Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

چھالیہ سپاری کے جرم میں 2 ماہ ترکیہ کی جیل میں گزارنے والے پاکستانی نوجوان کی روداد

محمد اویس چھالیہ اپنے ایک دوست کے لیے تحفہ کے طور پر لے کر گئے تھے۔ (فوٹو: فیس بک چھالیہ والا)
لاہور کے محمد اویس کی آنکھوں میں خوشی اور دکھ کے ملے جلے جذبات دکھائی دے رہے تھے، وہ خوش بھی تھے کیوں کہ دو ماہ سے زیادہ عرصہ دیارِ غیر کی جیل میں بے گناہ سزا کاٹنے کے بعد اپنے وطن کی آزاد فضاؤں میں سانس لے رہے تھے، اور دُکھی ہونے کی وجہ یہ تھی کہ ان کو یہ سزا محض اس لیے دی گئی تھی کہ ان کے سامان سے چھالیہ برآمد ہوئی تھی اور وہ لاعلم تھے کہ ترکیہ میں چھالیہ لے جانا قانوناً جرم ہے۔
وہ یہ چھالیہ اپنے ایک دوست کے لیے تحفہ کے طور پر لے کر گئے تھے جس کی انہوں نے بہت بھاری قیمت چکائی۔
یہ ستمبر 2022 کی بات ہے جب لاہور سے تعلق رکھنے والے محمد اویس نے اپنی کمپنی کی جانب سے بیرون ملک سیاحت کی پیشکش کو قبول کرتے ہوئے ترکیہ جانے کا فیصلہ کیا۔
ایک دوست کی فرمائش پر چھالیہ کے دو پیکٹ بھی تحفہ کے طور پر ساتھ لے رکھ لیے۔
وہ سیاحتی دورے پر استنبول پہنچے۔ ان کی سیاحت ابھی شروع بھی نہ ہوئی تھی کہ ترک حکام نے چھالیہ رکھنے کے جرم میں انہیں گرفتار کر لیا۔
اردو نیوز نے محمد اویس کی چھالیہ رکھنے کے الزام میں گرفتاری کی خبر شائع کی تو پاکستانی میڈیا میں کہیں پاک ترک تعلقات کو لے کر مباحث شروع ہوئے تو کہیں پاکستانی سفارت خانے کی جانب سے شہریوں کو مناسب آگاہی نہ دینے پر تنقید ہوئی۔
دو ماہ بعد محمد اویس کی عدالتی حکم کے ذریعے رہائی عمل میں آئی اور وہ سیاحت کیے بنا ہی پاکستان واپس لوٹ آئے۔ جیل سے رہائی اور وطن واپسی پر بھی انہیں اپنی ان تکلیف دہ یادوں سے نکلنے میں کئی ماہ لگ گئے۔ 
اردو نیوز نے ان سے رابطہ کیا اور ان کی گرفتاری سے رہائی تک کی روداد جاننے کی کوشش کی۔ 
محمد اویس پر اس سیاحت کے دوران جو کچھ بیتی، انہی کی زبانی جانتے ہیں:
’15 ستمبر 2022 کو لاہور سے براستہ دوحہ صبیحہ انٹرنیشنل ایئرپورٹ استنبول پہنچا۔ مجھے ایئرپورٹ سے باہر جانے کا راستہ ہی نہیں مل رہا تھا، تقریباً نصف گھنٹہ اِدھر اُدھر گھومنے کے بعد امیگریشن کاؤنٹر ملا۔ جب کاؤنٹر پر پہنچا تو امیگریشن آفیسر نے پاسپورٹ لینے کے بعد فون پر کسی سے بات کی اور مہر لگا کر مجھے میرا پاسپورٹ واپس کر دیا۔ جب سامان لینے کے لیے پہنچا تو میرا بیگ بیلٹ پر گھوم رہا تھا۔‘
’بیگ اٹھا کر جوں ہی سیدھا کھڑا ہوا تو میرے عقب میں دو سکیورٹی اہلکار کھڑے تھے جنہوں نے مجھے اپنے ساتھ چلنے کے لیے کہا۔ وجہ پوچھی تو انہوں نے بعد میں بتانے کا کہا۔ وہ مجھے ایک جانب لے آئے اور کہا کہ ’آپ کا بیگ چیک کرنا ہے۔ اس میں کوئی ایسی ویسی چیز ہے۔‘ 

محمد اویس کے مطابق انہوں نے سکیورٹی کو خود اپنا بیگ کھول کر دکھایا۔ (فوٹو: اردو نیوز)

’میں خوف زدہ ہو گیا کہ شاید کسی نے میرے بیگ میں کوئی منشیات وغیرہ رکھ دی ہے کیونکہ میں نے اپنے بیگ پر پلاسٹک شیٹ نہیں چڑھائی تھی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ٓآپ کے سامان کی تلاشی لینی ہے۔ میں نے خود بیگ کھول کر دکھا دیا۔ سب سے اوپر چھالیے کا ڈبہ پڑا تھا جسے اٹھا کر میں نے ایک طرف رکھا اور بیگ سے باقی سامان نکالنے لگا۔‘
محمد اویس  کے مطابق ’سکیورٹی اہلکار نے مجھے روکا اور پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ میں نے اس سے کہا کہ یہ سپاری ہے اور ہمارے ملک میں عام استعمال ہوتی ہے اور چھوٹے بڑے سب کھاتے ہیں۔ اس نے پوچھا کہ کیا یہ ایک ہی ڈبہ ہے۔ میں نے کہا نہیں، میرے پاس دو ڈبے ہیں۔‘
انھوں نے ایک بار پھر استفسار کیا کہ ’یہ کس کے لیے لائے ہو؟ میں نے کہا کہ ایک دوست کے لیے لایا ہوں۔ میری باتیں ان کو سمجھ نہیں آ رہی تھیں، تاہم ان کا رویہ سخت نہیں تھا۔ بعد ازاں انھوں نے کہا کہ ہم آپ کے لیے مترجم بلا رہے ہیں۔‘ 
’مترجم کا تعلق انڈیا سے تھا اور اس کا نام عابدہ تھا۔ اس نے مجھ سے مختلف سوالات کیے اور پوچھا کہ ’اپنے دوست کو بلا سکتے ہو؟ میں نے اپنے دوست عزیر کو فون کیا تو ڈیڑھ گھنٹے کے بعد وہ بھی ایئرپورٹ پر پہنچ گیا۔ پولیس نے ہم دونوں کا بیان ریکارڈ کیا۔ اس کے بعد وکیل نے مجھے آگاہ کیا کہ آپ کو یہاں پر ہی رہنا ہوگا اور کل آپ کو عدالت میں پیش کیا جائے گا۔‘
محمد اویس نے بتایا کہ ’اگلے دن جب عدالت میں پیش کیا گیا تو میری مترجم بھی وہیں موجود تھیں۔ اس نے مجھے بیان دینے سے متعلق آگاہ کیا، لیکن جج نے میرا مؤقف سنے بغیر ہی مجھے جیل بھیجنے کا حکم سنا دیا۔ مجھے مالتپے جیل میں بند کیا گیا۔ 16 ستمبر کو چار بجے جیل پہنچا۔ نہ ہی کسی کو میری زبان آتی تھی اور نہ ہی کوئی بات کرتا تھا۔ دو دن بعد مجھے ایک ایسی جیل میں بھیجا گیا جہاں کچھ پاکستانی بھی زیرِحراست تھے۔ ان میں سے ایک نے میری گھر پر بات کروائی۔‘
’میں نے گھر والوں کو خود پر بیتی بپتا سنا دی۔ ڈیڑھ ماہ بعد مجھے گھر کے دو نمبرز پر بات کرنے کی اجازت مل گئی۔ اس جیل کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ زندہ لوگوں کا قبرستان ہے کیوں کہ یہاں آکر احساس اور جذبات مر جاتے ہیں۔ پہلے پندرہ دن تو میں نے کھانا بھی نہیں کھایا۔‘

اویس کا کہنا تھا کہ ’میں تو اتنا ڈر چکا ہوں کہ کبھی پانی بھی ساتھ نہ رکھوں۔‘ (فوٹو: روئٹرز)

ان کا کہنا تھا کہ ’رہائی ملنے کے بعد سب سے پہلے بھائی سے رابطہ کیا، جیل میں بھی بھائی سے بات ہوتی تھی مگر رہائی کے بعد جب بات کی تو بہت خوشی ہوئی۔ پھر ایک دوست سے بات ہوئی جنہوں نے اس سارے معاملے میں بہت ساتھ دیا تھا مگر یہ بہت جذباتی لمحات تھے۔ یہ ایک آزمائش تھی جو مجھ سمیت میرے خاندان کو بھی ہمیشہ یاد رہے گی کیونکہ میری رہائی تک گھر میں سب ہی بہت زیادہ پریشان رہے تھے۔‘
محمد اویس نے کہا کہ ’میں جب وطن واپس لوٹا تو سب ایئرپورٹ پر مجھے لینے آئے ہوئے تھے، جشن کا سماں تھا۔ سب ایک دن پہلے سے سوئے تک نہیں تھے کیوں کہ میرا یہ سیاحتی دورہ چار پانچ روز کا تھا مگر واپسی تقریباً اڑھائی مہینے کے بعد ہوئی تھی جس کی وجہ سے گھر والے بہت زیادہ پریشان ہو گئے تھے۔‘
’میں سب سے یہی کہوں گا کہ جب بھی بیرونِ ملک کا سفر کریں تو کبھی کوئی ایسی چیز اپنے ساتھ لے کر نہ جائیں جس کے متعلق آپ کو علم نہ ہو کہ اس چیز کا اس ملک میں لے جانا قانونی طور پر درست ہے یا نہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’میں تو اتنا ڈر چکا ہوں کہ کبھی پانی بھی ساتھ نہ رکھوں، اور کچھ لے کر بھی جانا ہو تو صرف اپنے لیے لے کر جائیں اور وہ بھی حسبِ ضرورت، کبھی کسی اور کے لیے مت لے کر جائیں یا کبھی کسی کی چیز کی ذمہ داری نہ لیں اور کسی بہن بھائی کے لیے تحفہ بھی لے کر جائیں تو وہ چیز لے کر جائیں جو اس ملک کی پالیسی کے مطابق ہو کیوں کہ بعض ملکوں میں تو اسپغول اور اچار وغیرہ لے جانے پر بھی گرفتار کیا جا سکتا ہے۔‘

شیئر: