لاہور میں پیپلز پارٹی کے بعد نواز لیگ کے جھنڈے، انتخابی معرکے کا آغاز ہے؟
لاہور میں پیپلز پارٹی کے بعد نواز لیگ کے جھنڈے، انتخابی معرکے کا آغاز ہے؟
جمعرات 15 جون 2023 10:19
ادیب یوسفزئی - اردو نیوز
لاہور ایک مرتبہ پھر سے سیاسی سرگرمیوں کا ایک بڑا مرکز بنا ہوا ہے۔ گزشتہ سال اپریل میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ختم ہونے کے بعد سے عمران خان نے زمان پارک میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں اور پورا سال سیاسی ریلیوں، مظاہروں اور ملاقاتوں کا کافی ہلہ گلہ رہا۔
9 مئی کے بعد ان کا زور ٹوٹا تو پیپلز پارٹی نے وہاں بیٹھک جما لی اور آصف زرداری تقریباً دو ہفتے تک پنجاب کے ایلکٹیبلز سے وہاں ملاقاتیں کرتے رہے۔ اس دوران پیپلز پارٹی نے پورے شہر کو اپنے جھنڈوں اور بینزز سے رنگ دیا اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ لاہور دوبارہ سے ان کا گڑھ بن رہا ہے۔
ابھی پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری لاہور میں ہی ہیں کہ مسلم لیگ نواز نے اپنے پرچموں اور بنیرز کے ذریعے جوابی وار کیا ہے اور شہر میں اپنے سبز رنگ کے جھنڈوں کی بہار لانے کی کوشش شروع کر دی ہے۔
کینال روڈ، کلمہ چوک اور گلبرگ میں رنگوں کی بہار
اس وقت شہر کی معروف کینال روڈ اور مسلم ٹاؤن کی سڑکوں پر پیپلز پارٹی کے سہ رنگی جھنڈے لہرا رہے ہیں تو دوسری طرف گارڈن ٹاؤن، مین بولیوارڈ روڈ اور گلبرگ روڈ کو نواز لیگ نے سبز جھنڈوں سے بھر دیا ہے۔
کلمہ چوک کو مسلم لیگ نواز نے جھنڈوں سے یوں مزین کیا ہے جیسے پارٹی پرچموں کی سیاست کا مرکز یہی مقام ہو۔ یہیں پر کینٹ جانے والی سڑک کے دونوں اطراف پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے جھنڈے ایک دوسرے کے سامنے نمایاں نظر آ رہے ہیں۔
کلمہ چوک فلائی اوور پر بڑی تعداد میں نون لیگ کے جھنڈے ہی نظر آ رہے ہیں۔ لبرٹی چوک اور اس سے متصل نور جہان روڈ پر بھی نون لیگ کے سبز جھنڈے لگائے گئے ہیں۔ اسی طرح لبرٹی چوک سے آگے سروس روڈ، کالج روڈ، غالب روڈ اور ظہور الٰہی روڈ پر بھی نون لیگ کے پارٹی پرچم نظر آتے ہیں۔
دائیں جانب کی سڑکوں پر نون لیگ جبکہ بائیں جانب پیپلز پارٹی کے جھنڈوں سے معلوم ہوتا ہے کہ گویا لاہور جھنڈوں کی سیاست میں مکمل طور پر تقسیم ہو گیا ہے۔
لاہور کے شہری اس صورتحال کو دلچسپی کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔ ان کے خیال میں پرچموں کی یہ جنگ انتخابی صف بندی کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔
تاہم پاکستان مسلم لیگ نواز پنجاب کی انفارمیشن سیکریٹری عظمیٰ زاہد بخاری کے مطابق لاہور شہر میں نواز لیگ کے جھنڈے لگانا کوئی بڑی خبر نہیں۔
انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’لاہور نواز لیگ کا گڑھ ہے، ہمارے جھنڈے ہر جگہ موجود ہیں اور جہاں ہمارے جھنڈے کم ہیں وہاں انتخابی مہم آگے بڑھنے کے ساتھ ہی مزید پرچم لگائے جا ئیں گے۔‘
انتخابات سے پہلے لاہور حاصل کرنے کی دوڑ
عظمیٰ زاہد بخاری کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت کی انتخابی سرگرمیاں پہلے سے ہی چل رہی ہیں۔ مریم نواز ہر ڈویژن میں ٹکٹ ہولڈرز کے ساتھ ملاقاتیں کر رہی ہیں اور ہر جگہ تنظیمی سطح پر کنونشنز کا انعقاد بھی کیا جا رہا ہے۔
سیاسی تجزیہ کار سلمان عابد بھی جھنڈوں کی اس جنگ کو انتخابی معرکے کا طبل تصور کرتے ہیں۔
اردو نیوز سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ ’لاہور میں جھنڈوں کی سیاست سے عملی طور پر انتخابات کی طرف پیشرفت ہو رہی ہے۔‘
سلمان عابد کہتتے ہیں کہ ’نون لیگ کو بھی اندازہ ہو گیا ہے کہ اگر مقتدرہ حلقوں نے عام انتخابات کا فیصلہ کر لیا ہے تو ان کے پاس فوری طور پر انتخابی مہم شروع کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔‘
سلمان عابد کے خیال میں ’نون لیگ کو لگتا ہے کہ پی ٹی آئی کے بعد اب پنجاب پر ان کا ہی سیاسی حق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب نون لیگ پنجاب کو دوبارہ فتح کرنا چاہتی ہے، اس وقت نون لیگ مرکز سے زیادہ پنجاب میں اپنی حکومت بنانے کی کوششیں کر رہی ہے۔‘
عظمیٰ بخاری کے مطابق لاہور میں نواز لیگ کی نہیں پیپلز پارٹی کی سیاسی سرگرمیاں باعث حیرت ہیں۔
وہ کہتی ہیں ’لاہور میں نواز لیگ کے جھنڈے لگنا معمول کی بات ہے۔ لیکن جب پیپلز پارٹی کے جھنڈے لگے تو لوگ حیران ہوئے کہ پیپلز پارٹی دوبارہ سر اٹھا رہی ہے یا کوشش کر رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ لوگوں نے نوٹس کیا، تاہم نون لیگ کے جھنڈے اور ووٹرز لاہور میں ہمیشہ سے رہے ہیں۔‘
’تحریک انصاف کی بھی دوبارہ انٹری ہو گی‘
پاکستان تحریک انصاف اس وقت بظاہر پرچموں اور بینرز کے ذریعے تشہیر کی اس دوڑ سے باہر ہے۔ تاہم سلمان عابد کے خیال میں جیسے ہی ملک کے اندر انتخابات کا ماحول بنے گا تو ان کی سیاسی سرگرمیاں بھی دیکھنے کو ملیں گی۔
وہ کہتے ہیں کہ ’درحقیقت اس وقت پنجاب میں سب سے بڑا ووٹ بینک پی ٹی آئی کا ہے، سڑکوں پر ان کے جھنڈے نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ان کی سیاسی سرگرمیاں معطل ہیں، اور ان کے بیشتر لوگ یا تو گرفتار ہیں یا پارٹی چھوڑ چکے ہیں یا پھر روپوش ہو گئے ہیں۔‘
سلمان عابد کے مطابق ’لاہور ہائی کورٹ نے تحریک انصاف کو جلسوں کی اجازت بھی دی ہے، پہلا جلسہ پشاور میں کیا جا رہا ہے، تو اسی بنیاد پر ساری جماعتیں سرگرم ہو رہی ہیں اور مزید سیاسی حکمت عملی بھی اپنائی جائے گی۔‘