کئی ممالک کے طلباء و طالبات نے اسٹیج شو پیش کئے، مہندی کی مقبولیت حیران کن تھی
* * * یسریٰ جواد ۔ جرمنی* * *
دورِ حاضر میں ساری دنیا گلوبل ولیج کی مانند ہوچکی ہے اس لئے تمام عالمی جامعات مختلف ممالک کے طلباوطالبات کو اپنے ملک میں نہ صرف تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے کا بہترین مشورہ دیتے ہیں بلکہ جب یونیورسٹی میں طلباوطالبات داخلہ لے لیتے ہیں تو ان کی رہنمائی بھی کی جاتی ہے ۔ ان کے سالانہ کلچرل شو،فیسٹیول اور ایونٹس منعقد کرائے جاتے ہیں۔ اسکے کئی مقاصد ہوتے ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ ایک ساتھ پڑھنے والے لوگ ایک دوسرے سے متعارف ہو سکیں۔
دوسرا یہ کہ پڑھائی کے ساتھ ہم نصابی سرگرمیوں کے باعث ذہانت میں اضافہ ہوتا ہے۔ انسان مشغول رہتا ہے ۔بہت سی نئی چیزیں بنانے میںبہت کچھ سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ کلچرل شو یا ایونٹ بھی ایسا ہی فیسٹیول ہوتا ہے جس میں مختلف ممالک اپنے اپنے ملک کی ثقافت کو دوسرے لوگوں کے سامنے بہترین طریقے سے پیش کرتے ہیں۔ ثقافت پیش کرنے کا سوال ہو تو سب سے پہلے کھانوں کا ذائقہ ذہن میں گردش کرتاہے فوڈ اسٹالز ضرور لگائے جائیں، پھر یہی سلسلہ دراز ہوتا جاتا ہے لیکن عجیب بات یہ ہے کہ کھانے پیش کرنے میں موسم کا کردار بھی بڑا اہم ہوتا ہے۔ جب سردی کا موسم ہو تو بہت ٹھنڈی چیزیں مزیدار نہیں لگتیں جیسا کہ پلاؤ یا بریانی سردی کے باعث اکثرجمنے لگتی ہیںکیونکہ اس میں گوشت کی چربی کیا چکنائی موجود ہوتی ہے ۔ اس لئے آسان بات یہ لگتی ہے کہ سادہ ،اُبلے ہوئے چاول، دال اور کوئی سبزی نیز چکن یا مٹن کا قورمہ پیش کیا جائے۔ ان کے ساتھ لسی یا شربت بھی پیش کیا جاتا ہے ۔
ایسا ہی فیسٹیول میگڈیبرگ میں ہماری جامعہ میں منعقد کیاگیا جس میں 100 سے زائد ممالک کے طلباوطالبات نے حصہ لیا۔ یوں لوگوں کیلئے ایک بہترین شام کا اہتمام ہوا جو یادگار بن گئی۔ تمام ممالک کے نمائندہ اسٹوڈنٹس نے فیصلہ کیا کہ ہم اپنے شہر کے رہنے والوں کیلئے کوئی انٹرنس ٹکٹ نہیں رکھیں گے تاکہ سب مفت داخلے سے فائدہ اٹھاسکیں اور کھانے بھی انہیں مفت پیش کئے جائیں جبکہ لڑکیوں کو مہندی بھی مفت لگائی جائے۔ جامعہ کے فیسٹیول میں کئی ممالک کے طلباء و طالبات نے اسٹیج شو پیش کئے اور لوگوںمیں بے حدجوش و جذبہ پایا جاتا تھا۔ مختلف ملکوں کے رہائشی خوب تعریفیں کررہے تھے کہ یونیورسٹی میں موجود تمام طلباوطالبات نے نہایت اچھے طریقے سے اپنے اپنے ممالک کی خصوصیات نہ صرف زبانی بیان کیں بلکہ لذت کام و دہن کا بھی بہترین انتظام کیا اور اپنی ثقافتی اہمیت کی اشیاء کا اسٹال سجا کر متعلقاپنی روایتی دستکاریوں کو متعارف کرایا۔ انہوں نے اپنے اپنے ممالک کی سیرو سیاحت کیسے کی جاسکتی ہے،اس حوالے سے بھی معلومات فراہم کیں۔ آج کل دنیابھر کے نوجوانوں میں ’’ٹیٹو‘‘ کا فیشن بہت مقبول ہے ۔اس فیسٹیول میں مہندی کی مقبولیت حیران کن تھی ، شاید اس لئے کہ مہندی بھی ٹیٹو جیسے نقش و نگار ہاتھوں پر ثبت کردیتی ہے۔ مغربی ممالک کے پروردہ ، مہندی کو بھی ٹیٹو کی ہی ایک قسم سمجھ رہے تھے ا ور مہندی لگوانے کے لئے ایک قطار میں کھڑے اپنی باری کا انتظار کررہے تھے۔
ان کا کہناتھا کہ ہم اپنے پسندیدہ ڈیزائن میں مہندی لگواکر جائیںگے۔ اس رنگا رنگ شو کی ایک اہم بات یہ تھی کہ اس میں ہائوس وائیوزنے بھی بڑی تعداد میں شرکت کی۔ وہ اپنے چھوٹے بچوں کو بھی ساتھ لے کر آئی تھیں ۔ ان کے بچوں نے بھی مہندی لگوائی ۔ کئی طالبات ایسی تھیں جو صبح سے شام تک فیسٹول میں موجود رہیں اور اس وقت تک مختلف ڈیزائنوں میں مہندی لگانے میں ہی مصروف رہیں جب تک اس تقریب کا اختتام نہیں ہو گیا۔یہاں مختلف شعبہ جات کی لڑکیوں نے نہ صرف ہاتھوں اور بازوؤں پر مہندی لگوائی بلکہ ٹی وی اور اخبارکی رپورٹنگ کرنے والی لڑکیوں نے بکنگ کرالی کہ جب ہم رپورٹنگ کااپنا کام مکمل کرلیں گی تو ہمیں بھی مہندی لگائی جائے۔
بعد ازاں ان لڑکیوں نے نہ صرف ہتھیلی، بازو بلکہ گردن اوررخساروں پر بھی مہندی لگوائی ۔شاید انہوں نے مہندی کو ٹیٹو کا نعم ا لبدل سمجھ لیا تھا۔ کئی طلالبات نے مہندی لگوائی لیکن انکا اصرار تھا کہ مختلف ممالک کے ڈیزائن کی کتابی صورت میں تصاویر موجود ہیں لیکن اس میں وہ کونسا ڈیزائن ہے جو بہادری اور قوت کا نشان ہو، جس سے اینگری مین کا سائن ملتا ہو جو بازو اور کندھوں پر بنوایا جائے۔ جواب دیاگیا کہ مہندی چونکہ ہمارے یہاں زیادہ تر خواتین ہی لگاتی ہیں۔ شادی بیاہ یا دیگر تقریبات میں لڑکیاں یا خواتین اپنے ہاتھوں، ہتھیلیوں اور بعض اوقات پیروں میںلگاتی ہیں۔ خاص طور پر دلہنوں کے پیروں میں مہندی ضرور لگائی جاتی ہے ۔ مہندی چونکہ خواتین کیلئے مخصوص ہے تو ہمارے اس ثقافتی ورثے میں مہندی کا مردانہ قوت و شجاعت سے کوئی تعلق نہیں۔ انہوں نے خواہش ظاہر کی کہ ان کی کلائی سے اوپر مضبوط قسم کے اوزار کی تصاویر بنا دی جائے یا پھر تیر اور تلوار یعنی بہادری کی علامت ’’ٹیٹو‘‘ کی طرح بنا دی جائے۔