Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا بی جے پی کرکٹ ورلڈ کپ کا سیاسی فائدہ اٹھانا چاہتی ہے؟

انڈیا پر کرکٹ پچ آخری وقت پر تبدیل کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
انڈیا میں جاری کرکٹ ورلڈ کپ اپنے اختتام پر ہے اور صرف فائنل ہونا باقی ہے لیکن جس انداز سے انڈین ٹیم کھیل رہی ہے اور جس طرح اسے تماشائیوں کی حمایت حاصل ہے، اس سے اس کا فاتح ہونا یقینی نظر آتا ہے۔
لیکن ورلڈ کپ اپنی ابتدا سے ہی تنازعات کا شکار رہا ہے اور اس کی وجہ کبھی میچوں کی تاریخ رہی تو کبھی مختلف ٹیموں کو دیے جانے والے گراؤنڈز۔ لیکن حال ہی میں جس طرح سے پِچز کو آخری وقت پر بدل دیے جانے کے الزامات سامنے آئے ہیںم اس سے اس حوالے سے شکوک و شبہات میں مزید اضافہ ہوا ہے۔
برطانوی اخبار ڈیلی میل میں شائع ہونے والے ایک مضمون کے بعد انگلینڈ کے سابق کپتان مائیکل وان اور انڈیا کے سابق کپتان اور کمنٹیٹر سنیل گواسکر نے گذشتہ روز ہونے والے پہلے سیمی فائنل میں پِچ کے بدلے جانے پر اپنی اپنی آرا کا اظہار کیا ہے۔ سنیل گواسکر پچز تبدیل کیے جانے کے الزامات پر چراغ پا نظر آئے۔
ڈیلی میل کے مطابق نیوزی لینڈ اور انڈیا کا میچ تازہ پچ نمبر سات پر ہونا تھا جس پر ابھی تک کوئی میچ نہیں ہوا جبکہ اس سے قبل پچ نمبر چھ پر دو میچز ہو چکے تھے لیکن میچ سے ایک روز قبل آئی سی سی اور بی سی سی آئی کے تقریباً 50 حکام کو واٹس ایپ مسجز بھیجے گئے جن میں سات کے بجائے چھ نمبر والی پچ پر ہی میچ ہونا قرار پایا۔
یہ محض ایک مثال ہے لیکن جس طرح سے پاکستان اور انڈیا کا میچ احمد آباد کے سب سے بڑے سٹیڈیم میں منعقد ہوا اور وہاں جو نعرے سنے گئے وہ اس سے قبل انڈیا میں نہیں سنے جاتے تھے۔ اس میچ کو دیکھنے کے لیے بھارت کے وزیر داخلہ امت شاہ سمیت بی جے پی کے دوسرے بڑے رہنما بھی تماشائیوں میں موجود تھے۔
اسی طرح دھرم شالہ میں ہونے والے میچ میں بی جے پی کے صدر مسٹر نڈا کی موجودگی کے ساتھ ساتھ دوسرے اہم بی جے پی رکن پارلیمان کی موجودگی اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ بی جے پی انڈیا میں منعقد ہونے والے اس بڑے ایونٹ کو کس طرح دیکھتی ہے۔
معروف صحافی سلیل ترپاٹھی نے چیٹم ہاؤس میں شائع ہونے والے اپنے ایک مضمون میں لکھا ’ہندوستان کے لوگوں کے لیے اپنی ہوم ٹرف پر ورلڈ کپ جیتنے سے زیادہ خوشی کی کوئی اور بات نہ ہو گی جیسا کہ 2011 میں مودی کی قیادت میں ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے اقتدار میں آنے سے تین سال قبل جیتا تھا۔‘

تجزیہ کاروں کے مطابق انڈیا ورلڈ کپ جیت گیا تو انتخابات جلد منعقد ہو سکتے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے مزید لکھا ’ورلڈ کپ کی میزبانی بھارت کے لیے اتنا ہی ایک سیاسی عمل ہے جتنا کہ کھیلوں کا جشن۔ یہ کھیل ہندوستان میں غیرمعمولی طور پر مقبول ہے اور کئی نسلوں سے سیاست دان یہ ادراک رکھتے ہیں کہ یہ میچز ایک طرح سے ان کا ووٹ بینک ہے۔‘
’بورڈ آف کنٹرول فار کرکٹ ان انڈیا (بی سی سی آئی) نے اس مقبولیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے دنیا کا دولت مند ترین کرکٹ کا ادارہ بنا دیا ہے۔ 2021-22 میں اس کی مجموعی آمدن 771 ملین ڈالر تھی۔‘
’بی سی سی آئی نے گذشتہ برس انڈین پریمیئر لیگ (آئی پی ایل) کے پانچ سال کے نشریاتی حقوق چھ اعشاریہ دو بلین ڈالر میں فروخت کرنے کا معاہدہ کیا تھا اور اگست میں بھارت کے دو طرفہ بین الاقوامی کھیلوں کو نشر کرنے کے لیے ایک نئے چار سالہ معاہدے کا اعلان کیا گیا تھا، جس کی مالیت 721 ملین ڈالر تھی۔‘
اس سے قبل الجزیرہ نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا کہ ’سٹیڈیمز کے ناموں سے لے کر مقامات کے انتخاب تک اور پاکستان اور مسلمانوں کو زیادہ وسیع پیمانے پر بدنام کرنے تک کچھ مبصرین کا کہنا ہے کہ مودی کی ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اس ٹورنامنٹ کو تیسری مدت کے لیے اقتدار میں آنے کے لیے کسی لانچ پیڈ کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔‘
بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ انڈیا اگر ورلڈ کپ جیت جاتا ہے تو عین ممکن ہے کہ انڈیا میں انتخابات معینہ مدت سے پہلے منعقد ہوں تاکہ اسے جیت کے جوش کا فائدہ پہنچ سکے۔
رکن پارلیمان اور کانگرس رہنما ششی تھرور نے بھی اس جانب اشارہ کیا ہے اور لکھا ہے کہ ’ٹورنامنٹ کا آغاز 5 اکتوبر کو ہوا، جس میں انگلینڈ میں ہونے والے 2019 کے ورلڈ کپ کے دو فائنلسٹ آمنے سامنے تھے۔ اس کے بعد ہارنے والے نیوزی لینڈ نے بدلہ لیتے ہوئے احمد آباد کے بڑی گنجائش والے نریندر مودی سٹیڈیم میں انگلینڈ کو شکست دی۔ سٹیڈیم کے نام (نریندر مودی سٹیڈیم) اور ہندوستانی وزیراعظم کے غلبے کی بدولت اسے ہندوستان کے نئے کرکٹ دارالحکومت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ یہ کہا جا رہا ہے کہ 19 نومبر کو وہاں ہونے والے فائنل میں مودی خود بھی شرکت کریں گے۔‘

انڈیا نیوزی لینڈ کو ہرا کر ورلڈ کپ کے فائنل میں پہنچ گیا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

انھوں نے مزید لکھا ’جہاں نریندر مودی اگلے سال ہونے والے عام انتخابات میں تیسری مدت کے لیے امیدوار بننے کی تیاری کر رہے ہیں وہیں ہندوستان کے سب سے مقبول ایونٹ کے فائنل میں خود کو اور اپنی پارٹی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو مرکز میں لانے کا ان کا منصوبہ ایک سوچی سمجھی سیاسی چال ہے۔ ورلڈ کپ فائنل میں ہندوستان کی فتح حالیہ بین الاقوامی کامیابیوں کے سلسلے کا ایک بڑا اختتام ہو گی کیونکہ اس سے قبل اگست میں چاند کے قطب جنوبی پر چندر یان تھری کی کامیابی کے ساتھ لینڈنگ ہوئی ہے جبکہ ستمبر میں حکومت نے کامیابی کے ساتھ جی-20 کے سربراہی اجلاس کا انعقاد کیا ہے۔ اس سے مودی کے کامیابی کے بیانیے کو تقویت ملے گی۔‘
مسٹر تھرور نے انڈیا اور پاکستان کے درمیان ہونے والے ورلڈ کپ کے میچ سے قبل ایک جگہ لکھا ’بی جے پی کی جارحانہ ہندو قوم پرستی کے تناظر میں پاکستان کی جیت کا نتیجہ ہندوستانی مسلمانوں کے لیے تباہ کن ہو سکتا ہے۔ کیونکہ 2021 میں پاکستان نے بھارت کو جب ایک ٹی-20 مقابلے میں شکست دی تھی تو کشمیری طلبا پر ہندو غنڈوں نے حملہ کیا تھا اور ہندوستان کے مسلم کرکٹر محمد شامی کو ہندو قوم پرستوں نے سوشل میڈیا پر بے رحمی سے ٹرول کیا تھا جبکہ حکومت خاموش تماشائی بنی رہی تھی۔‘
’ایک وقت وہ بھی تھا جب کرکٹ کو ہندوستان اور پاکستان میں دوستی کے فروغ کے لیے استعمال کیا جاتا تھا اور سنہ 1987 کے ورلڈ کپ میں پاکستان کے صدر ضیاالحق کو مدعو کیا گیا تھا جبکہ سنہ 2011 کے ورلڈ کپ کے لیے پاکستان کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو مدعو کیا گیا تھا لیکن بی جے پی کی آمد کے بعد سے ہندوستان کی سیاست نہ صرف بین الاقوامی رشتوں کے تناظر میں بدلی ہے بلکہ ملک کے اندر ہندو بنام مسلمان ایک بیانیہ قائم کیا گیا ہے جس کا اظہار بی جے پی ارکان کی اکثریت کی حامل پارلیمان کی جانب سے بارہا ہوتا رہتا ہے کہ انھیں مسلمانوں کے ووٹ کی کوئی ضرورت نہیں اور اس کا منہ بولتا ثبوت یہ ہے کہ بی جے پی کی جانب سے ایوان زیریں میں اب کوئی بھی مسلمان رکن پارلیمان نہیں ہے۔‘

شیئر: