Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

روحانی اور اخلاقی تزکیہ کا موسم ، رمضان المبارک

روحانی اور اخلاقی تزکیہ کا موسم ، رمضان المبارک گزشتہ سے پیوستہ قرآن سے صحیح تعلق اسی حالت میں قائم ہوگا جب اسکی صحیح قرأت کی جائے، سمجھا جائے، عمل کیا جائے اور اسکے نظام کو نافذ کیا جائے
 - --  - - --  - - - - - -
مولانا حبیب الرحمان  ۔ جدہ
- - - - -- - -  - - -
 
  رمضان اور اسکے دوران روزے کے مقاصد پرمختصر تذکرہ کے ضمن میں ’’اللہ سبحانہ تعالیٰ کاقرب اور محبت‘‘ پر بات کی گئی تھی جس میں اللہ تعالیٰ کے فرمان کے بعد رسول اللہ کا ارشاد مبارک پیش کیا گیا تھا، مزید اسباق پیش ِ خدمت ہیں۔
* * جسمانی صحت بہتر ہوتی ہے: روحانی، اخلاقی تزکیہ اور تربیت کیساتھ روزے جسمانی صحت کیلئے بھی مفید ثابت ہو رہے ہیں۔ روزے میں چونکہ کئی بار کھانے ، پینے وغیرہ کی مشقت نہیں ہوتی لہذا اس سے نظام ہضم اور معدہ کو آرام ملتا ہے جس سے معد ہ ، آنتوں وغیرہ کی کئی بیماریاں دور ہوتی ہیں۔ روزہ کے باعث جسم کی زائد چربی، رطوبت اور گوشت کم ہوتا ہے۔دن میں روزہ کے دوران خون گاڑھا ہوتا ہے اور اسکا دوران معتدل ہوتا ہے جس سے دل ودماغ کی کارکردگی بہتر ہوتی ہے اس سے پورا جسم مستفید ہوتا ہے ۔رسول اکرم نے فرمایا ’’ ہر گندگی کو دور کرنے والی کوئی نہ کوئی چیز اللہ تعالیٰ نے بنائی ہے اور جسم کو (امرض سے) پاک کرنے والی چیز روزہ ہے اور روزہ آدھاصبر ہے ۔‘‘(ابن ماجہ ) ۔ ؒ ایک ماہر امراض معدہ و نظام ہضم ڈاکٹر عیاض صوبائی نے1988ء میں تحقیق سے ثابت کیا تھا ماہ رمضان کے روزے پیٹ کے السر کے مرض کیلئے نقصان دہ نہیں جیسا کہ ابتک سمجھا جاتا رہا ہے بلکہ یہ تو اس کیلئے ایک موثر دوا یا علاج کی حیثیت رکھتے ہیں۔
**ہدایت ربانی کی پیروی کا داعیہ ابھرتا ہے : ماہ مبارک رمضان وہ ماہ ہے جسمیں قرآن نازل کیا گیا ۔رسول اکرم نے فرمایا’’ دیگر تمام ہدایت نامے بھی اسی ماہ میں نازل کئے گئے۔‘‘ ایک اندازہ کے مطابق آسمان سے نازل شدہ تمام ہدایت ناموں کی تعداد جو اللہ تعالیٰ نے انسان کی ہدایت کیلئے نازل فرمائے 315بنتی ہے لہذا رمضان کے روزے نہ صرف فرض عبادت ہیں بلکہ اللہ سبحانہ کی آخری کتا ب ہدایت سے حقیقی تعلق قائم کرنیکا زما نہ بھی ہیں۔ قرآن اور رمضان کا آپس میں گہرا تعلق ہے اور ہمارا اس کتاب سے صحیح تعلق اسی حالت میں قائم ہو سکتا ہے جب اسکی صحیح قرأت کیجائے، سمجھا جائے، اسکے مطابق عمل کیا جائے اور اسکے بتائے ہوئے نظام زندگی کو عملاًنافذ کیا جائے۔اگر یہ نہ کیا تو قران اللہ کے حضور ہم سب کیخلاف گواہی دیگا جیسا کہ رسول نے فرمایا ’’ یوم حشر قران تم پر حجت ہوگا یا تمہارے خلاف حجت قائم کریگا۔‘‘
رسول بھی استغاثہ پیش کرینگے کہ’’ اے رب !میری اس قوم سے پوچھ کہ کیوں انہوں نے قرآن کو متروک کردیا تھا۔‘‘( الفرقان 30 ) لہذا اسوقت کی شرمندگی سے بچنے کیلئے اس ماہ مبارک میں اللہ تعالیٰ سے عہد کریں کہ ہم تیرے حکم کے مطابق قرآن کا حق ادا کرینگے اور جیسے کہ رسو ل نے فرمایا ’’ ـ میری طرف سے پہنچائو اگرچہ کہ ایک ہی آیت ہو ـ۔‘‘ ( الترمذی) اور فرمایا’’ تم میں سے باعث خیر و ہی ہیں جو قرآن کی تعلیم خود حاصل کریں اور اسکی تعلیم دوسروں کو دیں ۔‘‘(بخاری) مزید فرمایا ’’ وہ قرآن پر ایمان ہی نہیں رکھتا جس نے اسکے حرام کو حلال کرلیا۔‘‘
* * تکبیر رب کے تقاضے کا احساس ابھرتا ہے: ماہ رمضان کے روزوں کی مکمل فرضیت کے احکام جب3 ہجری میں آئے تو اسکے ساتھ یہ بھی فرمایا دیا گیا کہ یہ ہدایت اسلئے دی گئی کہ تم اللہ تعالیٰ کی بڑائی کا اعتراف اور اظہار کرو۔اللہ تعالیٰ تو بڑا ہی ہے ،وہ میرے اور آپ کے بڑا کرنے سے نہ بڑا ہوگا اور نہ چھوٹا ہوگا ، مراد یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کے احکام کی خلاف ورزی کرنے سے اسکی بڑائی کاانکار اور جب وہ اسکے قانون پر عمل کرتا ہے اسکی بڑائی کا اقرار کرتا ہے۔اگر میں اللہ اور اسکے رسول کی بات ہر معاملہ میں مانتا ہوں تو یقینا میں نے اللہ تعالیٰ کو بڑا ما نا اور میں نے رسول اکرم کی تعظیم کی ۔ یہ وہ فرضِ منصبی ہے جو رسول اکرم پر اسوقت سے عائد ہوگیا تھا جب پہلی وحی کے وقفہ کے بعد یہ دوسری وحی نازل ہوئی کہ’’ اے چادر میں اوڑھ لپیٹ کر لیٹنے والے اٹھئے اور کھڑے ہو جائیے اوراللہ تعالیٰ کی بڑائی منوائیے اور اسے نافذ کیجئے۔‘‘( المدثر 2) ،پھر آپ نے ڈنکے کی چوٹ اللہ کا پیغام انسانوں کو پہنچایا ،اللہ تعالیٰ کی بڑائی کو تسلیم کراکر دین اسلام کو عملاً نافذ کردیا اور عالمی قوتوں کے سامنے اسکی دعوت پیش کی۔
**نعمت کا احساس اور جزبۂ شکر پیدا ہوتا ہے: روزوں کی فرضیت کا ایک اور مقصد ہمارے سامنے یہ آتا ہے جیسا کہ روزوں کے احکام کے دوران فرمایا گیا کہ’’ اس سے امید ہے کہ تم ہمارے شکر گزار بندے بنو گے۔‘‘(البقرہ 185)۔
شکر گزاری بھی اہم مضمون ہے اور اسکا بھی ذکر قرآن میں اکشر ملتا ہے۔ ایک مقا م پر فرمایا ’’میرا ذکر کرو میں تمہارا چرچا کرونگا، میرا شکر کرو اور کفران نعمت مت کرو ۔‘‘( البقرہ152)۔ شکر گزاری سے اللہ تعالیٰ اپنی عطا میں اضافہ فرماتا ہے۔امام ابن ابی الدنیا ؒ نے فرمایا کہ شکر کے3 ارکان ہیں
٭ یہ احساس ہو کہ دینے والا کون ہے
٭ جتنا دیا ہے اسپر آدمی قناعت کرے
٭ اسکی نعمتوں سے جب تک جسم میں جان ہے اسکی نمک حرامی نہ کرے۔ جب ایک روزہ دار بھوک اور پیاس کی تکلیف برداشت کرتا ہے تو اسے کھانے اور پینے کی نعمتوں کی قدر معلو م ہوتی ہے تو یہ لا محالہ اظہار تشکرر کا ذریعہ بنتی ہے۔افطار کے وقت ایک بندے کا یہ جزبہ دیکھ کر اللہ تعالیٰ بہت خوش ہوتا ہے اور وہ جودعا کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے قبول کرتا ہے جیسا کہ رسول اکرم نے فرمایا ’’ روزہ دار کی دعا افطار کے وقت رد نہیں کی جاتی ۔‘‘( ابن ماجہ)
دوسری حقیقت یہ ہے جومولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی ؒنے اسطرح لکھی ہے کہ’’ رمضان کے روزے نہ صرف فرضِ عین عبادت عظیم مقصد و فوائد کا باعث ہیں بلکہ قرآن کی عظیم نعمت کی عطا پر اظہار شکر کا ذریعہ بھی ہیںاسلئے کہ اس ماہ میں قرآن نازل کیا گیا جیسا کہ البقرہ میں فرمایا: رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا۔‘‘ (آیت185) ۔
کسی نعمت کی شکر گزاری اور کسی احسان کے اعتراف کی بہترین صورت یہ ہے کہ انسان غور کرے کہ دینے والے نے یہ نعمت کیوں دی ہے اور وہ اس سے کیا چاہتا ہے اور پھر وہ اس مقصد کے حصول میں لگ جائے۔ذرا سی توجہ سے یہ معلوم ہوجائیگا کہ قرآن اللہ سبحانہ تعالیٰ نے ہمیں اسلئے عطا کیا ہے کہ ہم اسے اللہ کی رضا کا راستہ جان کر خود بھی اس پر چلیں اور دوسروں کو بھی اسکے مطابق چلائیں ۔
* *روزوں کے مقاصد و فوائد کیسے حاصل کریں :
دین اسلام کی ایک یہ بھی خوبی ہے کہ کسی کام کا حکم دینے کیساتھ اسکی ادائیگی کے طریقے بھی سکھاتا ہے اور یہ بھی بتا تا ہے کہ اسکے مقاصد و فوائد کیسے حاصل کئے جائیں لہذا اس تعلق سے ہم رسول اکرم کے چند ارشادات مبارکہ کا مطا لعہ کرتے ہیں۔ امام البخاریؓ نے روایت کیا ہے کہ رسول اکرم نے فرمایا’’ جس نے روزے میں جعل سازی اور دھوکہ بازی کی بات اور کام نہ چھوڑاور وہ جہالت سے باز نہ آیا تو پھر اللہ تعالیٰ کو اسکے بھوکے اور پیاسا رہنے کی ضرورت نہیں ۔‘‘معلوم ہوا کہ روزہ صرف بھوکے اور پیاسے رہنے کا نام نہیں بلکہ آدمی ان باتوں اور کاموں سے بچے جو شریعت میں ممنوع ہیں لہذا ر وزے کا فائدہ اسی حالت میں حاصل ہوگا جب آدمی ہر قسم کے گناہ سے بچے ۔
