Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’92 میں ایسا ہی ہوا تھا‘، نیوزی لینڈ کے ساتھ میچ کے بعد ہم یہ جملہ دہرا سکیں گے؟

عمران خان نے ’آل راؤنڈ ویو‘ میں لکھا ہے کہ جنوبی افریقہ سے شکست کے بعد لگا جیسے سب کچھ ختم ہو گیا ہے۔ (تصویر: اقبال منیر)
1992 کے ورلڈ کپ اور موجودہ ورلڈ کپ کے مابین کبھی تو سنجیدگی سے اور کبھی ازراہِ تفنن مماثلتیں تلاش کرنے کا عمل جاری ہے۔ جنوبی افریقہ سے شکست کے بعد لوگوں کو ایک دفعہ پھر یہ بات کہنے کا موقع ملا کہ ’1992کے ورلڈ کپ میں بھی ایسے ہی ہوا تھا۔‘
یہ سن کر 1992کے میچ کی طرف ذہن منتقل ہوا جس کی سب سے ان مٹ یاد جونٹی رہوڈز کا انضمام الحق کو رن آؤٹ کرنا ہے۔ اس کا تذکرہ ہوتا رہتا ہے لیکن سچی بات ہے اس واقعے کے بارے میں تصویر جو کچھ بتاتی ہے، لفظ وہ بتانے سے قاصر ہی رہتے ہیں۔ رن آؤٹ بیچ میدان کا قصہ تھا۔ ایک کہانی میدان سے باہر لکھی جا رہی تھی۔ اس کا تعلق بھی تصویر سے ہے۔
پاکستان کی شکست کے بعد عمران خان گرجتے برستے پویلین میں داخل ہوئے اور  اپنا بلا ایک سرے سے اٹھا کر دوسرے سرے پر پھینک دیا۔
اس برہمی کا پس منظر بھی بیان کیے دیتے ہیں۔ بارش پاکستان کے لیے نامہربان ثابت ہوئی۔ انضمام رن آؤٹ ہونے سے پہلے عمدہ بیٹنگ کر رہے تھے۔ ان کے بعد ایک گیند کے وقفے سے عمران خان بھی آؤٹ ہو گئے۔ اس کے بعد کوئی کھلاڑی وکٹ پر ٹک نہ سکا۔ میچ تو پاکستان کے ہاتھ سے نکلا سو نکلا، سیمی فائنل میں پہنچنے کا امکان بھی کم بہت ہی کم رہ گیا۔ ان سب باتوں نے پاکستانی کپتان کو برافروختہ کیا۔
معروف فوٹو گرافر اقبال منیر کو عمران خان کی غصے کے عالم میں تصویر بنانے کا خیال سوجھا لیکن اس سے پہلے کہ وہ پیش قدمی کرتے، وسیم اکرم نے انہیں خبردار کیا کہ اس وقت کپتان کے پاس پھٹکنا مناسب نہیں، اس وقت صرف جاوید میانداد ہی ان کے پاس جا سکتے ہیں۔ پھر یہی ہوتا ہے۔ کچھ ہی دیر میں میانداد عمران خان کا غصہ ٹھنڈا اور سمجھانے بجھانے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کی دل جوئی کرتے ہیں۔
یہ منظر اقبال منیر نے کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کر لیا۔ تصویر اترنے کا یہ قصہ معروف لکھاری سعد شفقت نے اپنے مضمون No third man میں بیان کیا ہے۔ یہ تصویر اقبال منیر کی کتاب ’پاکستان: ورلڈ چیمپئنز‘ کا حصہ ہے۔ سعد شفقت کے قلم سے میانداد کی سوانح ’کٹنگ ایج‘ میں بھی مذکورہ تصویر شامل ہے۔
تصویر کہانی سے آگے بڑھ کر کچھ بات شکست کے بعد ٹیم کی ذہنی کیفیت پر کرتے ہیں۔
اس میچ میں جاوید میانداد اور رمیز راجہ ان فٹ ہونے کی وجہ سے ٹیم کا حصہ نہیں تھے۔ میچ کا مثبت پہلو انضمام الحق کا فارم میں آنا تھا۔ انہوں نے اس میچ میں جو کلاس دکھائی اس کا نہایت عمدہ اظہار نیوزی لینڈ کے خلاف سیمی فائنل میں ہوا۔ فائنل میں بھی وہ  اچھا کھیلے۔ ابتدائی میچوں میں ناکامی کے بعد انہیں ٹیم سے ڈراپ کر دیا جاتا تو یہ کس قدر گھاٹے کا سودا ہوتا اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا، لیکن عمران خان جانتے تھے انضمام میچ ونر کھلاڑی ہیں۔
عمران خان نے ’آل راؤنڈ ویو‘ میں لکھا ہے کہ جنوبی افریقہ سے شکست کے بعد لگا جیسے سب کچھ ختم ہو گیا ہے۔ کھلاڑی خود پر یقین سے محروم ہو چکے تھے۔
ٹیم ڈیڑھ ماہ میں صرف زمبابوے سے میچ جیت پائی تھی یا پھر انگلینڈ کے ساتھ بارش کی وجہ سے بے نتیجہ میچ کا ایک پوائنٹ اس کے پلے تھا۔ پاکستان ٹیم سری لنکا، جنوبی افریقہ اور تسمانیہ سے پریکٹس میچ بھی ہار چکی تھی۔

جنوبی افریقہ سے شکست کے بعد جاوید میانداد عمران خان خان کو تسلی دے رہے ہیں۔ (فوٹو: اقبال منیر)

