استحکام پاکستان پارٹی میں ’اختلافات‘، ’جیسے جبری نکاح ہوا‘
استحکام پاکستان پارٹی میں ’اختلافات‘، ’جیسے جبری نکاح ہوا‘
ہفتہ 5 اگست 2023 5:39
ادیب یوسفزئی - اردو نیوز، لاہور
استحکام پاکستان پارٹی میں پی ٹی آئی کے کئی رہنما شامل ہو چکے ہیں۔ (فوٹو: ٹوئٹر)
رواں برس آٹھ اگست کو استحکامِ پاکستان پارٹی (آئی پی پی) کے قیام کو دو ماہ مکمل ہو جائیں گے، مگر پارٹی میں اختلافات کی خبروں کے باعث سیاسی حلقوں میں چہ میگوئیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔
گذشتہ دو ماہ کے دوران پارٹی کا سیاسی منشور جاری ہوا نہ ہی تنظیمی ساخت واضح ہوئی ہے، جبکہ انتخابی بیانیے کے حوالے سے بھی پارٹی رہنما گومگو کا شکار نظر آ رہے ہیں، جن میں سے اکثریت کے سیاسی گوشہ نشینی اختیار کرنے نے بھی بے شمار سوالات اٹھا دیے ہیں۔
پارٹی کی مرکزی سیکریٹری اطلاعات ڈاکٹر فردوش عاشق اعوان نے اگرچہ گذشتہ دنوں یہ اعلان کیا تھا کہ ان کی جماعت 14 اگست سے باضابطہ طور پر اپنے سیاسی سفر کا آغاز کرے گی، اس میں چند روز ہی باقی بچے ہیں مگر پارٹی کی سرکردہ قیادت کہیں نظر نہیں آ رہی۔
اردو نیوز نے اس بارے میں مؤقف جاننے کے لیے ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان سے کئی بار رابطہ کیا تاہم انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔
عون چوہدری، فیاض الحسن چوہان اور پارٹی کے دیگر مرکزی رہنماؤں سے بھی رابطہ کیا گیا لیکن انہوں نے بھی ان پہلوؤں پر بات کرنے سے گریز کیا۔
پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) جب ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئی تھی تو آئی پی پی کے قیام نے عمران خان کی قیادت سے نالاں رہنماؤں کے لیے ایک وقتی سیاسی گھونسلے کا کردار ضرور ادا کیا تھا، تاہم اب یہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ یہی رہنما پارٹی سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔
’یہ سرے سے سیاسی جماعت ہی نہیں ہے‘
سینیئر تجزیہ کار سلمان عابد نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ پارٹی بنیادی طور پر اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے بنائی گئی ہے جس کا مقصد پی ٹی آئی کو پنجاب میں کمزور کرنا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’جو لوگ استحکام پاکستان پارٹی میں شامل ہوئے ہیں تو ان کے اس فیصلے میں ان کی مرضی شامل نہیں تھی بلکہ وہ دباؤ اور خوف کی وجہ سے اس کا حصہ بنے، جس کے باعث پارٹی کی سرگرمیوں میں ان کی دلچسپی نہ ہونے کے برابر ہے۔‘
سینیئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا کہ ’جہانگیر ترین اپنے بھائی کی اچانک موت پر تعزیت میں مصروف تھے لیکن سیاسی جماعت کے طور پر دیگر رہنماؤں کا آپس میں رابطے نہ رکھنا ان کے درمیان اختلافات کی نشاندہی کر رہا ہے۔‘
انہوں نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پارٹی اراکین کے مابین اختلافات کی باتیں سچ ہو سکتی ہیں۔ غیر متحرک سیاسی جماعتوں میں رہنما عموماً آپس میں رابطے نہیں رکھتے۔ لیکن یہ سب فی الحال اکٹھے چلیں گے کیونکہ ان کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے۔‘
سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ ’اس وقت ملک میں انتخابی ماحول بن رہا ہے۔ سیاسی جماعتیں اپنی سرگرمیوں کا آغاز کر رہی ہیں لیکن اس دوران استحکام پاکستان پارٹی کی تنظیمی ساخت اور منشور کے متعلق کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔‘
انگریزی اخبار ڈان سے منسلک سینیئر صحافی احسن رضا سمجھتے ہیں کہ ’یہ سرے سے سیاسی جماعت ہی نہیں ہے بلکہ تحریک انصاف سے توڑے گئے لوگوں کا ایک اکٹھ ہے۔‘
جہانگیر ترین اور علیم خان کے مابین اختلافات ہیں؟
سیاسی منظر نامے پر نظر رکھنے والے تجزیہ کار اس نکتے پر متفق ہیں کہ آئی پی پی کی تنظیمی ساخت میں کافی خرابیاں موجود ہیں۔
سلمان عابد کا کہنا تھا کہ ’جہانگیر ترین اور علیم خان کے مابین اختلافات پارٹی کی کمزور تنظیمی ساخت کی وجہ ہو سکتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ان دونوں کا جبری نکاح ہوا ہے۔‘
تاہم سہیل وڑائچ کا خیال ہے کہ انتخابات قریب آنے کے بعد دونوں رہنماؤں کے مابین اختلافات اگر ہیں تو وہ ختم ہو جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ’میرا خیال ہے کہ انتخابات قریب آتے ہی ان کو ہر صورت میں الیکشن میں جانا ہو گا، ان کے درمیان فی الحال اختلافات کے امکانات زیادہ نہیں ہیں البتہ اگر اقتدار میں جانا ہوا تو دونوں کے مابین اختلافات پیدا ہوسکتے ہیں۔‘
سہیل وڑائچ کے مطابق ’وفاقی حکومت میں بڑا عہدہ جہانگیر ترین کو ہی ملنے کا امکان ہے جبکہ علیم خان پنجاب کی وزارت اعلٰی پر اکتفا کر لیں گے جس کے بعد دونوں کے مابین معاملات ٹھیک ہو جائیں گے۔‘
احسن رضا نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اس سیاسی جماعت کے تنظیمی خدوحال واضح نہیں ہیں اور نہ ہوں گے کیونکہ اس کی بنیادی ساخت ہی غلط ہے۔‘
’ووٹ بینک کمزور دکھائی دے رہا ہے‘
پارٹی منشور کے حوالے سے صحافتی حلقوں میں یہ خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ منشور جاری کرنے کے حوالے سے جہانگیر ترین کی مصروفیت حائل ہو رہی ہے۔
سینیئر صحافی سہیل وڑائچ کے مطابق ’ابھی فوراً انتخابات ہوتے نظر نہیں آ رہے جس کی وجہ سے پارٹی رہنماؤں کی سرگرمیاں بھی محدود ہو گئی ہیں لیکن جہانگیر ترین اب فارغ ہو گئے ہیں اور جلد ہی آئی پی پی کا منشور بھی منظر عام پر آ جائے گا۔‘
سلمان عابد سمجھتے ہیں کہ ’منشور سے انتخابات نہیں جیتے جا سکتے اس لیے اس کی اتنی اہمیت نہیں رہتی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’پاکستان تحریک انصاف چھوڑ کر استحکام پاکستان پارٹی میں شامل ہونے والے ارکان کسی حد تک سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے سے گریزاں ہیں۔‘
’بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ جہانگیر ترین اور علیم خان کے پاس وہ ووٹ بینک نہیں ہے جس کو بنیاد بنا کر پنجاب میں پی ٹی آئی کا مقابلہ کیا جا سکے، ان وجوہ کے باعث بھی اکثر رہنما پریشانی میں مبتلا ہیں۔‘
سلمان عابد نے انکشاف کیا کہ ’کئی رہنماؤں نے تو تحریک انصاف میں واپس جانے کے لیے بیک ڈور رابطے بھی شروع کر دیے ہیں۔‘
’اس وقت استحکام پاکستان پارٹی کو ایک مربوط انتخابی بیانیہ بنانے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ انتخابی میدان میں اتارنے کے لیے ان کے پاس رہنما تو موجود ہیں تاہم شہری سیاست میں چند الیکٹیبلز کے علاوہ ان کا ووٹ بینک کمزور دکھائی دے رہا ہے۔‘
سہیل وڑائچ کے مطابق ’آئی پی پی کے پاس کوئی بیانیہ نہیں ہے لیکن اگر ان کو ن لیگ نے ٹکٹیں دے دیں تو یہ نون لیگ کے ساتھ کھڑے ہو جائیں گے۔ اس کے باوجود یہ اپنا ایک مربوط سیاسی بیانیہ بنانے کی کوشش کریں گے کہ ہم ن لیگ اور پی ٹی آئی کے خلاف ہیں اور یہ ممکنہ طور پر مائنس عمران خان کے مؤقف کو لے کر آگے بڑھیں گے۔‘
تجزیہ کاروں کے مطابق شہری سیاست میں جہانگیر ترین اور علیم خان کا قد کاٹھ بہت زیادہ متاثر کن نہیں ہے کہ لوگوں کو متوجہ کیا جا سکے، اس لیے ممکنہ صورت میں ن لیگ کے ساتھ اتحاد کر کے آگے جانے کا سوچا جا سکتا ہے۔ لیکن اس وقت جہانگیر ترین کی نااہلی بھی انتخابات کے متعلق مستقبل کے فیصلوں میں رکاوٹ پیدا کر رہی ہے۔
سہیل وڑائچ اور احسن رضا نے متفقہ طور پر کہا کہ ’نواز شریف اور جہانگیر ترین کا کیس ایک ہی نوعیت کا ہے، اس لیے نواز شریف کے مستقبل کا فیصلہ جہانگیر ترین کے سیاسی کیریئر پر بھی اثرانداز ہو گا۔
تاہم سلمان عابد کا کہنا تھا کہ ’نواز شریف کا آنے والے انتخابات میں حصہ لینا تاحال مشکوک ہے، اس لیے جہانگیر ترین کی نااہلی ختم ہونے پر اب بھی سوالیہ نشان موجود ہے۔‘