اما م النسائی ؒ نے روایت کیا کہ آپ نے فرمایا ’’ کتنے ایسے روزہ دار ہیں کہ انہیں روزہ میں بھوک و پیاس کی تکلیف کے سوا کچھ حاصل نہ ہوگا اور کتنے ایسے راتوں کو قیام کرنے والے ہونگے جنہیں رات کے جاگنے کی تکلیف کے علاوہ اور کچھ نہ ملیگا۔‘‘مراد یہ ہے کہ اگر روزے احکام کے مطابق نہ رکھے گئے اور روزوں کے آداب کو ملحوظِ خاطر نہ رکھا تو روزے بے فائدہ ہوئے۔ رسو ل اکرم نے فرمایا ’’ روزہ ایسی ڈھال ہے جو جہنم کی آگ سے بچا نے والی ہے۔‘‘ (ترغیب و ترہیب) دوسری روایت ہے کہ’’ کوئی روزہ میں غیبت کرکے اس ڈھال میں سوراخ نہ کرے۔ ‘‘
روزہ کی ڈھال ہمیں عطا کی گئی کہ جہنم کی آگ سے بچا جائے لیکن اگر اس ڈھال میں سوراخ ہو جائیں تووہ بے فائدہ ہو جائیگی ۔ غیبت عام دنوں میں بھی بد ترین فعل ہے جبکہ روزوں کے دوران اسکی قباحت شدید ہو جاتی ہے،اس سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ ہم دوسروں کے بارے میں بدظنی اور منفی سوچ ترک کردیں اور غلطی اور نقصان کی ذمہ داری فقط دوسروں پر نہ ڈالیں، اپنے آپ کو پارسا اور دوسروں کو معصیت زدہ گمان نہ کیا کریں ۔یہ ہیں وہ کیفیات جن کے باعث روزوں کے مقاصد و فوائد ہم پا سکتے ہیں ،مزید یہ کہ اس ضمن میں رسول اللہ کا ایک جامع ار شاد قابل توجہ ہے ،فرمایا کہ’’ جس نے کمالِ ایمان اور احتساب کیساتھ روزہ رکھے اور کمالِ ایمان اور احتساب کیساتھ قیام کیا تو اسکے سارے گزشتہ گناہ بخش دیئے گئے۔‘‘ ( احمد، بخاری، مسلم و النسائی )۔ یہا ں 2 امور آئے ہیں۔
ایک کمالِ ایمان اور دوسرا احتساب۔ ایمان سے مراد یہا ں کمالِ ایمان ہے نہ کہ مطلق ایمان اسلئے کہ روزے تو ایمان لانے کے بعد ہی فرض ہوئے تھے۔ ایمان کی مختصر تعریف یہ ہے کہ زبان سے اللہ تعالیٰ کی ربوبیت، توحید اور رسالت محمد کا اقرار کرتے ہوئے صدق دل سے اسکی تصدیق بھی کی جائے پھر اعضاسے اسکے مطابق عمل بھی کیا جائے یعنی کہ ایک مومن اور مومنہ نہ کبھی اللہ تعالیٰ کے حقوق سے لا پرواہی بر ت سکتے ہیں اور نہ ہی وہ بندوں کے حقوق غصب کر سکتے ہیں۔مومن تو سچا، دیانت دار، قابل بھروسہ اور مفید انسان ہوتا ہے۔ وہ دوسروں کے بارے میں بھلائی سو چنے والا، دنیا میں متاعِ خیر کا اضافہ کرنے اور زندگی کے حسن کو سنوارنے والا ہوتا ہے۔ دوسرا کلمہ احتساب کا آیا ہے۔ اسکے3 معنی مراد لئے گئے ہیں:
٭ اخلاص٭
یہ یقین کہ ہر نیکی کا بدلہ ضرور ملیگا٭احتسابِ نفس۔
*اخلاص یہ ہے کہ تمام اعمال فقط اللہ تعالیٰ کی رضا کیلئے ہوں ، انکی ادائیگی کی کوئی اور غرض نہ ہو مثلاً دوسروں کو دکھا نا وغیرہ۔
