Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انتخابات التوا کیس کا فیصلہ محفوظ، ’لوگ من پسند ججوں سے فیصلہ کرانا چاہتے ہیں‘

چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کے لیے 20 ارب چاہییں۔ کون سا ترقیاتی منصوبہ 20 ارب روپے سے کم ہے؟ (فائل فوٹو: اے پی)
سپریم کورٹ نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات میں تاخیر کے معاملے پر کیس کی سماعت مکمل کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کر لیا ہے جو کل منگل کو سنایا جائے گا۔ 
پیر کو چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تین رکنی بینچ نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات میں التوا کے خلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت کی۔ 
سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ’آئین واضح ہے کہ الیکشن کب ہونے ہیں۔ مذاکرات کی آپشن کا کوئی جواب نہیں آیا۔ لوگ کہتے ہیں وہ آئین سے بالاتر ہیں۔ لوگ من پسند ججوں سے فیصلہ کرانا چاہتے ہیں۔‘
سماعت کے موقع پر جہاں عدالت کے اندر فریقین ایک دوسرے کو زِیر کرنے اور عدالت کو قائل کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے تھے وہیں عدالت کے باہر بھی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے وکلا چیف جسٹس سے اظہار یکجہتی کے لیے جمع ہوئے تھے۔ طویل عرصے بعد شاہراہ دستور پر کالے کوٹوں میں ملبوس وکلا چیف جسٹس کے حق میں نعرے لگاتے ہوئے دکھائی دیے لیکن ان نعروں میں وہ رنگ ڈھنگ نہیں تھا جو سنہ 2007 کی وکلا تحریک کے دور میں دیکھنے کو ملتا تھا۔

چیف جسٹس نے کہا بری فوج مصروف ہے تو نیوی اور ایئرفورس سے مدد لی جا سکتی ہے۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)

وکلا اور فواد چودھری کی استدعا مسترد 

سماعت سے قبل ہی پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری معمول کے کیس کے دوران چیف جسٹس کی عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ ریڈ زون کے داخلی راستے سیل کر دیے گئے ہیں۔ لگتا ہے ہم غزہ میں ہیں، وکلا کو بھی آنے سے روکا جا رہا ہے۔ ریڈ زون کے داخلی راستوں پر جھگڑے ہو رہے ہیں۔
فواد چوہدری کی شکایت پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’حکومت اور انتظامیہ اپنے سکیورٹی اقدامات کر رہی ہیں۔ کیس کی سماعت کر رہے ہیں، ہزاروں وکلا کا آنا ضروری نہیں۔ وکلا کو آپ نے کال دی ہے تو ان سے بات کریں۔‘
انہوں نے فواد چوہدری کی ریڈ زون کے داخلی راستے کُھلوانے کی استدعا مسترد کر دی۔

آپ نے بائیکاٹ ختم کر دیا؟ چیف جسٹس کا اچانک وار 

سماعت شروع ہوئی تو پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک روسٹرم پر آئے اور کہا کہ ہم کارروائی کا حصہ بننا چاہتے ہیں۔ جس پر چیف جسٹس اور جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آپ نے تو بائیکاٹ کر رکھا ہے۔ فارق ایچ نائیک نے جواب دیا کہ ہم نے تو بائیکاٹ کیا ہی نہیں تھا۔ ہمارے  درخواستوں کے قابل سماعت ہونے اور بینچ کے دائرہ اختیار پر تحفظات ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اخبار میں تو کچھ اور لکھا تھا۔ اگر بائیکاٹ کرنا ہے تو عدالتی کارروائی کا حصہ نہ بنیں، بائیکاٹ نہیں کیا تو لکھ کر دیں۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ آپ ایک طرف بینچ پر اعتراض کرتے ہیں دوسری طرف کارروائی کا حصہ بھی بنتے ہیں۔ حکومتی اتحاد کے اجلاس کا اعلامیہ پڑھ کر سنائیں۔
’گزشتہ 48 گھنٹے سے میڈیا کہہ رہا ہے کہ اعلامیے کے مطابق سیاسی جماعتیں بینچ پر عدم اعتماد کر رہی ہیں۔ ہم پر اعتماد نہیں ہے تو دلائل کیسے دے سکتے ہیں۔ اگر اعلامیہ واپس لیا ہے تو آپ کو سن لیتے ہیں۔‘

چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ’آئین واضح ہے کہ الیکشن کب ہونے ہیں۔‘ (فائل فوٹو: ٹوئٹر)

ن لیگ کے وکیل ایڈووکیٹ اکرم شیخ نے کہا کہ جب تک ہم اپنے وکالت نامے واپس نہیں لیتے اس وقت تک ہم نے کوئی بائیکاٹ نہیں کیا۔ جب ہم یہاں موجود ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ ہم عدالت پر اعتماد کا اظہار کر رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ کو کیا ہدایت ملی ہیں؟
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ حکومت بائیکاٹ نہیں کر سکتی، حکومت آئین کے مطابق چلتی ہے۔

’عدالت ہی الیکشن کی تاریخ آگے بڑھا سکتی ہے‘

سماعت سے قبل ہی اٹارنی جنرل منصور اعوان کی جانب سے تحریری جواب عدالت میں جمع کرا دیا گیا تھا۔ جس میں وفاقی حکومت نے انتخابات کیس میں اپنا جواب جمع کراتے ہوئے پی ٹی آئی کی درخواست مسترد کرنے کی استدعا کر دی۔
حکومت نے موقف اختیار کیا کہ یکم مارچ کا سپریم کورٹ کا فیصلہ اکثریت سے دیا گیا۔ تین رکنی بینچ متبادل کے طور پر تحریک انصاف کی درخواست پر سماعت نہ کرے۔
حکومت نے کہا کہ ’جسٹس قاضی فائز عیسی کے فیصلے کے بعد پی ٹی آئی درخواست مؤخر کی جائے۔ سپریم کورٹ کے جو ججز الیکشن کیس کو سن چکے ہیں۔ انہیں نکال کر باقی ججز پر مشتمل بینچ بنایا جائے، پہلے راؤنڈ میں دیا گیا الیکشن کا فیصلہ چار تین کی اکثریت سے دیا گیا۔‘
حکومت نے تحریری جواب میں کہا کہ ’جسٹس اعجاز الاحسن پہلے راؤنڈ میں کیس سننے سے انکار کر چکے ہیں، چیف جسٹس اور جسٹس منیب اختر فیصلہ دینے والے بینچ کا حصہ تھے، چیف جسٹس اور جسٹس منیب اختر بھی اس کیس کو نہ سنیں۔‘

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ایک جانب کہتے ہیں فل کورٹ بنائیں ساتھ کہتے ہیں سماعت نہ کریں۔ (فائل فوٹو: ٹوئٹر)

سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سوال اٹھایا تھا کہ الیکشن کمیشن 8 اکتوبر کی تاریخ کیسے دے سکتا ہے؟ قانون کسی کو الیکشن ملتوی کرنے کا اختیار نہیں دیتا، عدالت ہی الیکشن کی تاریخ آگے بڑھا سکتی ہے۔
’سنہ 1988 میں بھی عدالت کے حکم پر انتخابات آگے بڑھائے گئے تھے۔ عدالت زمینی حقائق کا جائزہ لے کر حکم جاری کرتی ہے۔ جس حکم نامے کا ذکر کر رہے ہیں اس پر عمل ہو چکا ہے۔‘
اٹارنی جنرل نے دلائل دیے کہ پہلے راؤنڈ میں نو رکنی بینچ نے مقدمہ سنا تھا، 21 فروری کو سماعت کا حکم نامہ آیا، ’دو ججوں کے اختلافات‘ کی تفصیلات سامنے آ چکی ہیں ، دو ججوں نے پہلے دن درخواستیں خارج کر دی تھیں۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل کے تفصیلی نوٹ کتنے رکنی بینچ کے تھے؟ 27 فروری کو 9 رکنی بینچ نے ازسرنو تشکیل کے لیے معاملہ چیف جسٹس کو بھیجا تھا۔ جب بینچ دوبارہ تشکیل ہوا تو پانچ رکنی تھا، کیا چیف جسٹس کوئی بھی پانچ ججز شامل نہیں کرسکتے تھے؟
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ 4/3 کے فیصلے والی منطق مان لی تو معاملہ اس 9 رکنی بینچ کے پاس جائے گا، فیصلہ یا نو رکنی بینچ کا ہو گا یا پانچ رکنی بینچ کا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ نو رکنی بینچ کے فیصلے میں کہیں نہیں لکھا کون رضاکارانہ الگ ہو رہا ہے، کسی نے بینچ سے الگ ہونا ہو تو جوڈیشل آرڈر لکھا جاتا ہے، عدالت بینچ کی ازسرنو تشکیل کا حکم دے تو اسے نکالنا نہیں کہتے۔
منصور اعوان نے دلیل دی کہ دو ججوں نے جو رائے دی تھی اسے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ مسئلہ یہ ہے کہ اکثریت میں رائے کس کی ہے۔ حل یہ ہے کہ جنہوں نے پہلے مقدمہ سنا وہ ’اب بینچ سے الگ‘ ہو جائیں۔

الیکشن کمیشن کے وکیل عرفان قادر نے کہا ’مناسب ہوتا شفافیت کے لیے جسٹس اعجاز الاحسن کو بینچ میں شامل نہ کیا جاتا۔‘ (فائل فوٹو: سپریم کورٹ)

’آپ کا مؤقف مان لیں تو فل کورٹ بھی سماعت نہیں کر سکتا‘

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ عدالت نے رواں برس پہلا سوموٹو نوٹس لیا تھا۔ دو اسمبلیوں کے سپیکروں کی درخواستیں آئی تھیں۔ ازخود نوٹس لینے میں ہمیشہ بہت احتیاط کی ہے۔ اس بات سے متفق نہیں کہ یہ مقدمہ دیگر 184/3 کے مقدمات سے مختلف ہے۔ جن کے رولز بنے ہیں ان مقدمات پر کیسے کارروائی روک دیں؟
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ایک جانب کہتے ہیں فل کورٹ بنائیں ساتھ کہتے ہیں سماعت نہ کریں۔ پہلے طے تو کر لیں سماعت ہو سکتی ہے یا نہیں، آپ کا مؤقف مان لیں تو فل کورٹ بھی سماعت نہیں کر سکتا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ’جسٹس قاضی فائز عیسیٰ فیصلے پر دستخط کرنے والے جج نے خود کو بینچ سے الگ کر لیا۔ کیسے ہو سکتا ہے فیصلہ لکھنے والے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ مقدمہ سنیں؟ آپ نے معاملہ فہم ہوتے ہوئے دوبارہ فل کورٹ کی استدعا نہیں کی۔ آپ کی زیادہ سے زیادہ استدعا لارجر بینچ کی ہوسکتی ہے۔‘
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ لارجر بینچ کی استدعا آگے جا کر کروں گا۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ’کسی جج کو بینچ سے نکالا گیا نہ کوئی رضاکارانہ الگ ہوا۔ 9 ارکان نے چیف جسٹس کو معاملہ بھجوایا۔ 27 فروری کے 9 ججز کے حکم نامے سے دکھائیں بینچ سے کون الگ ہوا؟ عدالتی ریکارڈ کے مطابق کسی جج نے سماعت سے معذرت نہیں کی۔ فل کورٹ میٹنگ فائدہ مند ہو سکتی ہے لیکن فل بینچ نہیں۔ گزشتہ تین دن میں سینیئر ججز سے ملاقاتیں کی ہیں۔‘

سکیورٹی معاملات پر ان کیمرا سماعت کی درخواست 

اٹارنی جنرل منصور اعوان نے درخواست کی کہ سکیورٹی حساس معاملہ ہے۔ اس پر ان کیمرا سماعت کی جائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کوئی حساس چیز سامنے آئی تو چیمبر میں سن لیں گے۔ ’فورسز کا معاملہ صرف آرمی کا نہیں بلکہ نیوی اور ایئرفورس کا بھی ہے۔ بری فوج مصروف ہے تو نیوی اور ایئرفورس سے مدد لی جا سکتی ہے۔ ویسے فوج میں ہر یونٹ یا شعبہ جنگ کے لیے نہیں ہوتا۔ کوئی آ کر کہے تو سہی کہ کتنے سکیورٹی اہلکاروں کی ضرورت ہے۔‘

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کیا کھربوں روپے کے بجٹ سے 20 ارب روپے نکالنا ممکن نہیں؟ (فوٹو: روئٹرز)

سیکریٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ حمود الزمان عدالت میں پیش ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ ’پنجاب میں سکیورٹی حالات سنگین ہیں۔ ریزور فورس موجود ہے جسے مخصوص حالات میں بلایا جاتا ہے۔ ریزرو فورس کی طلبی کے لیے وقت درکار ہوتا ہے۔‘
عدالت نے سیکریٹری دفاع سے کل تک تحریری رپورٹ طلب کر لی۔
عمران خان کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ سکیورٹی اہلکار صرف ایک دن کے لیے چاہییں۔ سکیورٹی کا ایشو تو ہمیشہ رہے گا جبکہ آئینی ضرورت 90 دن کی ہے، ریٹائرڈ لوگوں کی خدمات حاصل کی جا سکتی ہیں۔

کھربوں کے بجٹ سے 20 ارب روپے نکالنا ممکن نہیں؟ جسٹس منیب

عدلت کے حکم پر سیکریٹری خزانہ کی رپورٹ عدالت میں پیش کر دی گئی۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ سیکریٹری خزانہ کی رپورٹ آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کے تناظر میں ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کے لیے 20 ارب چاہییں۔ کون سا ترقیاتی منصوبہ 20 ارب روپے سے کم ہے؟ درخواست گزار کے مطابق ارکان کو 170 ارب روپے کا فنڈ دیا جا رہا ہے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کیا کھربوں روپے کے بجٹ سے 20 ارب روپے نکالنا ممکن نہیں؟ وزیر خزانہ کا بیان تھا کہ فروری میں 500 ارب روپے سے زائد کا ٹیکس جمع ہوا۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ’پیٹرولیم مصنوعات پر حکومت کا خسارہ 157 ارب روپے تھا۔ خسارہ 177 ارب ہو جاتا تو کیا ہو جاتا۔ کیا تنخواہوں میں کمی نہیں کی جا سکتی؟ ججز سے تنخواہیں کم کرنا کیوں شروع نہیں کرتے۔ قانونی رکاوٹ ہے تو عدالت ختم کر دے گی۔ پانچ فیصد تنخواہ تین اقسام میں کاٹی جا سکتی ہے۔‘

الیکشن کمیشن کے وکیل عرفان قادر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اگر جج پر اعتراض ہو تو وہ بینچ سے الگ ہو جاتے ہیں۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

آئینی تقاضا اہم ہے یا سڑکیں بنانا؟ اسد عمر کی بریفنگ

پی ٹی آئی رہنما اسد عمر روسٹرم پر آئے اور بریفنگ دی کہ پہلے پانچ ماہ میں 5700 ارب روپیے خرچ ہو چکے ہیں۔ ٹوٹل بجٹ 9500 ارب روپے ہے۔ آئی ایم ایف خسارے کا ٹارگٹ جی ڈی پی کے حساب سے طے کرتا ہے۔ 20 ارب روپے بجٹ کا 0.02 فیصد سے زیادہ نہیں ہے۔ 20 ارب کا خسارے کے ٹارگٹ سے کوئی تعلق نہیں۔
’ترقیاتی اخراجات 700 ارب روپے ہیں، ابھی تک 450 ارب روپے خرچ ہونا باقی ہیں۔ حکومت نے آٹھ ماہ میں صرف 200 ارب روپے خرچ کیے۔ کیسے ممکن ہے 700 ارب کے بجٹ سے 21 ارب روپے نہ نکالے جا سکتے ہوں، آئینی تقاضا اہم ہے یا سڑکیں بنانا؟ اس سے بڑا کوئی مذاق نہیں ہو سکتا۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت ہچکچاہٹ کا شکار ہے۔ حکومت نے کہا کسی سے بات نہیں کریں گے عدالت فیصلہ کرے۔ ترقیاتی اخراجات کم نہیں کرنے تو غیر ترقیاتی اخراجات کم کر دیں۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ یہ مثال بن گٸی تو ہمیشہ مالی مشکلات پر الیکشن نہیں ہوا کریں گے۔
الیکشن کمیشن کے وکیل عرفان قادر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اگر جج پر اعتراض ہو تو وہ بینچ سے الگ ہو جاتے ہیں۔ ایک طرف ایک جماعت دوسری طرف تمام جماعتیں ہیں۔ بینچ سے جانب داری منسوب کی جا رہی ہے۔ پوری پی ڈی ایم ماضی میں بھی فل کورٹ کا مطالبہ کر چکی ہے اور عدالت فل کورٹ پر اپنی رائے دے چکی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’عدالت پر عدم اعتماد نہیں ہے لیکن انصاف ہوتا نظر آنا چاہیے، عدالت کا ایک فیصلہ پہلے ہی تنازع کا شکار ہے اور فی الحال انصاف ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا۔‘

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ یہ مثال بن گٸی تو ہمیشہ مالی مشکلات پر الیکشن نہیں ہوا کریں گے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

فیصلہ کل سنایا جائے گا

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ جسٹس فائز عیسیٰ سے پرسوں ملاقات ہوئی ہے۔ ان معاملات پر تمام ججز جلد ملیں گے۔ جسٹس فائز عیسیٰ نے ملاقات میں کچھ ایشوز ہائی لائٹ کیے ہیں۔ رولز بنانے کے لیے عنقریب فل کورٹ اجلاس بلائیں گے۔
انہوں نے عرفان قادر سے کہا کہ کبھی کبھی تعریف کر دیا کریں جس پر عرفان قادر بولے کہ سوشل میڈیا پر آپ ٹاپ ٹرینڈ کر رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم صرف اللہ سے خیر مانگتے ہیں، آپ سوشل میڈیا کی بات کر کے اپنا وقت ضائع کر رہے ہیں۔ عرفان قادر نے کہا کہ آپ اس وقت عوامی چیف جسٹس ہیں اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم سوشل میڈیا نہیں دیکھتے۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ ’جسٹس اعجاز الاحسن کو پانچ رکنی بینچ میں شامل نہیں کیا گیا تھا، مناسب ہوتا شفافیت کے لیے جسٹس اعجاز الاحسن کو بینچ میں شامل نہ کیا جاتا، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جو وجہ میں نے سوچ کر بینچ بنایا وہ وجہ بتانے کا پابند نہیں ہوں۔‘
سپریم کورٹ نے کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا جو کل سنایا جائے گا۔

’لوگ من پسند ججز سے فیصلہ کرانا چاہتے ہیں‘

سماعت کے آخر پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ وزارت دفاع اور وزارت خزانہ کی وجوہات بھی دیکھیں گے۔ عوام کو مشکل میں نہیں ڈالنا چاہتے۔ الیکشن میں بدمزگی ہوئی تو ملبہ عدالت پر آئے گا۔ سیاسی مذاکرات کا آپشن اسی لیے دیا گیا تھا۔ 
انہوں نے کہا کہ ’آئین واضح ہے کہ الیکشن کب ہونے ہیں۔ مذاکرات کی آپشن کا کوئی جواب نہیں آیا۔ لوگ کہتے ہیں وہ آئین سے بالاتر ہیں۔ لوگ من پسند ججز سے فیصلہ کرانا چاہتے ہیں۔‘
جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ کسی نے ایسا نہیں کیا۔
چیف جسٹس نے جواب میں کہا کہ چھ ججوں والی بات آپ نے اور عرفان قادر نے کی۔ عدالت نے بات سنی اس پر ردعمل نہیں دیں گے۔ پارلیمنٹ اور حکومت کا احترام کرتے ہیں۔ بحران آئے تو سیاسی حل نکالا جاتا ہے۔ 

شیئر: