Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

روس میں مسلح بغاوت، ایشیا میں تیل کی قیمتیں بڑھ گئیں

خام تیل کی قیمت 95 سینٹس کے اضافے کے بعد 74.80 ڈالر ہو گئی ہے۔ (فوٹو: روئٹرز)
روس میں نیم فوجی دستے ویگنر کی ناکام بغاوت کے بعد ایشیا کی منڈیوں میں تیل کی قیمتوں میں اضافے دیکھنے میں آ رہا ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق تیل کے بڑے پیداواری ممالک میں شامل یورپی ملک روس میں گزشتہ ایک ہفتے سے جاری صورت حال نے سیاسی عدم استحکام کے علاوہ تیل کی فراہمی پر ممکنہ اثرات کے حوالے سے خدشات کو جنم دیا ہے۔
اتوار کی رات کو برینٹ خام تیل کی قیمت میں 95 سینٹس یا ایک اعشاریہ تین فیصد کا اضافہ ہوا جس کے بعد فی بیرل قیمت 74 اعشاریہ 80 ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔
اسی طرح امریکہ، مغربی ٹیکساس انٹرمیڈیٹ (ڈبلیو ٹی آئی) خام تیل کی قیمت 70 اعشاریہ چار ڈالر فی بیرل تک بڑھی جو کہ 88 سینٹس اور ایک اعشاریہ تین فیصد کا اضافہ ہے۔
خیال رہے کہ گزشتہ ہفتے روس کے نیم فوجی دستے ’ویگنر‘ نے روسی فوجی قیادت کے خلاف بغاوت کا اعلان کیا تھا جس کے بعد صدر ولادیمیر پوتن نے ہنگامی پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ روسی فوج کے خلاف ہتھیار اُٹھائے والے کو سزا دی جائے گی۔
روسی فوج اور نیم فوجی دستے ویگنر کے درمیان اتوار کی رات کو معاہدہ طے پانے کے بعد دونوں کے درمیان تصادم کا خطرہ ٹلا تھا۔
اس سے قبل ویگنر میں شامل مسلح دستوں نے یوکرین میں قائم اپنے کیمپس سے ماسکو کی جانب پیش قدمی شروع کر دی تھی۔
روسی صدر ولادیمیر پوتن نے ویگنر کے اقدام کو غداری قرار دیتے ہوئے اس کے لیے سخت سزا کا اعلان کیا ہے۔
تاہم بعد ازاں پڑوسی ملک بیلاروس کی کوششوں سے بات چیت  کا آغاز ہوا اور روس کی جانب سے ویگنر کے سربراہ اور اس میں شامل فوجیوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی نہ کیے جانے کے اعلان کے بعد معاہدہ طے پایا تھا۔

ویگنر کے مسلح دستوں نے ماسکو کی جانب پیش قدمی شروع کر دی تھی۔ فوٹو: اے ایف پی

روسی حکام کا کہنا ہے کہ ویگنر کے سربراہ یوگینی پریگوزین کو بیلاروس منتقل کر دیا جائے گا اور ان کے ساتھی فوجی اپنے محاذ پر واپس چلے جائیں گے۔
امریکی سرمایہ کاری بینک گولڈ مین سیکس کے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ روس میں بننے والی سیاسی و جنگی صورت حال سے تیل کی رسد میں رکاوٹ پیدا ہو سکتی اور تیل کی سپلائی پر منفی اثرات بھی مرتب ہو سکتے ہیں جس سے  تیل کی قیمتوں میں مزید اضافہ ممکن ہے۔
تاہم ساتھ ہی تجزیہ کاروں کی جانب سے یہ امکان بھی ظاہر کیا گیا ہے کہ اس صورتحال سے پیدا ہونے والے منفی اثرات محدود مدت کے لیے ہوں گے۔
دوسری جانب امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کا کہنا ہے کہ ویگنر جنگجوؤں کی مسلح بغاوت سے پیدا ہونے والے غیرمعمولی چیلنجز سے صدر ولادیمیر پوتن کی قیادت میں تازہ ’دراڑیں‘ سامنے آئی ہیں جن کو بھرنے میں ہفتے یا مہینے لگ سکتے ہیں۔
انٹونی بلنکن سمیت کانگریس کے ارکان مختلف ٹیلی ویژن چینلز کو دیے گئے انٹرویوز میں کہہ چکے ہیں کہ روس میں حالیہ ہنگامہ آرائی سے صدر پوتن کمزور ہوئے ہیں اور یوکرین کی افواج کی روسی فوج کے خلاف جوابی کارروائی کے علاوہ پولینڈ سمیت بالٹک خطے کی ریاستوں کو فائدہ پہنچا ہے۔
وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے ویگنر فورسز کی جانب سے حالیہ کارروائی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ لاوا گزشتہ کئی ماہ سے پک رہا تھا تاہم انہوں نے ویگنر کی مسلح بغاوت کو روس کا ’اندرونی مسئلہ‘ قرار دیا ہے۔

شیئر: