پنجاب، خیبر پختونخوا الیکشن ازخود نوٹس چار تین سے مسترد ہوا تھا: جسٹس اطہر من اللہ
جسٹس اطہر من اللہ نے لکھا ہے کہ ’بینچز تشکیل دینے اور کیسز مختص کرنے کا عمل صاف و شفاف اور غیر جانبداری پر مبنی ہونا چاہیے۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)
سپریم کورٹ کے جج جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے تفصیلی نوٹ میں کہا ہے کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں صوبائی اسمبلیوں میں انتخابات سے متعلق ازخود نوٹس کیس چار تین سے مسترد ہوا تھا۔
جمعے کو سپریم کورٹ کی طرف سے جاری کیے گئے جسٹس اطہر من اللہ کے تفصیلی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات کے حوالے سے از خود نوٹس چار تین سے مسترد ہوا تھا اور وہ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل کی جانب سے اسے مسترد کیے جانے کے بارے میں دی گئی آراء سے متفق ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ عدالت کو کسی بھی سیاسی تنازع سے بچنے کے لیے اپنے پچھلے نوٹ میں فل کورٹ کی تشکیل کی تجویز دی تھی کیونکہ اس سے ادارے پر عوام کا اعتماد قائم رہتا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے تفصیلی نوٹ میں لکھا ہے کہ ’بینچز تشکیل دینے اور کیسز مختص کرنے کا عمل صاف و شفاف اور غیر جانبداری پر مبنی ہونا چاہیے۔ کورٹ کو ہمیشہ ایسے معاملات میں انتہائی تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے جس میں سیاسی شراکت دار شامل ہوں۔‘
تفصلی نوٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ’عدالت کو کسی بھی سیاسی شراکت دار کو اجازت نہیں دینی چاہیے کہ وہ عدالتی فورم کو اپنی سیاسی حکمت عملی آگے بڑھانے یا سیاسی حریفوں پر سبقت لے جانے کے لیے استعمال کرے۔‘
جسٹس اطہر من اللہ نے مزید لکھا کہ ’عدالت کا یہ فرض ہے کہ وہ یقینی بنائے کہ سیاسی شراکت داروں کی حوصلہ افزائی نہ ہوکہ وہ آئین کے تحت بنائے گئے فورمز کو چھوڑ کر اپنے مسائل عدالتی حل کے لیے لے کر آئیں۔ اس سے پارلیمنٹ اور دیگر ایسے فورمز جنہیں سیاسی بات چیت کے لیے بنایا گیا ہے نہ صرف کمزور ہوتے ہیں بلکہ اس سے ریاست کی عدالتی شاخ کی آزادی اور غیر جانبداری کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔‘
خیال رہے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے غلام محمد ڈوگر ٹرانسفرکیس میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر اکبر نقوی کے نوٹ پر پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیوں کے انتخابات میں تاخیر سے متعلق ازخود نوٹس لیا تھا اور 9 رکنی بینچ تشکیل دیا تھا۔
سپریم کورٹ میں 23 فروری کو ہونے والی ازخود نوٹس کیس کی پہلی سماعت میں جسٹس اطہرمن اللہ بینچ سے علیحدہ ہوگئے تھے اور انہوں نے ایک نوٹ بھی تحریر کیا تھا۔
نو رکنی بینچ میں شامل چار ججز بینچ سے علیحدہ ہوگئے تھے اور انہوں نے ازخود نوٹس کو مسترد کیا تھا جن میں جسٹس اطہر من اللہ کے علاوہ جسٹس یحیٰی آفریدی، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل شامل ہیں۔