Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’ہاشم سڑک پر تڑپتا رہا‘،دبئی سے کراچی آنے والا نوجوان پولیس کی فائرنگ سے ہلاک

پولیس نے منگھو پیر روڈ پر ہاشم مگسی اور ان کے ساتھی پر فائرنگ کی۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
صوبہ سندھ کے شہر کراچی میں ایک اور نوجوان پولیس کی گولیوں کا نشانہ بن گیا اور ہنستے بستے گھر میں صف ماتم بچھ گئی۔
چار سال بعد متحدہ عرب امارات سے پاکستان واپس آنے والے محمد ہاشم مگسی منگھو پیر روڈ پر پولیس کی گولیوں کا نشانہ بننے سے ہلاک ہو گئے۔  
محمد ہاشم شادی کی غرض سے دبئی سے پاکستان آئے تھے اور دو ماہ قبل ہی ان کی شادی ہوئی تھی۔ محمد ہاشم دبئی میں شکار کے لیے بازوں کو تربیت دینے کا کام کرتے تھے۔
رواں ہفتے منگل اور بدھ کی درمیانی شب محمد ہاشم اور ان کا دوست محمد شہزاد منگھو پیر روڈ سے گزر رہے تھے کہ ناکے پر پولیس نے ہاشم کی موٹر سائیکل کو روکنے کا اشارہ کیا لیکن رفتار تیز ہونے کی وجہ سے موٹر سائیکل کے رکنے میں تاخیر ہوئی جس پر پولیس نے فائر کھول دیا۔
31 سالہ ہاشم تو موقع پر ہی ہلاک ہو گئے جبکہ ان کے ساتھی شہزاد زخمی ہیں۔ 
کراچی کی منگھو پیر روڈ پر جس مقام پر محمد ہاشم کو گولی ماری گئی ہے یہ شارع کراچی کے مضافاتی علاقے کا حصہ ہے۔ سندھ اور بلوچستان کو جوڑنے والے اس علاقے میں کئی مقامات پر کالعدم تنظیموں اور جرائم پیشہ افراد کی موجودگی کے پیش نظر آپریشن بھی معمول کا حصہ ہے۔
یہ کراچی کا پہاڑی علاقہ ہے اور شہر کے مرکز سے دور ہونے کی وجہ سے یہاں ٹریفک کی آمد و رفت بھی رات ہوتے ہی محدود ہوجاتی ہے۔ کچی پکی سڑکوں سے جڑتا منگھو پیر روڈ اکثر و بیشتر اندھیرے میں ہی ڈوبا رہتا ہے۔

ہاشم مگسی دبئی میں بازوں کو تربیت دینے کا کام کرتے تھے۔ فوٹو: بشکریہ اہل خانہ

مقتول ہاشم مگسی کے ساتھی محمد شہزاد نے اردو نیوز کو واقعے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ منگل کے روز رات تقریباً 10 کے قریب وہ شاہ نورانی کے مزار سے واپس آرہے تھے کہ منھگو پیر روڈ پر سناٹا ہونے کی وجہ سے موٹرسائیکل کی رفتار بہت زیادہ تھی۔
’ہماری کوشش تھی کہ جلد سے جلد اس علاقے کو پار کر لیں۔ کیونکہ اس علاقے میں آئے روز لوٹ مار کی وارداتوں کی اطلاع ملتی ہے۔‘ 
’منگھو پیر روڈ ناکہ چنگی کے مقام سے ہم گزر رہے تھے کہ اندھیر ے میں کھڑی ایک پولیس موبائل نے ہمیں رکنے کا اشارہ کیا، موٹر سائیکل کی رفتار تیز ہونے کی وجہ سے رکنے میں تاخیر ہوئی۔ اسی دوران فائرنگ کی آواز آئی۔ پیچھے پلٹ کر دیکھا تو میرا ساتھی ہاشم زمین پر گرنے لگا تھا اور اس کے جسم سے خون بہہ رہا تھا۔‘
محمد شہزاد نے بتایا کہ وہ وہاں سے بھاگ نکلے اور قریب ہی کھڑے ایک ٹینکر کے پیچھے چھپ کر اپنی جان بچائی۔
’ہم پر تقریباً تین فائر کیے گئے۔ ہاشم کو ایک گولی کمر پر لگ کر سینے سے نکلی جس نے مجھے بھی زخمی کیا۔‘   
نارتھ ناظم آباد بلاک ایس خلیل آباد کا 31 سالہ رہائشی محمد ہاشم مگسی سکندر سات بہن بھائیوں میں تیسرے نمبر پر تھا۔ گوری رنگت بھاری بھرکم آواز اور دیکھنے والے پر اپنی شخصیت کا اثر چھوڑنے والا ہاشم گھر میں اور علاقے میں اپنے اچھے اخلاق اور ملن ساری کی وجہ سے سب کو پیارا تھا۔
بہن بھائیوں کے لاڈلے ہاشم کی اچانک موت سے خوشیوں بھرے گھر میں اب سوگ کی کیفیت ہے۔ علاقے میں بھی لوگ ہاشم کی موت پر افسردہ ہیں اور سوگ کا عالم ہے۔
 محمد ہاشم کی بیوہ کا کہنا ہے کہ ان کے شوہر کو بے دردی سے قتل کیا گیا ہے۔
’ہاشم سڑک پر تڑپتا رہا لیکن کوئی اس کی مدد کو نہیں آیا۔ پولیس نے ایمبولینس والے کو کہا کہ ڈکیٹ مارا ہے تھانے لے کر جانا ہے۔ دس منٹ تک میرا شوہر زمین پر پڑا رہا کوئی اس کا پرسان حال نہیں تھا۔‘
’درگاہ پر حاضری کے لیے گھر سے نکلے تھے۔ ہمیں کیا معلوم تھا کہ ہم پر یہ قیامت ٹوٹے گی۔ ہم کبھی ہاشم کو یوں نہ جانے دیتے۔‘
پولیس کی ابتدائی تفتیش کے مطابق11 جولائی کو منگھو پیر میں پیش آنے والے واقعے میں پولیس کے (اے وی ایل سی) کے اہلکاروں کے ملوث ہونے کے شواہد ملے ہیں۔ 

منگھو پیر تھانے میں نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

کراچی ضلع غربی پولیس کے ترجمان نے اردو نیوز کو بتایا کہ مقدمہ منگھو پیر تھانے میں نامعلوم افراد کے خلاف درج کر لیا گیا ہے جس میں قتل کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ایڈیشنل آئی جی سندھ نے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے جو واقعے کی ہر زاویے سے تحقیقات کر رہی ہے، ابھی تک مقدمے میں کسی کو گرفتار نہیں کیا گیا۔ 
واضح رہے کہ کراچی میں پولیس کی جانب سے شہری پر گولیاں چلانے کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ اس سے قبل بھی شہر کے مخلتف علاقوں میں وردی میں ملبوس اہلکار اور ان کے ساتھ چلنے والی پرائیویٹ پارٹیوں نے کئی بار شہریوں کو اپنی گولیوں کا نشانہ بنایا ہے۔
کراچی کے علاقے گلستان جوہر میں شاہین فورس کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے نوجوان محمد عامر اور سہراب گوٹھ کے رہائشی نقیب اللہ محسود سمیت مبینہ جعلی مقابلوں میں ہلاک ہونے والے درجنوں شہریوں کے اہلخانہ آج بھی انصاف کے منتظر ہیں۔

شیئر: