے راشدین کی سنت کی اتباع کا حکم فرمایا ،یہی وجہ ہے کہ ایک سائل نے جب مملکت سعودی عرب کے مفتیٔ اعظم سے سوال کیا کہ’’ کیا رمضان میں 20 رکعات تراویح بدعتِ عمر ہیں؟‘‘ تو انہوں نے جواب دیا ’’عمر کی سنت کو سنت رسول کہنے والے خود رسول اللہ ہیں کہ آپ نے اپنی اور اپنے خلفائے راشدین کی سنت کی اتباع کا حکم دیا ہاں البتہ ان کی سنت کو بدعت کہنے والا خود بدعتی ہے ۔‘‘رمضان کی راتوں میں قیام اللیل کی سنت پر پوری امت کرۂ ارض میں مجتمع ہے ۔ رمضان کے دنوں میں ہمیں بامقصد روزہ رکھناہے تو اس کی راتوں کو قیام وقرآن سے معمور بناناہے نہ کہ لہو ولعب اور تفریحات کے پروگراموں میں مشغول رہ کر رحمتوں کے ان اوقات کو غفلت کی نذر کردینا ہے ۔اللہ تعالیٰ ہماری سب کی حفاظت فرمائے اور ہمیں غفلت کے شر سے محفوظ رکھے ،آمین۔ خامساً: آنحضر ت نے اس ماہ مبارک کی راتوں میں ایک رات کے بارے عظیم خوشخبری بھی امت کو دی کہ رمضان ہی کی ایک رات اتنی قدروالی ہے جو ہزار ماہ سے افضل ہے ۔
قرآن حکیم میں ارشاد ربانی ہے ’’ہم نے اسے لیلۃ القدر میں نازل کیا ۔ لیلۃ القدر ہزار مہینے سے افضل ہے جس میں فرشتے اور روح الامین اترتے ہیں جوا ہل زمین کیلئے سراسر سلامتی ہی ہے طلوع فجر تک ۔‘‘(القدر5-1) لیلۃ القدر کی تعین نہ ہونا بھی حکمت ہے کہ مسلمان اس رات کو رمضان کی راتوں میں تلاش کریں ،خصوصاً آخری عشرہ کی طاق راتوں میں ، حدیث میں آیا ہے کہ اس کا علم آنحضرت کو دیدیا گیا تھا مگر2مسلمانوں کی باہم منازعت کی وجہ سے وہ اٹھالیا گیا۔کس قدر نحوست ہے برادرانِ اسلام کا باہم جھگڑاکرنا۔اہل ایمان تو باہم محبت کرنے، والے ایک دوسرے کے چاہنے والے، ایک دوسرے کیلئے اخلاص رکھنے والے برادران ہیں جن کی منازعت ان کی قوت کے بھی خلاف ہے اور روحانی برکات چھننے کا بھی باعث ،اس شعورِ ایمانی سے رمضان کی راتوں کو ہمیں اپنی اخوت، اپنی قوت اور امت کی وحدت کا ذریعہ بناناہے۔ جس رب کی رضا کیلئے دن کوروزہ رکھتے ہیں ،رات کو اسی کے سامنے قیام کرتے ہیں پھر کیونکر اس کے قرآن کی تعلیمات سے اعراض کریں ؟
(جاری ہے)

شیئر: