Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

”ترقی“

کالج میں ہمیں علم و آگہی عطا کرنے کا ”ٹھیکہ“ مس انیلہ نے لے رکھا تھا ایک روز وہ ہماری جماعت میں لیکچر دے رہی تھیں 250نفوس پر مبنی مخلوط اجتماع تھا
شہزاد اعظم
بچپن میں ہماری ”آئیڈیل مِس“ شکیلہ نے زبان و بیان ، اقرار و اظہار کے ذریعے ہم پر واضح کر دیا تھا کہ ترقی سے کیا مراد ہے، یہ کس طرح ہوتی ہے ، کس طرح کی جاتی ہے اور اسکے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ انہوں نے ہم پر واضح کر دیا تھا کہ ترقی سے مراد آگے بڑھنا نہیں بلکہ اسکے معانی ہیںتغیر، تبدل، یعنی کسی شے کا تبدیل ہوجانا، حلیہ بدل جانا، انقلاب بپا ہو جانا،شکل پہلے جیسی نہ رہنا، بعض معمولات، روایات، حکایات ، فرمودات، القابات، ایجادات، نباتات، حیوانات، حسابات، واقعات، عنایات اور مبادیات کا قصہ¿ پارینہ ہو جانا، یہ سب ترقی کے زمرے میں آتا ہے۔ بہر حال ہم تمام طلبہ و طالبات مس شکیلہ کی عطا کردہ آگہی سمیٹ کر ٹاٹ اسکول جیسی ”مادرِ علمی“ سے نکل کراپنے وطن کے معاشرے میں پھیل گئے اور”نانی¿ علمی“ یعنی کالج میں قدم رکھ دیا تاکہ 11ویںاور اس سے اوپر کی جماعتوں کے امتحانات میں کامیابی حاصل کرکے ہم ”پڑھے لکھے بےروزگاروں“ کی فہرست میں شامل ہو سکیں۔ 
کالج میں ہمیں علم و آگہی عطا کرنے کا ”ٹھیکہ“ مس انیلہ نے لے رکھا تھا۔ ایک روز وہ ہماری جماعت میں لیکچر دے رہی تھیں۔ 250نفوس پر مبنی مخلوط اجتماع تھا۔ان میں ہر ایک مستقبل میں مثالی شوہر اور مثالی بیوی بننے کےلئے زیورِ علم سے آراستہ ہو رہا تھا۔ مس انیلہ کی سوالی نظر نجانے ہم پر ہی کیوں پڑی، ہماری جانب اشارہ کر کے فرمایا کہ کھڑے ہوجائیںاور بتائیں کہ ترقی کسے کہتے ہیں۔ ہم نے ترقی کی وضاحت کےلئے مس شکیلہ کی عطا فرمائی ہوئی تمام آگہی مس انیلہ کے گوش گزار کر دی۔ اس دوران وہ ہمارے قریب آتی گئیں ا ور صرف 13انچ کی دوری پر رُکیں اور اپنے داہنے ہاتھ کی 4مخروطی انگلیوں کا استعمال کرتے ہوئے ہماری بائیں گال پر زور دار ”طمانچہ ثبت“کر دیا۔اس دوران وسیع و عریض ہال میں محض ”تڑاق“ کی آوازہی نہیں گونجی بلکہ اسکے ساتھ ان کی کلائی میں موجود ڈیڑھ درجن پچرنگی چوڑیوں کی کھنک بھی درودیوار سے ٹکرا کرلوٹی اور ہماری سماعتوں پردستک دیتے ہوئے فضاﺅں میں حلول کر گئی۔ مس انیلہ کی اس ستم ظریفی پر ہم نے استعجاب کا اظہار کرتے ہوئے سوال کیا کہ ہم نے ایسا کیا کہہ دیا؟ مس انیلہ نے کہا کہ آپ نے ترقی کا ستیاناس کر کے رکھ دیا۔ اگر معلوم نہیں تھا کہ ترقی کسے کہتے ہیں تو بتا دیتے کہ مس ! ہم ترقی سے نابلد ہیں، میںکسی اور سے پوچھ لیتی یا خود سمجھا دیتی۔ آپ نے تو علم و آگہی، فہم و تفہیم سے ہی کھلواڑ کر نا شروع کر دی۔ میں طمانچہ نہ رسید کرتی تو نجانے آپ کیا کیا کہہ جاتے۔ہم نے کہا کہ مس ہمیں ٹاٹ اسکول میں مس شکیلہ نے ترقی کے بارے میں جو بتایا ، سمجھایا، سنایا اور دکھایا تھا، ہم تومن و عن وہی بیان کررہے تھے۔ مس انیلہ نے کہا کہ اگر مس شکیلہ نے آپ کو یہ سب سمجھایا تھا تو اسکا مطلب ہے کہ وہ ”جاہل “تھیں۔مس شکیلہ کو ایسے نامناسب القابات سے نوازنا ہمیں ایک آنکھ نہیں بھایا ، ہم نے دونوں آنکھوں سے8،8آنسو یعنی کل 16اشک بہائے اور مس انیلہ سے کہا کہ آپ ہی بتا دیں کہ ترقی کسے کہتے ہیں؟ انہوں نے فرمایا کہ آگے بڑھنے کا نام ترقی ہے، خوب سے خوب تَرکی جانب سفر کا نام ترقی ہے، پستی سے بلندی کی جانب قدم بڑھانے کا نام ترقی ہے، زیادہ سے زیادہ پیداوار کے قابل ہونے کا نام ترقی ہے، ہنرمندشہریوں کی تعداد میں اضافہ کا نام ترقی ہے، آپ نجانے کس چلن کو ترقی قرار دے رہے ہیں۔ اپنے خیالات درست کر لیجئے ورنہ قعرِ مذلت ہی آپ کا ٹھکانہ ہوگا۔
یقین جانئے ہمیں مس انیلہ کے ہاتھوں ہونے والی تضحیک کاکوئی ملال نہیں ہوا کیونکہ ہم بلا امتیازِ تذکیر و تانیث، اپنے اساتذہ سے ڈانٹ کھاتے چلے آئے ہیں۔ ہمیں قلق تھا تو صرف یہ کہ مس انیلہ نے ہماری آئیڈیل مس شکیلہ کو ”جاہل“ کہا تھا اور انہوں نے اس حوالے سے جو ”دلائل“ دیئے تھے وہ مس شکیلہ کو بلا شبہ جاہل ثابت کررہے تھے۔ان حالات میں ہم یہ فیصلہ ہی نہیں کر پا رہے تھے کہ ایک جاہل مِس ہماری آئیڈیل بنیں یا ہماری آئیڈیل مس، جاہل بنیں؟اس تذبذب میں ہماری دلی خواہش یہی رہی کہ کاش کسی طرح یہ ثابت ہوجائے کہ مس شکیلہ نے غلط نہیں کہا تھا اور مس انیلہ نے صحیح نہیں کہا تھا۔اسی تذبذب میں مس انیلہ کے طمانچے کو 40برس گزر گئے ۔ پھر یوں ہوا کہ :
ہمارے وطنِ عزیز میں مہنگائی کا سونامی آیا۔عوام سے ٹکرایا، انہیںبلندی سے زمیں پر گرایا، اب کہا جا رہا ہے کہ آئندہ ماہ جون میں آنے والے نئے سال کے نئے بجٹ میں عوام پر اربوں روپے کے نئے ٹیکس لگائے جائیں گے۔اسی طرح بجلی کی قلت ہوئی،پھر اس میں اضافہ ہوا، لوڈ شیڈنگ کا آغاز ہوا اور پھر اس میں شدت پیدا ہوگئی ۔ آج صورتحال یہ ہے کہ کراچی جیسے بڑے شہر کے متعدد علاقوں میں دو، چار یا 6نہیں بلکہ کئی کئی گھنٹوں کےلئے بجلی غائب رہتی ہے۔ماضی میں اسٹیل ملز ، وطن عزیز کا قیمتی اثاثہ سمجھی جاتی تھی، اس کی ترقی کو ملکی ترقی قرار دیاجاتا تھا، آج پاکستان اسٹیل ملز بند ہو چکی ہے، ”باکمال لوگ، لاجواب سروس“ ہماری قومی ایئر لائنز کا نعرہ تھا، یہ دوسرے ممالک کی ایئر لائنز کو”پرواز کرنا“ سکھاتی تھی، اس کے پائلٹس اپنی پیشہ ورانہ مہارت کے اعتبار سے دنیا بھر میں اول قرار پاتے تھے، آج اس کے پائلٹس کاک پٹ میں لمبی تان کر سوتے ہیںاور دنیابھر میں قوم اور قومی ایئر لائنز کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں، اس کے طیاروں سے ہیروئن برآمد ہوتی ہے، ریل گاڑیوں کے کرائے کئی گنابڑھ چکے ہیں مگر ان میں مسافروں کو دی جانے والی سہولتیں معدوم ہوتی جا رہی ہیں ، ہم غیر ملکوں کے سرمایہ کاروں کوپاکستان آنے اور وہاں سرمایہ کاری کرنے کی دعوت دیتے ہیں جبکہ ہمارے اپنے سرمایہ کار دوسرے ممالک کا رُخ کر رہے ہیں، ہمارے وطن میںبے روزگاروں کی تعداد بڑھ رہی ہے، معیشت تنزلی کی جانب جا رہی ہے، قرضوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ چند برس قبل تک سول سُپر سروسز یعنی ”سی ایس ایس“ کے امتحانات میں پاس ہونے والوں کی شرح 20فیصد تھی جو 3روز قبل شائع ہونے والے سی ایس ایس کے امتحانی نتائج کے مطابق 2فیصد رہ گئی ہے۔ان تمام حقائق کی موجودگی میں ہماری حکومت کے ذمہ داران، بااختیار صاحبان، وی آئی پیز، وی وی آئی پیز اور یہاں تک کہ محترم سربراہِ حکومت بھی ببانگِ دہل فرماتے ہیں کہ ملک ترقی کر رہا ہے، معیشت بہتر سے بہتر ہوتی جا رہی ہے۔ آج حالت یہ ہے کہ پاکستان کی معیشت دنیا کی 25بہترین معیشتوں میں شامل ہو چکی ہے۔ وہ لوگ جو ملکی ترقی کے خلاف ہیں، ان سے التماس ہے کہ ہماری ٹانگیں نہ کھینچیں بلکہ ملکی ”ترقی“ میں ہاتھ بٹائیں، اپنی سیاسی دکانیں چمکانے کے لئے خواہ مخواہ جھوٹ نہ بولیں۔
ہم نے کل ہی ایک انتہائی اہم سرکاری عہدیدار کی تقریر سنی۔ انہوں نے بھی ملکی حالات کو ”ترقی کا شاخسانہ“ قرار دیا۔ یہ سن کر ہمارا دل بلیوں اچھلنے لگا۔ اس نے گواہی دی کہ ”ترقی“ کے بارے میں مس شکیلہ نے جو کہا تھا وہ بالکل درست تھاجبکہ مس انیلہ کا بیان بے بنیاد اور غیر صحیح تھا۔ آج4دہائیوں کے بعدہمیں ایسا لگا جیسے مس انیلہ کے طمانچے کی گونج شرمسارہو رہی ہے۔
٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: