کسی سائبان کا انتظام مشکل نہیںتھا ، آج کا انسان، انسانیت کو فراموش کرتا جا رہا ہے
* * * اُم مزمل ۔ جدہ* * *
وہ ٹرین کا سفر پسند کرتی تھی۔ جہاں جانا ہوتا، راستے میں ملنے والے ہر اسٹیشن پر چند منٹ کیلئے اتر کر کوئی نہ کوئی چیز خریدتی ۔ یہ ممکن نہ ہوتا تو بغیر خریداری کئے دوبارہ سفر شروع کردیتی۔ اسکا بہترین مشغلہ لوگوں سے بات چیت کرنا تھا۔جہاں مقامی لوگوں کو دیکھ کر ان کے لباس کا اندازہ ہوتا تھا، وہیں بات کرنے سے زبان کی بابت نئی نئی باتیں معلوم ہوتیں ۔ آج جس جگہ وہ جارہی تھی، کئی اسٹیشن تویونہی سنسان گزر گئے ۔اب جو اسٹیشن ملا تو خوشی سے وہ فوراً لوگوں سے ملنے جاپہنچی۔ معلوم ہوا کہ روزانہ اتنا رش نہیں ہوتا لیکن آج آدھا گاؤں نہیں تو کئی گھرانے اپنا بوریا بستر لے کر اسٹیشن پر دھرنا دیئے بیٹھے ہیں کہ چاہئے کوئی بھی حکومت ہو لیکن زندگی کی بنیادی ضروریات ضرور مہیا کی جانی چاہئیں۔ کئی دن سے ہمارے گاؤں میں بجلی نہیں آئی اور اب تو پانی بھی دستیاب نہیں۔ یہ تو دراصل ریاست کی ذمہ داری ہے کہ لوگوںکیلئے بنیادی ضروریات کی فراہمی یقینی بنائے۔ وہ اگلے کئی اسٹیشنوں سہ گزرتے ہوئے افسردہ رہی کہ لوگ کتنی پریشانیوں میں گھرے ہوئے ہیں۔ اس سے نکلنے کا کیا راستہ ہوسکتا ہے؟ یہ سوال اسکے ذہن میں گردش کرتا رہا۔
اسی دوران ایک نسبتاً چھوٹا شہر آیا جس جگہ ریل گاڑی 2 گھنٹے کیلئے رکی تھی۔ وہ شہر کی رونق دیکھنے، لوگوں سے بات چیت کرنے کے لئے مختلف سڑکوں اور ذیلی راستوں پر پیدل چلنے لگی۔ ایک جگہ قطار لگائے لوگ کھڑے نظر آئے۔ معلوم ہوا کہ معمولی غلطیوں پر چالان کیاگیا تھااور اب اسکی ادائیگی کیلئے لائن لگائے کھڑے ہیں اور اہلکارحسب روایت سستی و کاہلی سے کام کررہے ہیں ۔ قطار میں موجود افراد موسم کی شدت اورسائے سے محرومی کو بھی اپنی خطاؤں کا چالان سمجھ کرخاموشی سے اپنی باری کے منتظر ہیں۔ وہ اپنی معمولی غلطیوں کی پاداش میں یہ سختی برداشت کررہے ہیں کیونکہ اس کے بغیر چارہ نہیں۔ چند گلیوںسے گزر کر اندرون شہر پہنچی تو کئی ایسے لوگ نظر آئے جو ایک گروہ کی صورت میں گپ شپ کررہے تھے اور چارپائیوں پر بیٹھے اپنی باری کا انتظار کررہے تھے۔ قریب جاکر معلوم ہواکہ کھلی جگہ پر بنے اس تندور پر محلے بھر سے جو آتا اس کے لئے وہ روٹیا ں سینک دیتی۔
سلام کرنے کے بعد وہ پوچھ بیٹھی آپ روزانہ یہ کام کرتی ہیں؟وہ سلام کا جواب دیتے ہوئے بتانے لگی کہ کئی سال سے میرا معمول ہے کہ محلے والوں کیلئے تینوں وقت تندور لگاتی ہوں ،جو آٹا لائے اس میں گھی کے ساتھ روٹی تیار کردیتی ہوں اور جو آٹا نہ لائے اسکے لئے بھی روٹیاں تیار ہوجاتی ہیں۔ کام ختم کرنے کے بعدوہ اسے اپنے مٹی کے بنے گھر میں لے آئی اور اسے شربت پیش کیا ۔ سخت دھوپ سے ایسی ٹھنڈک میں پہنچنے پر وہ نظر دوڑا رہی تھی کہ کس جگہ ایئر کنڈیشنر موجود ہے جو نظر بھی نہیں آرہا اور شربت بھی ٹھنڈا ہے۔ اس نے سوال پوچھا کہ آپ کے محلے میں تو بجلی اور پانی موجود ہے ، وہ مسکراتے ہوئے کہنے لگی کہ ہمارے رب کریم نے ہمیں کسی چیز کی تکلیف نہیں دی۔ دن کی روشنی میں ہم سارے کام کیلئے کھیت کی طرف جاتے ہیں یا پھر گھر کا کام کرتے ہیں۔ رات میں آرام سے سو جاتے ہیں۔
ضرورت اتنی ہی پڑتی ہے کہ لالٹین روشن رہے اور آپ کو معلوم ہے کہ اس میں بجلی کی نہیں، معمولی مقدار میں تیل کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ حیرت سے پوچھنے لگی کہ جب آپ کے پاس بجلی نہیں تو کمرہ اتنا ٹھنڈا اور شربت بالکل برف ، یہ کیسے ہوگیا؟ وہ جواب دیتے ہوئے مسکرائی اور کہنے لگی کہ گھر کو باہر سے آپ نے غور سے نہیں دیکھا۔ ایسی دبیز دیواروں سے بھلا گرمی یا سردی کمرے تک پہنچ سکتی ہے؟ جبکہ کمرے کے اندر ڈوریوں پر پانی سے گیلا کیاگیا کھیس بھی ڈال دیاگیا ہے بس پھر کسی ایئر کنڈیشنر کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔ کبھی کبھار کسی خاص موقع پر کسی گھر سے پنکھا منگوا لیتے ہیں تو اسے محلے میں کسی کے پاس موجود موٹر سائیکل کے ذریعے چلالیتے ہیں۔ پانی تو مٹی کے گھڑے میں اتنا ہی ٹھنڈا ہوتا ہے جیسا آپ کے فریج میں رکھا پانی ٹھنڈا ہوتا ہے۔ پانی کیلئے ہمارے ہر دسویں گھر میں کنواں موجود ہے ۔ ہمارے ہاں روٹی پانی کا انتظام بہت اچھا ہے۔ رب کریم کا کرم ہے۔ وہ واپسی پر دیکھ رہی تھی کہ انسان جب اپنی مدد آپ کرنا شروع کردے اور احترام انسانیت کو اپنا شعار بنالے تو اتنی عقل ضرور آجاتی ہے۔ گاؤں کی عورت نے تندور کی جگہ لوگوں کیلئے چارپائیوں اور سائبان کا انتظام کررکھا تھا تو کیا قطار میں کھڑے لوگوں کیلئے کسی سائبان کا انتظام کرنا مشکل تھا؟ شاید آج کا انسان، انسانیت کو فراموش کرتا جا رہا ہے۔