* یقین یہ ہو کہ ا للہ کے یہا ں ہر معمولی سے معمولی نیکی پروان چڑھائی جاتی ہے اور اسکا اجر و ثواب بہت اچھا ملتا ہے اور ہر برائی کی سزا مل کر رہیگی۔
*احتسابِ نفس سے مراد یہ ہے کہ ہر لمحہ نفس کا جائزہ لیتے رہنا کہ کوئی نافرمانی سرزد نہ ہوجائے۔ نیکی وو خیر کے اعتبار سے ہر آنے والی گھڑی گزشتہ سے بہتر ہو اور پچھلے گناہوں کی اللہ تعالیٰ سے معافی ما نگتے رہنا تاکہ نفس پاکیزگی اختیار کرتی رہے اور ا سمیں نفسِ مطمئنہ کے اوصاف پیدا ہوجا ئیں اور یہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کی محبوبیت کا درجہ پالے۔
* *اہ رمضان کے روزوں کے احکام : اللہ سبحانہ و تعالیٰ وہی عبادت قبول فرماتا ہے جسے ادا کرنیکا اُس نے حکم دیا نہ کم اور نہ ہی زیادہ ۔ دوسرے یہ کہ جو کام اللہ تعالیٰ نے فرض قرار دیئے ہیں انکا علم حاصل کرنا ایک مسلمان پر فرض ہے لہذا ہر مسلم مرد اور عورت سے مطلوب ہے کہ وہ اللہ اور اسکے رسول کے احکام کے بارے میں کما حقہ نہیں تو کم از کم ضروری علم حاصل کرلے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ وہی عبادت قبول فرماتا ہے جسے ادا کرنیکا اس نے حکم دیا نہ کم اور نہ ہی زیادہ ۔
دوسرے یہ کہ جو کام اللہ تعالیٰ نے فرض قرار دیئے ہیں انکا علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے لہذا ہر مسلم مرد اور عورت سے مطلوب ہے کہ وہ اللہ اور اسکے رسول کے احکام کے بارے میں کما حقہ نہیں تو کم از کم ضروری علم حاصل کرلے۔ اس اعتبار سے ہم یہا ں ماہ رمضان کے روزوں کے احکام کے بارے میں مختصر بیان کرتے ہیں۔
٭شروطِ فرضیت :اس ماہ مبارک کے روزے فرض ہونیکی شروط میں سے یہ ہے کہ اسلام کاہونا،عمر کا شرعی سن بلوغت کو پہنچنا اور عاقل ہونا یعنی آدمی پاگل،مجنون یا ماعوف العقل نہ ہو۔اگر ان میں سے کوئی شرط مفقود ہوگی تو روزے فرض نہ ہونگے۔ ٭شروطِ صحت :
اس سے مراد وہ امور ہیں جنکے بغیر روزوں کا رکھنا غیر صحیح ہوگا، وہ یہ ہیں :رات یعنی سحری کے وقت رمضان کے روزے کی نیت کرنا، خاتوں کا حیض و نفاس سے پاک ہونا، اگر افطار سے ایک لمحہ پہلے بھی ایسی حالت ہو گئی تو اس دن کا روزہ باطل ہوگا ۔
٭ فرائض :یہ وہ امور ہیں جنکے بغیر روزہ باطل ہوگا : کھانے اور پینے سے بالکل اجتناب کرنا۔ امام الشافعی ؒکے مطابق کھانے اور پینے اور جنسی جماع سے اجتناب کرنااور عمدا ًقے نہ کرنا۔
٭سنتِ اعمال :1۔ سحری ضرور کرنا خواہ قلیل ہو اور آخری وقت کرے،2۔رات روزہ کی نیت کرلینا،3۔وقات ہوتے ہی افطار کرلینا ،4۔کھجور سے افطار کرنا اگر نہ ملے تو پانی سے افطار کرنا۔
٭مکروہات
:1۔کسی شئی کا منہ میں رکھنا یا چباتے رہنا
،2۔ منہ میں تھوک جمع کرکے نگل جانا
،3۔ کسی چیز کا چکھنا سوائے اس خاتون خانہ یا باورچی وغیرہ کے جسے کسی قسم کا اندیشہ ہو،
4۔کلی کرتے وقت غرارہ کرنا جس سے پانی اندر چلا جائے
، 5۔ بھوک یا پیاس کے حوالہ سے بے چینی کا اظہار کرنا
، 6۔ سارا دن ناپاک رہنا
، 7۔بلا سبب کوئی ایسا کام کرنا جو جسم کی کمزوری کا باعث ہو
،8۔ بوس و کنار (اگر منی کے نزول کا سبب ہو)
،9۔ وقت لہو و لعب میں سرف کرنا
،10۔فحش کلامی یا باطل افعال کرنا یا دیکھنا وغیرہ
،11۔جھوٹ، غیبت،بد کلامی کرنا، بد اخلاقی،
12۔بے ادبی وغیرہ کرنا۔
٭ مفسدات و مبطلات جنکی 2انواع ہیں:
پہلی نوع
کسی غذا کو جسکی طرف طبیعت مائل ہو عمداً کھانا یا پینا
شہوت نفس یا شہوت فرج کا کامل طور پر کسی عاقل، بالغ انسان سے پورا کرنا دونوں کے روزے فاسد ہونگے اور روزہ کی قضاء اور کفارہ دونوں خاص شروط کے مطابق لازم ہونگے۔ قضا سے مراد یہ ہے کہ رمضان کے ایک روزے کے بدلے ایک دن کا روزہ رکھنا۔ کفارہ یہ ہے کہ مسلسل بغیر وقفہ کئے60 دن کے روزے رکھنا ورنہ دوبارہ گنتی شروع کرنی ہوگی، اگر اسکی استطاعت نہ ہو تو ایک روزہ کے بدلے60 مساکین کو2 وقت کاکھانا کھلانا یا ایک مسکین کو60 دن تک2 وقت کا کھانا دینا یا 60 مساکین میں سے ہر ایک کو ایک صدقۂ فطر کی نقد رقم دینا یا غلہ دینا۔
دوسری نوع:
(1) سحری کا وقت ختم ہونیکے بعد بھی جان بوجھکر کھاتے یا پیتے رہنا
(2) سورج غروب ہونے سے قبل کچھ کھا یا پی لینا خواہ قلیل مقدار ہو
(3) قے خود بخود آئی تو فاسد نہ ہوگا اگر اسمیں سے چنے کے دانہ کے برابر لوٹالی اور قے منہ بھر تھی تو روزہ فا سد گا
(4) عمداً قے کرنا خواہ طبیب نے کہا اگر منہ بھر سے کم ہوئی تو روزہ فاسد نہ ہوگا
(5) حیض یا نفاس کی حالت ہونا، خواہ غروب سے ایک لمحہ قبل ہو
(6) عذر شرعی کے باعث کچھ کھا یا پی لینا
(7) کسی دواکا دماغ،حلق یا پھیپڑوں کے اندر چلا جانا
(8)نیند کے دوران کسی شے کا جسم کے اندر چلا جانا
(9) بھول کر کھانے کے بعد روزہ یاد آنے کے بعد کچھ کھااور پی لینا
(10) عمدا ًمنی کا خارج کرنا
(11) نیت توڑ لینا وغیرہ۔ ان سے روزہ فاسد ہوگا اور روزہ کی فقط قضا واجب ہوگی یعنی ماہ رمضان کے ایک روزہ کے بدلے ایک
دن کا روزہ رکھنا ہوگا ،اگر روزہ رکھنے کی استطاعت نہ ہو تو ہر روزہ کے بدلے ایک مسکین کو فدیتاً 2وقت کھانا کھلانا ہوگا ۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان باتوں پر عمل کی توفیق عطا فرمائے،آمین۔

شیئر: