حالات کو پٹری پر لانے کا اس سے اچھا طریقہ کوئی اور نہیں ہو سکتا کہ پاکستان اور ہند کے درمیان مذاکرات کا سنجیدہ سلسلہ شروع کیا جائے
ارشاد محمود
پاکستان اور ہند کے تعلقات جس تیزی سے خراب سے خراب ترہوتے جارہے ہیں اسکی مثال حالیہ تاریخ میں نہیں ملتی۔پاک فضائیہ کے سربراہ کہتے ہیں : اگر ہند نے حملہ کیا تو اس کی نسلیں سبق یاد رکھیں گی۔ چیف آف دی آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے 5 ماہ قبل پاکستان آرمی کی باگ ڈور سنبھالنے کے بعد کنٹرول لائن کا پانچواں دورہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کشمیریوں کی تحریک آزادی کی بھرپور حمایت جاری رکھے گا۔
پاکستان میں انتخابات کا موسم شروع ہوچکا ہے ۔ سیاسی جماعتیں ان دنوں ملک بھر میں انتخابی مہم کے طور پر سیاسی جلسوں کا اہتمام کر رہی ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے برعکس باقی جماعتوں نے مسئلہ کشمیر اور کشمیر میں ہونےوالی انسانی حقوق کی پامالیوں کو اپنے الیکشن ایجنڈاکا اہم حصہ بنا رکھا ہے ۔ گزشتہ عام انتخابات میں مسئلہ کشمیر یا ہندتعلقات کو زیر بحث نہیں لایا گیا تھالیکن اب صورتحال بدل چکی ہے۔
پاکستان کی قومی سیاست میں ایک بار پھر سے کشمیر اور ہندکے ساتھ تعلقات ابھر کر سامنے آرہے ہیں ۔اس کا ایک اہم سبب گزشتہ برس کشمیر میں اٹھنے والی زبردست شورش اور ہندوستانی فورسز کی جانب سے پیلٹ گن اور طاقت کا بے انتہاءاستعمال ہے ۔ اس تناظر میں ایسا محسوس ہو تاہے کہ پاکستان میں آنے والے انتخابات کے دوران کشمیر ایک بڑا ایشو بن سکتا ہے ۔
سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کی وساطت سے کشمیر سے آنے والی تصویریں، ویڈیوز اور خبریں ہندوستانی فورسز کی پر تشدد کارروائیوں کا پردہ چاک کرتی ہیں۔ پاکستان کی موجودہ کشمیر پالیسی کی تشکیل میں ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے گزشتہ برس یوم آزادی کے موقع پر دلی کے لال قلعے سے کی گئی۔ اس تقریر کے اہم حصہ کا ہاتھ بھی ہے جس میں موصوف نے بلوچستان اور گلگت بلتستان کے ساتھ ساتھ دیگر علاقوں میں سرگرم پاکستان مخالف عناصر کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔
علاوہ ازیں ہند نے چین پاکستان مشترکہ اقتصادی کوریڈور (سی پی ای سی) کی مخالفت کرنے یا اس کو سبوتاژ کرنے کی کوئی بھی کوشش ہاتھ سے نہیں جانے دی۔ہند کے مبینہ ایجنٹ کلبھوشن یادو کی پاکستان میں گرفتاری نے پاک ہند تعلقات میں ایک زبردست دراڑ پیدا کی۔ ساتھ ہی جماعت الاحرار کے ترجمان احسان اللہ احسان کے ویڈیو بیان سے یہ بات کھل کر سامنے آئی کہ ہند کی موجودہ حکومت افغانستان میں سرگرم بعض تنظیموں کی مدد سے پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کر تی ہے۔
تمام تر کوششوں کے باجودہند پاکستان کو عالمی سطح پرالگ تھلگ کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکا ۔ اسلام آباد نے اپنی خارجہ پالیسی کو پہلے سے زیادہ بہتر طریقے سے ترتیب دیا ۔چین پاکستان کی ترقی میں ہم رکاب ہے جبکہ روس بھی دوستانہ تعلقات کو فروغ دے رہاہے۔ سابق فوجی سربراہ جنرل راحیل شریف اِس وقت 39اسلامی ممالک پر مشتمل اسلامی فوجی اتحاد کی سربراہی کر رہے ہیں۔
اسی طرح سے امریکہ اور پاکستان تعلقات بھی بہتر ہو رہے ہیں کیونکہ ایک ایسے وقت میں جب چین اور روس پاکستان کے قریب آرہے ہیں، امریکہ کسی بھی قیمت پر پاکستان سے دوری اختیار کرنے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
سی پیک سے منسلک ترقیاتی منصوبوں نے پاکستان کے اعتماد کو مہمیز دی ۔ سی پیک یورپ اور کئی دیگر ممالک کےلئے بھی باعث کشش بنتا جا رہا ہے ۔ برطانیہ کے ساتھ ساتھ کئی دیگر ممالک نے بھی اس میں شمولیت اختیار کرنے کی خواہش ظاہر کی ہے ۔ اطلاعات کے مطابق برطانیہ رواں مہینے کے آخری ہفتے میں اسلام آباد میں سی پیک کے حوالے سے ایک بڑی کانفرنس کا اہتمام کر رہا ہے تاکہ وہ اس پروجیکٹ میں اپنے لئے اقتصادی دلچسپی کے مواقع تلاش کرسکے ۔ اس سلسلے میںبرطانیہ کے وزیر مملکت برائے بین الاقوامی تجارتی امور، گرگ ہینڈس کی قیادت میں برطانیہ کا ایک اعلیٰ سطح کا وفد پہلے ہی پاکستان کا دورہ کرکے یہاں کے اعلیٰ افسران اور کاروباری طبقے کے نمائندوں کے ساتھ ملاقات کرچکا ہے۔
پاکستان اب افغانستان کے ذریعے وسطی ایشیائی ریاستوں تک پہنچنے کے راستے کھولنے کی بھیک مانگنے کےلئے بھی تیار نہیں کیونکہ اس کے پاس اس کا متبادل راستہ موجود ہے جو گوادر، اُرمچی، الماتا اور آستانہ سے ہوتا ہوا ماسکو تک جاتا ہے۔ اس طرح پاکستان کے وسط ایشیا کی منڈیوں تک پہنچنے کا راستہ مزید آسان اور مختصر ہو جاتا ہے۔
ہند کی جانب سے کئی دہائیوں پرانے اور اہم کشمیر مسئلہ کے تئیں اپنایا گیا سیاسی تعطل پاکستان کی نئی خارجہ پالیسی میں تبدیلی کی ایک اور وجہ ہے کیونکہ ہند اس حوالے سے پاکستان کےساتھ بات کرنے یا اس مسئلے کا کوئی قابلِ قبول حل نکالنے کےلئے آمادہ نہیں ہو رہا ۔ آج کی تاریخ میں کشمیر کے حوالے سے ہر سطح پر تعطل پایا جاتا ہے، یہاں تک کہ ٹریک ٹو ڈپلومیسی اور ڈائیلاگ کی گاڑی بھی پٹر ی سے اتر چکی ہے۔
ہند کے زیر انتظام جموں و کشمیر کی بات کی جائے تو وہاں بی جے پی اور پی ڈی پی کی مخلوط حکومت ایک ناکام تجربہ ثابت ہوا۔ وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی اپنااعتبار کھو چکی ہیں ، ان کا مضبوط گڑھ مانا جانے والا جنوبی کشمیر پوری طرح سے انکے ہاتھ سے نکل چکا ہے اور ان کی آنکھوں کے سامنے 90افراد مارے گئے، 15000زخمی ہوچکے اور 1100کے قریب اپنی بینائی سے محروم کردیے گئے ہیں۔ اسکے باوجود وہ اس ظلم کی مذمت کرنے پر آمادہ نہیں۔استعفے دینا تو دور کی بات۔
کشمیر کی نئی نسل نے گزشتہ سال کے طویل اور سخت ترین ایجی ٹیشن کے دوران اپنی ناراضی اور قوت دونوں کو اچھی طرح سے ثابت کیا ہے ۔ اس حوالے سے اسلام آباد میں ا ندیشہ پایا جاتا ہے کہ کشمیر میں رواں موسم گرما سالِ رفتہ کے مقابلے میں زیادہ خراب ہونے کا امکان ہے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ نئی دہلی اور خود کشمیر حکومت نے سرمائی مہینوں کے دوران احتجاج میں پائی جانے والی نرمی سے کوئی سبق لینے کی کوشش نہیں کی ، خاص طور جہاں تک عوامی مسائل کا تعلق ہے، انہیں یکسر پس پشت ڈالا گیا ۔
آگے بڑھنے اور حالات کو سیدھے راستے پر لانے کا اس سے اچھا کوئی طریقہ نہیں ہوسکتا کہ ہند اور پاکستان کے درمیان مذاکرات کا ایک سنجیدہ سلسلہ شروع کیا جائے ، جس میں کشمیری عوام کے نمائندوں کو شامل کرنا ناگزیر ہے ۔
٭٭٭٭٭٭