روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے اسرائیل فلسطین تنازع کے سیاسی حل پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ علاقائی ریاستیں اور برکس گروپ کے ممالک تصفیے تک پہنچنے کی کوششوں میں شامل ہو سکتے ہیں۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق منگل کو ایک ورچوئل برکس سربراہی اجلاس میں پوتن نے ایک بار پھر مشرق وسطیٰ کے بحران کو خطے میں امریکی سفارت کاری کی ناکامی کو ذمہ دار ٹھہرایا۔
انہوں نے کہا کہ ’ہم بین الاقوامی برادری کی مشترکہ کوششوں کا مطالبہ کرتے ہیں جس کا مقصد کشیدگی کو کم کرنا، جنگ بندی اور فلسطینی اسرائیل تنازع کا سیاسی حل تلاش کرنا ہے۔ اور برکس ممالک اور خطے کے ممالک اس کام میں کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔‘
مزید پڑھیں
-
اسرائیل کے ساتھ جنگ بندی کا معاہدہ ہونے کے قریب: حماسNode ID: 813471
-
غزہ میں ہلاکتیں 11 ہزار سے تجاوز کرگئیں : عالمی ادارہ صحتNode ID: 813511
-
لبنان میں اسرائیل کی بمباری سے دو صحافیوں سمیت چار افراد ہلاکNode ID: 813571
تاہم انہوں نے اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ ایسی کوشش کو کس طرح منظم کیا جا سکتا ہے۔
روسی اور مغربی پالیسی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ پوتن غزہ کے بحران کو اپنے جغرافیائی سیاسی فائدے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ ترقی پذیر ممالک کو ساتھ ملایا جا سکے اور امریکی تسلط کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک نیا عالمی نظام تشکیل دیا جائے۔
پہلے دیے گئے بیانات میں انہوں نے بارہا امریکی پالیسی پر تنقید کی، اسرائیل سے تحمل کا مظاہرہ کرنے پر زور دیا اور فلسطینیوں کی حالت زار پر ہمدردی کا اظہار کیا۔
گذشتہ ماہ انہوں نے کہا تھا کہ غزہ میں زمینی کارروائی سے شہری ہلاکتوں میں اضافہ ہوگا جو ‘بالکل ناقابل قبول‘ ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ یہ ’خوفناک‘ ہے کہ فلسطینی بچے بڑی تعداد میں مر رہے ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ بچوں کے بے ہوشی کی دوا کے بغیر کیے جانے والے آپریشن ’جذباتی‘ کر دیتے ہیں۔
ولادیمیر پوتن کا کہنا تھا کہ ’اقوام متحدہ کے فیصلوں کو سبوتاژ کرنے کی وجہ سے فلسطینیوں کی ایک سے زائد نسلوں کی اپنے لوگوں کے ساتھ ناانصافی کے ماحول میں پرورش ہوئی ہے، اور اسرائیلی اپنی ریاست کی سلامتی کی مکمل ضمانت نہیں دے سکتے۔‘