پے در پے شکستوں کی وجہ سے کھلاڑیوں نے گلے شکوے شروع کر دیے۔ مثلاً سلیم ملک کہنے لگے کہ انہیں ون ڈاؤن پر بیٹنگ کے لیے جانا چاہیے جبکہ عمران خان کا مؤقف تھا کہ وہ دورے کے آغاز پر خود ہی کہہ چکے تھے کہ آسٹریلیا میں گیند زیادہ باؤنس ہوتی ہے لہذا نمبر پانچ پر بیٹنگ کرنا ان کے لیے زیادہ بہتر ہے۔
جنوبی افریقہ کے بعد آسٹریلیا کے ساتھ میچ میں عمران خان نے سلیم ملک کا نمبر تین پر بیٹنگ کرنے کا چاہ پورا کر دیا لیکن موصوف صفر پر آؤٹ ہو گئے۔
رمیز راجہ کندھے کی انجری کے باعث انڈیا کے خلاف میچ نہیں کھیل سکے۔ اب وہ لوگوں سے کہتے پھرتے تھے کہ جنوبی افریقہ کے ساتھ میچ سے پہلے وہ فٹ تھے لیکن ان سے پوچھا ہی نہیں گیا۔ عمران خان نے اپنی کتاب میں اس بات کی تردید کی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ٹیم میٹنگ میں ہر کھلاڑی سے اس کی فٹنس کی بابت پوچھا جاتا اور رمیز راجہ نے بتایا تھا کہ ان کا بایاں کندھا ابھی ٹھیک نہیں ہوا۔ عمران خان کے خیال میں جب ٹیم برا کھیلتی ہے تو اس قسم کی باتیں چلتی ہی ہیں۔ عمران خان کی  بات کی تصدیق موجودہ حالات سے بھی ہوتی ہے۔
2023 میں یہ پہلی دفعہ  ہوا کہ پاکستان ورلڈ کپ میں مسلسل چار میچ ہار گیا۔ اس کے بعد سے دیکھ لیں ٹیم میں اختلافات کی خبریں گردش کر رہی ہیں۔
فخر زمان نے بنگلا دیش کے خلاف فاتحانہ واپسی پر یہ  کہا ’میری انجری زیادہ خطرناک نہیں تھی، انجری میں بھی کھیل سکتا تھا لیکن اچھا کیا تھوڑا آرام کیا۔
ورلڈ کپ میں عمران خان سلیم ملک سے بہت نالاں رہے۔ ان کے کھیل نہیں رویے کی وجہ سے۔ ویسٹ انڈیز کے خلاف ورلڈ کپ کے پہلے میچ میں عمران خان ان فٹ ہونے کی وجہ سے حصہ نہ لے سکے۔ ان کی جگہ جاوید میانداد نے کپتانی کی۔ سلیم ملک نے میچ سے پہلے یہ تنازع کھڑا کر دیا کہ ورلڈ کپ کے لیے وہ نائب کپتان مقرر ہوئے تھے، اس لیے کپتانی ان کا حق ہے۔ وہ یہ بات نہیں سمجھ رہے تھے کہ میانداد ٹیم کے ساتھ آسٹریلیا نہیں گئے تھے جب وہ بعد میں ورلڈ کپ سکواڈ کا حصہ بنے تو عمران خان کی غیر موجودگی میں انہیں ہی کپتان بننا تھا۔ عمران خان بھی یہی چاہتے تھے۔

عمران خان نے اپنی کتاب میں لکھا کہ سلیم ملک کا رویہ ان کے لیے پریشان کن تھا۔ (فائل فوٹو)

میانداد سلیم ملک سے بڑے کھلاڑی تھے۔ ان کا کھیل اور کپتانی میں ان سے تجربہ زیادہ تھا۔ خود عمران خان ان کی کپتانی میں کھیل چکے تھے۔ عمران خان کی عدم دستیابی پر وہ پہلے بھی کئی دفعہ ٹیم کی  قیادت کر چکے تھے۔
عمران خان نے ’آل راؤنڈ ویو‘ میں لکھا کہ سلیم ملک کا رویہ ان کے لیے پریشان کن تھا جنہیں میچ سے زیادہ اپنی کپتانی کی پڑی تھی۔
ان کا کہنا ہے کہ ڈریسنگ روم میں اس معاملے پر انہوں نے مینجر سے جس تند لب و لہجے میں گفتگو کی اگر پاکستان کے پاس مضبوط بیٹنگ لائن اپ ہوتی تو وہ سلیم ملک کو ٹیم سے ڈراپ کر دیتے۔
سلیم ملک کا تذکرہ کچھ زیادہ ہی لمبا کھنچ گیا تو اب دوبارہ ہم وہیں چلتے ہیں جہاں سے ہم نے بات شروع کی تھی: ’1992کے ورلڈ کپ میں بھی ایسے ہی ہوا تھا
اب یہ دیکھنا ہے کہ کیا نیوزی لینڈ کے ساتھ میچ کے بعد ہم یہ جملہ دہرا سکیں گے؟ کیونکہ 92 کے ورلڈ کپ میں ایک نہیں دو دفعہ پاکستان نے نیوزی لینڈ کو ہرایا تھا۔ اور وہ بھی اس کی سرزمین پر۔ راؤنڈ روبن میچوں کے مرحلے میں نیوزی لینڈ مسلسل سات میچ جیت کر سیمی فائنل میں پہنچ چکا تھا۔
اس کا آخری میچ پاکستان سے ہوا جس میں اسے شکست ہوئی۔ سیمی فائنل میں قومی ٹیم نے اسے دوبارہ ہرایا۔

شیئر: