راوی کنارے دریاں بچھائی گئی تھیں جہاں رات کو پنجابی موسیقی اور رقص کی محفل جمائی گئی۔ (فوٹو: اردو نیوز)
پنجاب کو پانچ دریاؤں کی سرزمین کہا جاتا ہے لیکن یہ پانچ دریا بٹوارے کے بعد تقسیم ہو گئے۔ آج دریائے راوی، دریائے جہلم اور دریائے چناب کے پانیوں پر اگر پاکستان کا حق ہے تو دریائے ستلج اور دریائے بیاس انڈیا کے پاس ہیں۔
اِن پانچوں دریاؤں میں دریائے راوی کو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی ہے لیکن اس دریا میں موجود گندگی اور غلاظت نے اسے دریا کم اور گندا نالہ زیادہ بنا دیا ہے۔ دریائے راوی کی اس حالت زار کو انڈیا کے ڈاکٹر ترنجیت سنگھ بٹھالیہ اور لاہور کے باسی ابوذر مادھو گذشتہ کئی برسوں سے محسوس کر رہے ہیں۔
ڈاکٹر ترنجیت سنگھ بٹھالیہ امریکہ میں رہتے ہیں لیکن ان کی پنجاب کے دریاؤں کے پانیوں سے محبت ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ اسی طرح ابوذر مادھو بھی یہ سمجھتے ہیں کہ پانی نے انسان کو زندگی دی ہے اس لیے پانی کو محفوظ رکھنا انسان کی بنیادی ذمہ داری ہے۔
ابوذر پانیوں کے ساتھ رہنے کو ترجیح دیتے ہیں اور ہمہ وقت دریا کے قریب ہی موجود ہوتے ہیں۔ انہوں نے ڈاکٹر ترنجیت سنگھ بٹھالیہ کے ساتھ مل کر ایک منفرد خیال کو عملی جامہ پہنایا جو آنے والے وقتوں میں حقیقت کا روپ بھی دھار سکتا ہے۔
ابوذر نے ڈاکٹر ترنجیت سے رابطہ کیا اور اُنہیں دریائے راوی کی حالت زار سے آگاہ کرتے ہوئے درخواست کی کہ دریا کی بحالی اور تحفظ کے لیے ٹھوس اقدامات ہونے چاہییں۔ بحث مباحثے کے بعد یہ طے پایا کہ پنجاب کے پانچوں دریاؤں کا علامتی ملن کروایا جائے۔
ابوذر مادھو نے اس حوالے سے اُردو نیوز کو بتایا کہ ’وہ نہ صرف دریائے راوی میں موجود غلاظت کے خلاف تحریک چلا رہے ہیں بلکہ پانچوں دریاؤں کی تقسیم کو بھی مناسب نہیں سمجھتے۔ یہ تمام دریا زندگی کی علامت ہیں جن کی تقسیم سے نقصان زیادہ اور فائدہ کم ہوا ہے۔ دریاؤں کا بٹوارہ کوئی کیسے کر سکتا ہے؟‘
انہوں نے دریائے راوی سے متعلق بتایا کہ ’لاہور اور راوی کا ایک رشتہ تھا جو ٹوٹ گیا ہے۔ لاہور اپنے راوی کو بھول گیا ہے۔ یہ دریا ہر گزرتے دن کے ساتھ زہریلا ہوتا جا رہا ہے۔‘
ڈاکٹر ترنجیت سنگھ بٹھالیہ ان پانچوں دریاؤں کو پنجابیوں کی شناخت خیال کرتے ہیں۔ انہوں نے پانچ انگلیاں ہوا میں لہراتے ہوئے بتایا ’یہ پانچ دریا ہماری شناخت ہیں۔ پنج آب مطلب پانچ دریاؤں کا پانی اور اس کی سرزمین۔‘
وہ ان دریاؤں کی موجودہ صورت حال کے بارے میں بتاتے ہوئے دُکھی ہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں ’یہ تو ہمارا دل ہے لیکن دُکھ کی بات یہ ہے کہ ہم نے اپنی ندیوں میں خود زہر گھول دیا ہے۔‘
وہ دریائے راوی کے کنارے لگی ایک کشتی میں سوار تھے۔ انہوں نے دریائے راوی میں ہاتھ ڈالتے ہوئے اشارہ کیا ’دیکھیں، یہ سیوریج ملا پانی دیکھیے۔ ہم اس گندگی کے ذمہ دار ہیں کیوںکہ ہم اپنی زمین اور پانی سے رشتہ بھول گئے ہیں۔‘
ڈاکٹر ترنجیت پاکستان آتے رہتے ہیں اور یہاں آ کر لاہور میں دریائے راوی کے کنارے بیٹھ کر سکون کے کچھ لمحات گزارتے ہیں۔
انہوں نے ایک لاہوری کی مثال دیتے ہوئے بتایا ’مجھے آج یہاں لاہور کے ایک رہائشی ملے جو یہیں پیدا ہوئے اور یہیں پر پلے بڑھے لیکن وہ آج پہلی بار راوی آئے ہیں۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ آپ لاہوری ہو کر راوی نہیں آتے؟ یہ حیران کن ہے۔‘
ڈاکٹر ترنجیت نے اِس پر تاسف کا اظہار کرتے ہوئے اسے دریائے راوی میں گندگی اور غلاظت کی وجہ قرار دیا۔
’ہم سمجھتے ہیں راوی لاہور کا نہیں ہے اور اس کے قریب نہیں آتے، اس لیے تو خود اس کو گندا کر رہے ہیں۔ ہم جب اس کے قریب آئیں گے اس سے محبت کریں گے تو یہ بھی ہم سے محبت کا رشتہ قائم کرے گا۔‘
ڈاکٹر ترنجیت سنگھ بٹھالیہ نے پانچ دریاؤں کے پانیوں کے ملن سے متعلق بتایا کہ ’یہ پانچ دریاؤں کے پانیوں کا علامتی ملن ہے۔ یہ وچڑے پنج پانیاں دا میل ہے (یہ الگ ہو چکے پانچ دریائوں کا ملن ہے)۔ جسے ہم جدا ہوئے پانچ پانیوں کا ملاپ کہہ سکتے ہیں۔ میں انڈیا میں موجود پنجاب کے دو دریاؤں سے پانی لایا ہوں، جس میں دریائے ستلج اور دریائے بیاس کا پانی شامل ہے۔‘
ابوذر مادھو کا کہنا تھا کہ ’یہ جیوے سانجھا پنجاب اور راوی بچاؤ تحریک کی متفقہ کاوش ہے۔ میں پاکستانی پنجاب کے تین دریاؤں سے پانی لے کر آیا ہوں جس میں دریائے راوی، دریائے چناب اور دریائے جہلم کا پانی شامل ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ ایک علامتی ملن ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے دریا آزاد ہوں اور یہ پانچ دریا ایک ہو جائیں۔ ماضی میں ہم نے سندھ طاس معاہدے کے تحت اپنے تین دریاؤں کا پانی بیچ دیا جس کی وجہ سے ہماری طرف پانی نہیں آتا۔ دوسری طرف سے ہمارے حریف اپنی مرضی کے مطابق پانی چھوڑتے ہیں جس کی وجہ سے راوی مسلسل سوکھ رہا ہے اور اس میں موجود پانی گٹروں سے آتا ہے۔‘
اس منفرد سرگرمی کے تحت پانچ دریاؤں کے پانیوں کو پانچ مختلف سائزز کے مٹکوں میں جمع کیا گیا تھا۔ مٹی سے بنے ان مٹکوں کو دریاؤں کی جسامت کے اعتبار سے چھوٹا بڑا رکھا گیا تھا۔
ان مٹکوں کے منہ پر سرخ کپڑے باندھے گئے تھے جن پر ان کا نام درج تھا۔ انہیں پہلے مادھو لال حسین کے دربار میں پیش کیا گیا۔ ان پانچ مٹکوں کو پانچ مختلف لوگوں نے ہاتھوں میں تھام کر جی ٹی روڈ تک پیدل سفر کیا۔ ان کے ساتھ مقامی لوگ بھی تھے جو مسلسل ’راوی بچاؤ، راوی وچ گند نہیں پانی پاؤ‘ کے نعرے لگا رہے تھے۔
یہ لوگ ایک جلوس کی شکل میں جہاں جہاں سے گزرتے وہاں لوگوں کو اپنے مقصد سے آگاہ کرتے۔ یہ پانی ایک بس میں راوی کی طرف روانہ کیا گیا اور راوی پُل پر پہنچ کر پانیوں کے مٹکے سر پر رکھ کر مختصر احتجاج کیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی ڈھول بجایا جا رہا تھا اور جلوس میں شامل لوگ ڈھول کی تھاپ پر رقص کر رہے تھے۔
یہ پانچوں مٹکے دریائے راوی کے کنارے رکھے گئے اور پھر سب کو اکٹھا کیا گیا۔ ابوذر مادھو نے راوی کے کنارے رہنے والے ملاحوں اور ان کے خاندانوں کو بلایا۔ انہیں راوی سے متعلق آگاہی فراہم کی اور راوی کو محفوظ رکھنے کی تاکید کی۔
راوی کنارے دریاں بچھائی گئی تھیں جہاں رات کو پنجابی موسیقی اور رقص کی محفل جمائی گئی۔ اس سے قبل ابوذر مادھو اور ڈاکٹر ترنجیت سنگھ بٹھالیہ راوی کے کنارے بیٹھ گئے اور پانچوں مٹکوں سے پانی نکال کر ایک مٹکے میں ملا دیا۔ یہ سرگرمی انجام دیتے ہوئے دونوں بار بار نعرے لگا رہے تھے ’پنج ندیاں دا میل ہویا‘ پانچ دریاؤں کے پانیوں کو ملانے کے بعد ابوذر مادھو اور ڈاکٹر ترنجیت بٹھالیہ جہانگیر ملاح کی کشتی میں سوار ہو گئے۔ کچھ فاصلے پر جانے کے بعد انہوں نے مٹکے سر پر اٹھائے اور پانچ دریاؤں کے پانیوں کو راوی میں بہا دیا۔ ساتھ ہی ابوذر مادھو ’راوی بچاؤ‘ کے نعرے بھی لگا رہے تھے۔
ابوذر مادھو کا مزید کہنا تھا کہ ’پانچ دریاؤں کے پانیوں کے اس ملن میں ہمارے شکوے بھی ہیں اور ہماری تکلیف بھی ہے۔ اس میں ہماری وہ تکلیف ہے جو ہم برسوں سے برداشت کرتے آ رہے ہیں۔ دریائے ستلج کا پانی تو کسی حد تک ہمیں مل جاتا ہے لیکن بیاس کا پانی نہیں ملتا اس لیے یہ خوشی کی علامت بھی ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’یہ ایک آس ہے کہ یہ دریا آزاد ہو جائیں اور وہ اس ملن کو حقیقت میں دیکھ سکیں۔‘
اس کے بعد پانچ دریاؤں کے پانیوں کو چھوٹے چھوٹے مٹکوں میں ڈالا گیا اور مقامی لوگوں کو بھی اس سرگرمی میں حصہ لینے کی دعوت دی گئی۔
ڈاکٹر ترنجیت سنگھ نے جذباتی انداز میں بتایا کہ ’پہلے دریائے راوی قلعے کے ساتھ ساتھ بہتا تھا تب لوگوں کو اس میں اپنائیت محسوس ہوتی تھی لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ لوگوں کا اس عظیم دریا سے رشتہ ٹوٹ چکا ہے جسے ہم جوڑنے آئے ہیں۔ آج صرف پانچ دریاؤں کے پانیوں کا ملن ہی نہیں بلکہ تہذیبوں کا علامتی ملن بھی ہوا ہے۔‘