ریاضی کے لیکچرر سے کامیاب بزنس مین بننے والے لالہ ہرکشن لال
ریاضی کے لیکچرر سے کامیاب بزنس مین بننے والے لالہ ہرکشن لال
پیر 23 اکتوبر 2023 6:17
علی عباس۔ لاہور
لاہور 20 ویں صدی کا ایک جادوئی شہر تھا۔ دریائے راوی کے کنارے بسے اس شہر میں خواب اور ان کی تعبیریں پانے کی جستجو کی جاتی تھی۔
شہر میں انقلاب کے گیت گانے والے لالہ لاجپت رائے بھی چہل قدمی کرتے نظر آ جاتے جو انڈیا کی سرزمین کو انگریزوں سے آزاد دیکھنا چاہتے تھے۔ یہ خواب ان کی زندگی میں پورا نہ ہو سکا مگر انہوں نے اس وطن کے نوجوانوں میں انقلابی جذبہ ابھارنے میں اہم کردار ادا کیا، جن میں تحریک آزادی کے ہیرو بھگت سنگھ بھی شامل ہیں۔ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ انہوں نے انقلاب کی نیہہ ضرور رکھ دی تھی۔
لالہ ہرکشن لال بھی لالہ لاجپت رائے کے قریبی ساتھیوں میں سے ایک تھے جن کے بارے میں ان کے سب سے بڑے صاحب زادے خالف لطیف (کنہیا لال) گابا لکھتے ہیں کہ ’کیا وہ اپنے زمانے کے ناکام ترین انسان تھے یا پھر کامیاب ترین؟‘اس سوال کا جواب غالباً کبھی نہیں مل سکے گا۔
لالہ ہرکشن لال نے برسوں لاہور پر راج کیا۔ وہ اس زمانے میں انڈیا کی کاروباری دنیا کا ایک معتبر حوالہ تھے لیکن زندگی ہمیشہ ان کے لیے اس قدر آسان نہیں رہی تھی۔
انہوں نے بہت تھوڑے وقت میں ترقی کی اس معراج کو چھوا جو خوابوں میں ہی ممکن ہوا کرتی ہے اور لالہ ہرکشن لال خوابوں کو پورا کرنا جانتے تھے۔
آج کے لاہوریوں نے بے شک ان کو فراموش کر دیا ہو مگر شہرِ لاہور کی تاریخ میں ان کا نام ہمیشہ چمکتا رہے گا۔
لالہ ہرکشن لال کی جیون کتھا میں ایسا کیا تھا جس کے باعث وہ اپنے ہم عصروں سے منفرد ٹھہرے؟ آئیے اس سوال کا جواب کھوجتے ہیں۔
ہری ہرکشن لال ضلع لیہ میں سنہ 1864 یا 1866 میں پیدا ہوئے۔ اس وقت لیہ ضلع بھکر کی تحصیل تھی اور ان کے والد ملتان میں ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں کلرک تھے۔
لالہ ہرکشن لال اور ان کے بڑے بھائی دولت رام کی پرورش ان کے چچا لالہ ہرجس رائے نے کی۔
لالہ ہرکشن لال نے چچا کی مدد کے بغیر ہی پڑھائی میں نمایاں کارکردگی دکھائی اور سکالرشپ لی جو ان کے تعلیمی اخراجات پورا کرنے کے لیے کافی تھی۔
ان کے جیون میں اس وقت ایک اور فیصلہ کن موڑ آیا جب وہ مالی مشکلات کو خاطر میں لائے بغیر 1882 میں لاہور کے گورنمنٹ کالج میں داخلہ لینے میں کامیاب ہو گئے جو اس وقت پنجاب کے نمایاں تعلیمی اداروں میں شمار کیا جاتا تھا۔
گورنمنٹ کالج میں شب و روز محنت نے لالہ ہرکشن لال کی قسمت بدل دی (فوٹو: جی سی یو)
گورنمنٹ کالج میں دورانِ تعلیم شب و روز محنت نے لالہ ہرکشن لال کی قسمت بدل دی۔ انہوں نے پورے صوبے میں دوسری پوزیشن حاصل کی اور یونیورسٹی آف کیمبرج میں پڑھنے کے لیے تین سال کی سکالرشپ بھی حاصل کی جہاں معروف ماہرِ معاشیات الفریڈ مارشل ان کے اساتذہ میں شامل تھے۔
پنجاب میں فی الحال سکون تھا اور انگریز راج نے نہ صرف صوبے میں بغاوت کے خطرات کو کچل دیا تھا بلکہ وہ پنجاب میں مقامی شہریوں کی ترقی کے لیے مختلف مواقع بھی پیدا کر رہے تھے تاکہ اس دھرتی کے لوگ ان کے ساتھ وفادار رہیں اور ان مواقع سے سب سے زیادہ کھتری اور اڑورا مستفید ہوئے جو اکثریت میں ہندو تھے۔
ایک برطانوی مبصر نے ان حالات کے بارے میں کچھ یوں تفصیل بیان کی ہے، ’تجارت پر اجارہ داری حاصل کرنے کے بعد یہ (اڑورا اور کتھری) سول سروسز میں بھی سب سے آگے ہیں اور صوبے کی اہم ترین ذمہ داریاں ان کے ہاتھوں میں ہیں۔‘
لالہ ہرکشن لال بھی اڑورا ہی تھے جن کے لیے ترقی کے دروازے کھلنا شروع ہو گئے تھے۔
معروف تاریخ دان ڈاکٹر طاہر کامران اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ ’وہ 1890 میں انڈیا واپس آ گئے اور گورنمنٹ کالج لاہور میں ریاضی اور ساتھ ہی اورینٹل کالج میں فارسی کی تدریس کے فرائض انجام دینے لگے۔ 1896 میں ہری ہرکشن لال نے اپنے دوست دیال سنگھ مجٹھیا کی مدد سے بھارت انشورنس کمپنی کا منصوبہ پیش کیا، یہ کسی بھی انڈین شہری کا اس نوعیت کا اولین منصوبہ تھا۔‘
لیکن لالہ ہرکشن لال اس سے قبل پنجاب نیشنل بینک کے اعزازی سیکریٹری منتخب کیے جا چکے تھے جو سوادیشی تحریک کا ہی ایک تسلسل تھا۔ اور آنے والے برسوں میں لالہ ہرکشن لال کے تمام منصوبے اسی سوادیشی تحریک کا حصہ تھے۔
یہ انڈیا کی تاریخ کا ایسا اولین بینک تھا جو انڈیا کے شہریوں کے سرمائے سے انڈیا کے شہریوں کے لیے قائم کیا جا رہا تھا اور اس کی انتظامیہ میں کوئی ایک انگریز شامل نہ تھا۔
لالہ ہری ہرکشن لال کو اس وقت تک یہ ادراک ہو چکا تھا کہ منزل ان سے زیادہ دور نہیں جس کے باعث وہ جلد ہی میدان میں کود پڑے اور 1901 سے 1906 کے دوران پانچ برسوں میں لالہ ہرکشن لال لاہور کے ایک بڑے اور نمایاں بزنس مین کے طور پر ابھرے۔
ہرکشن لال نے دیال سنگھ کالج کے ٹرسٹی کے طور پر خدمات انجام دیں (فوٹو: انڈیا ٹوڈے)
انہوں نے پنجاب کاٹن پریس کمپنی لمیٹد، پیپلز بینک آف انڈیا لمیٹڈ، امرتسر بینک لمیٹڈ، کانپور فلور ملز لمیٹڈ، دی سینچری فلور ملز لمیٹڈ کے علاوہ صابن مینوفیکچر کرنے والی بہت سی فیکٹریاں، اینٹوں کے بھٹے، برف کے کارخانوں سمیت متعدد کاروبار شروع کیے اور کامیاب بھی رہے۔
ہری ہرکشن لال کبھی ریاضی کے لیکچرر رہے تھے مگر اب وہ لاہور کی نمایاں ترین کاروباری شخصیات میں شامل تھے۔
اور یہ لالہ ہرکشن لال ہی تھے جنہوں نے لاہور الیکٹرک سپلائی کمپنی (لیسکو) بنا کر شہر کے اندھیروں کو اجالوں میں تبدیل کیا۔ ان کا نام اب بھی لیسکو کے بانیوں کی فہرست میں شامل ہے۔
لالہ ہری ہرکشن لال نے راؤلٹ ایکٹ کے باعث کچھ عرصہ جیل یاترا بھی کی۔ برطانوی راج کی جانب سے عام معافی کے باعث لالہ ہرکشن لال بھی جیل سے رہا ہو گئے۔
کچھ ہی عرصہ بعد جب لالہ ہرکشن لال کے تعلقات انگریزوں سے بہتر ہوئے تو انہیں پنجاب کی وزارت سونپ دی گئی۔ وہ اڑھائی برس تک اس عہدے پر فائز رہے۔
اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ وہ ممکنہ طور پر انڈیا کے کسی بھی انٹرپرینیور سے زیادہ کمپنیوں کے سربراہ تھے۔
خالد لطیف گابا اپنے آنجہانی والد کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ’ہری ہرکشن لال نے رہنے کے لیے اگرچہ ایک بڑا محل تعمیر کیا تھا۔ وہ مگر اس محل کی بالائی منزل کے ایک چھوٹے سے کمرے میں ہی رہائش پذیر رہے جو ان کا بیڈروم بھی تھا، ڈریسنگ روم بھی اور جزوی طور پر دفتر کے کام بھی آتا تھا۔ انہوں نے کمرے کو دلآویز تصاویر سے سجانے کے بجائے ایک مصور کو یہ ذمہ داری دی کہ وہ پنجاب بھر کے سب سے زیادہ دلچسپ بھکاریوں کی تصاویر مصور کرے۔ تقریباً 100 تصاویر مصور کی گئیں اور وہ ان کے درمیان رہتے اور انہوں نے اس عرصہ کے دوران اپنی بہترین کارکردگی دکھائی۔ اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ انہوں نے غربت سے اپنے سفر کا آغاز کیا اور وہ یہ حقیقت کبھی فراموش نہیں کرنا چاہتے تھے۔‘
عظیم مصور عبدالرحمان چغتائی اور ان کے بھائی ایم اے رحمان مرقعٔ چغتائی پر کام کر رہے تھے۔ زیادہ پیسے نہ تھا چناں چہ فیصلہ یہ ہوا کہ ان کے محلمہ چابک سواراں والے گھر میں ہی پریس لگا دیا جائے مگر ان کے گھر میں ابھی بجلی نہیں پہنچی تھی۔
فاطمہ جناح میڈیکل یونیورسٹی کی عمارت ہرکشن لال کی رہائش گاہ ہوتی تھی (فوٹو: اردو نیوز)
لالہ ہرکشن لال کو اس حوالے سے ایک درخواست دی گئی جنہوں نے نہ صرف مصور کو بجلی کا کنکشن دینے میں زیادہ تاخیر نہیں کی بلکہ ان کے لیے بجلی کی قیمت بھی کم رکھی گئی۔
لالہ ہرکشن لال صرف ایک کامیاب بزنس مین نہیں تھے بلکہ سردار دیال سنگھ مجٹھیا کی قربت کے باعث دیال سنگھ کالج اور لائبریری کے ٹرسٹی کے طور پر بھی خدمات انجام دیں جب کہ اخبار ٹریبیون سے بھی ان کے نام کو الگ نہیں کیا جا سکتا۔
لالہ ہرکشن لال نے سیاست بھی کی اور کسی نہ کسی طور پر برطانوی راج کے خلاف جدوجہد میں اپنا حصہ بھی ڈالا۔ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ جدید لاہور کی تاریخ ان کے بغیر ادھوری رہے گی۔
لاہور کو روشن کرنے والے لالہ ہری ہرکشن لال 1931 کے معاشی بحران، حکومت کی جانب سے مقدمات قائم کرنے اور بیٹے کے مسلمان ہو جانے کے باعث آریہ سماج کے ارکان کی مخالفت کے باعث سماجی طور پر تنہا رہ گئے تھے۔ اور یوں وہ غیرمعمولی جیون بیتا کر ایک شکست خوردہ انسان کے طور پر موت کی وادی میں اُتر گئے۔
تاریخ لاہور کے ایک خودساختہ ماہر ایک موقر انگریزی اخبار میں لکھتے ہیں کہ لالہ ہرکشن لال کے صاحب زادے خالد لطیف گابا تقسیم کے بعد پاکستان میں ہی رہے اور وہ ان دنوں گلبرگ میں کہیں رہائش پذیر ہیں۔ ان کے اس دعوے میں مگر کوئی صداقت نہیں ہے۔
کوئنز روڈ پر فاطمہ جناح میڈیکل یونیورسٹی کی عمارت کبھی لالہ ہرکشن لال کی رہائش گاہ ہوا کرتی تھی جہاں ان کی وفات کے بعد میڈیکل کالج قائم کیا گیا جو اب بھی ان کی یاد دلاتا ہے۔
بھارت بلڈنگ تو تباہ ہو چکی جو کبھی میو ہسپتال کے عقب میں مائی لاڈو کی مسجد سے شروع ہوکر سرائے رتن چند تک پھیلی ہوئی تھی اور اسی عمارت کے ایک حصے میں پاکستان ٹائمز اور امروز کے دفاتر بھی تھے مگر اس عمارت کا اب کوئی نام و نشان موجود نہیں۔
لاہور میں مگر اب بھی لالہ ہری ہرکشن لال سانس لیتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں کہ اس شہر پر ان کے اَن گنت احسانات ہیں۔