Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

امریکی وزیر خارجہ کا دورۂ چین: صدر شی جن پنگ سے ملاقات ہو سکے گی؟

امریکی وزیر خارجہ انتونی بلنکن پیر کو چین کے اعلیٰ سفارت کار اور ممکنہ طور پر چینی صدر سے ملاقات کریں گے۔
برطانوی خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق پانچ سالوں میں چین کا دورہ کرنے والے پہلے امریکی وزیر خارجہ انتونی بلنکن نے اتوار کو چینی وزیر خارجہ کن گینگ کے ساتھ ‘تعمیری‘ بات چیت کی تاہم تائیوان، تجارت، انسانی حقوق سمیت دیگر تنازعات کے حوالے سے کوئی بڑی پیش رفت نہیں ہو سکی۔
دونوں رہنماؤں نے تعلقات کو مستحکم کرنے کی خواہش کا اظہار کیا اور اس بات پر اتفاق کیا کہ بات چیت جاری رکھنے کے لیے واشنگٹن کا دورہ کریں گے، حالانکہ کسی تاریخ کا اعلان نہیں کیا گیا تھا۔
انتونی بلنکن پیر کو چین کے اعلیٰ سفارت کار وانگ یی سے ملاقات کریں گے تاہم سب کی توجہ اس طرف ہے کہ آیا اُن کی چینی صدر شی جن پنگ سے بھی ملاقات ہو گی یا نہیں۔
ذرائع نے بتایا ہے کہ ’توقع کی جا رہی ہے لیکن محکمہ خارجہ کی طرف سے اس کی تصدیق ابھی باقی ہے۔‘
اگرچہ دونوں فریقین نے کہا ہے کہ اتوار کی بات چیت تعمیری تھی تاہم ایسا لگتا ہے کہ وہ واشنگٹن میں ہونے والی ایک حتمی میٹنگ کے ساتھ بات چیت کو جاری رکھنے اور اپنے شہریوں کے لیے ایک دوسرے کے ممالک کا دورہ کرنے میں آسانی پیدا کرنے کے لیے اقدامات پر ہی متفق ہو سکے ہیں۔
عشائیہ کے بعد امریکی اور چینی حکام دونوں نے مستحکم تعلقات کی خواہش پر زور دیا تاہم چین نے یہ بھی واضح کیا کہ تائیوان سب سے اہم مسئلہ ہے اور ممکنہ طور پر خطرناک ہے۔
امریکی وزیر خارجہ انتونی بلنکن اعلٰی ترین سطح کے دورے پر اتوار کو چین پہنچے تھے جسے دو حریف ممالک کے درمیان کشیدگی کم کرنے کی کوشش سمجھا جا رہا ہے۔
امریکی صدر جو بائیڈن اور اُن کے چینی ہم منصب شی جن پنگ کے درمیان نومبر میں جی 20 سمٹ سے قبل بالی میں خوشگوار ملاقات ہوئی تھی جس کے چار ماہ بعد انتونی بلنکن نے بیجنگ کا دورہ کرنا تھا۔
امریکی وزیر خارجہ نے یہ دورہ اُس وقت ملتوی کر دیا تھا جب امریکی فضاؤں میں چین کے جاسوس غبارے کی موجودگی کے بارے میں معلوم ہوا تھا۔
اپنی روانگی سے قبل امریکی وزیر خارجہ انتونی بلنکن نے کہا کہ وہ ’غلط فہمیوں سے بچنے کے راستے تلاش کر کے ذمہ داری سے اپنے تعلقات کو نبھانے کی کوشش‘ کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ ’شدید مقابلہ بازی کو مستقل سفارت کاری کی ضرورت ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ مقابلہ تصادم کی طرف نہ جائے۔‘

شیئر: