Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

احمد مشتاق اور ظفر اقبال کی ملاقات: ’عہد سے عہد کی ملاقات‘

ظفر اقبال اور احمد مشتاق کی ملاقات عہد سے عہد کی ملاقات تھی۔ دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر کِھل اُٹھے۔ جی کھول کر باتیں کیں۔ شعر سنائے۔ رفتگاں کو یاد کیا۔ ان کے چہروں سے خوشی پھوٹ رہی تھی اور اس کا اظہار لفظوں میں بھی ہو رہا تھا۔
ان کی شادمانی کا اندازہ اس مکالمے سے ہو سکتا ہے:
احمد مشتاق :مجھے تم کو دیکھ کر بڑی خوشی ہوئی ہے۔
ظفر اقبال: میں تو تم کو دیکھ کر دوبارہ زندہ ہو گیا ہوں۔
احمد مشتاق: قسمت کی بات ہے جو ملاقات ہونی ہوتی ہے وہ ہو کر رہتی ہے۔
 ظفر اقبال: بہت ہی دل خوش ہوا۔
 احمد مشتاق: میرا اپنا بڑا دل کرتا تھا۔ میں نے کہا 23 سال بعد پاکستان آیا ہوں ،میں نے ظفر سے  ضرور مل کر جانا ہے، بہت خوشی ہو رہی ہے۔
ظفر اقبال: نوکر کہتے تھے کہ ڈرائنگ روم میں بٹھائیں ان کو۔ میں نے کہا میں اپنے حجرے میں کیوں نہ بٹھاؤں۔
 احمد مشتاق: یہ وہ تعلق ہے کہ سالہا سال نہ ملیں پھر بھی قائم رہتا ہے۔
 ظفر اقبال: بڑھتا رہتا ہے۔
احمد مشتاق: میں باتیں کرنے اور ظفر سے شعر سننے آیا ہوں۔
 محبت کی چاشنی سے  معمور ان  کلمات سے بات آگے بڑھی تو ظفر اقبال نے احمد مشتاق کے دو شعر سنائے جو انہیں بہت پسند ہیں۔ ان کو ہانٹ کرتے ہیں۔ وہ حسرت سے کہتے ہیں: کاش یہ میں نے کہے ہوتے۔ یہ اشعار پڑھنے کے بعد ان کے منہ سے بے ساختہ یہ الفاظ نکلے:
  توبہ توبہ۔ اخیر  اے۔ واہ وا
 اب آپ وہ دو شعر ملاحظہ کریں:
چلتے چلتے جو تھکے پاؤں تو ہم بیٹھ گئے
نیند گٹھری پہ دھری خواب شجر پر رکھا
جانے کس دم نکل آئے ترے رخسار کی دھوپ
مدتوں دھیان ترے سایۂ در پر رکھا
 احمد مشتاق صاحب نے اپنے شعروں کی تحسین پر ظفر صاحب سے کہا:
یہ تری محبت ہے‘
میں نے کہا یہ تحسینِ سخن شناس ہے۔ اس پر مشتاق صاحب بولے ’وہ تو ہے لیکن اصل بات محبت ہے۔‘
 میں نے ظفر صاحب سے عرض کی کہ وہ اگر یہ شعر اپنے ہاتھ سے لکھ دیں تو میرے لیے یہ بڑا قیمتی تحفہ ہو گا۔ انہوں نے یہ بات مان کر میرا مان بڑھایا۔

ظفر صاحب نے بتایا کہ انہوں نے اپنے کلیات ’اب تک‘ کی چوتھی جلد احمد مشتاق کے نام کی تو بعض لوگوں کو اس سے بڑی پریشانی ہوئی۔
کہنے لگے یہ آپ نے کیا کیا۔ ان حضرات سے انہوں نے کہا: دل میں جھانک کر دیکھو، یہ دل کی باتیں ہیں، دل کے معاملات ہیں۔
 میں نے ظفر صاحب کو بتایا کہ مشتاق صاحب ہمیشہ ان کی شاعری کو سراہتے ہیں۔ اس پر مشتاق صاحب نے کہا: ’میں  کوئی کام زبانی کلامی  نہیں کرتا، میں نے ظفر کے نام خط میں اس کی شاعری کی تعریف کی تھی۔‘
اس کے بعد مشتاق صاحب بولے:
 ’پورے کا پورا شاعر بیٹھا ہے بھائی! ، ایک تو ہمارے جیسے ہوتے ہیں ادھے پچدے۔‘
 ظفر صاحب نے ترنت جواب دیا: تم پورے سے بھی زیادہ ہو۔
 مشتاق صاحب بولے:جان دے ہن، من ترا حاجی بگویم... والا کام نہ کر۔
  ظفر صاحب نے دیرینہ ہم عصر کو بتایا کہ وہ اپنے بچوں کو تاکید کرچکے ہیں کہ ان کے لوح مزار پر یہ شعر ضرور درج کرنا ہے:
 ظفر روکا ہوا تھا زندگی نے
مرا ہوں اور جاری ہو گیا ہوں
 مشتاق صاحب نے شعر کی تعریف کی۔ کہا کہ یہاں ’اور‘ دوسری طرح بھی آیا ہے مرا ہوں اور جاری ہو گیا ہوں۔ یعنی فیض کا چشمہ جاری ہے۔
فیض کے چشمے سے انہیں میرا جی کا شعر یاد آگیا:
 میر ملے تھے میرا جی سے باتوں سے ہم جان گئے
فیض کا چشمہ جاری ہے حفظ ان کا بھی دیوان کریں
اس کے بعد مشتاق صاحب نے ظفر صاحب کا یہ شعر سنایا:
   سحر ہوئی تو بہت دیر تک دکھائی دیا
غروب ہوتی ہوئی رات کا کنارہ مجھے
کہا کہ یہ تقسیم کے زمانے پر  کمال کا شعر ہے۔
 میں نے مشتاق صاحب سے کہا کہ آپ کا جو شعر ہے:
فٹ پاتھ کی دیوار سے چمٹے ہوئے پتے
اک شام ہواؤں کو درختوں پہ ملے تھے

ظفر صاحب نے بتایا جب انہوں نے اپنے کلیات ’اب تک‘ احمد مشتاق کے نام کی تو بعض لوگوں کو اس سے بڑی پریشانی ہوئی۔ (فوٹو: محمود الحسن)

اس کے بارے میں عبدالقادر حسن نے اپنے کالم میں لکھا تھا:
 ’جناب احسان دانش نے لمبی چوڑی تحسین کے بعد مجھے یہ شعر سنایا تھا کہ ہجرت پر اس سے بڑا شعر کسی نے نہیں کہا۔‘
 ظفر صاحب نے گفتگو کے ساتھ ساتھ  اپنے شعروں سے محفل گرمائے رکھی۔ بس ایک موقع پر انہیں ’جوابی وار‘ کا سامنا کرنا پڑا:
 خود کو ترتیب دیا آخرِ کار از سر نو
زندگی میں ترا انکار بہت کام آیا
  معزز معاصر سے یہ شعر سن کر مشتاق صاحب نے کہا ’میں بھی تم کو اپنا ایک پرانا شعر سناتا ہوں:
  تو اگر پاس نہیں ہے کہیں موجود تو ہے
تیرے  ہونے سے بڑے کام ہمارے نکلے
 میزبان  کو یہ شعر یاد تھا اس لیے انہوں نے مہمان  کے ساتھ اسے  دہرایا۔
  ظفر صاحب نے بتایا کہ ہر ہفتے ان کی غزل شائع ہوتی ہے۔ مشتاق صاحب نے نئی غزل سنانے کی فرمائش کی۔ ’وہ تو اس وقت مجھے یاد نہیں لیکن تم کو اپنے شعر سناتا ہوں۔‘ اس کے بعد شعروں کی جھڑی لگ گئی، جن پر مشتاق صاحب کا برجستہ تاثر میں نے بریکٹ میں لکھ دیا ہے۔ 
  یوں بھی ہوسکتا ہے یک دم کوئی اچھا لگ جائے
بات کچھ بھی نہ ہو اور دل میں تماشا لگ جائے
(سبحان اللہ ۔ اصل بات دوسرے مصرعے میں ہے۔ یہ وہی جان سکتا ہے جس کو معلوم ہو تماشا کیا ہے)
تجھ سے کوئی فی الحال طلب ہے نہ تمنا
اس شہر میں جیسے تیرا ہونا ہی بہت ہے
میں چوم لیتا ہوں اس راستے کی خاک ظفر
 جہاں سے کوئی بہت بے خبر گزرتا ہے
(واہ وا۔ کری ایٹیو)
منکشف اس پہ مرا شوقِ ملاقات ظفر
دور رہنے سے ہوا، آنکھ چرانے سے ہوا
(اے تیرا خاص سٹائل اے۔ کمال کا۔ سبحان اللہ)
  بیٹھتا جاؤں گا اس فرش پہ رفتہ رفتہ
گرد سا یہ تری پوشاک سے جھاڑا ہوا میں
(سبحان اللہ۔ سبحان اللہ۔ یہ تم ہی کہہ سکتے ہو۔ کوئی اور نہیں اس طرح کے شعر کہہ سکتا)
 مسکراتے ہوئے ملتا ہوں کسی سے جو ظفر
صاف پہچان لیا جاتا ہوں رویا ہوا میں
(واہ وا۔ صاف پہچان لیا جاتا ہوں رویا ہوا میں)
 یوں ہے کہ یہاں نام و نشاں تک نہیں تیرا
 اور تجھ سے بھری رہتی ہے تنہائی ہماری
(یہی تو ہے۔ یہ تو ساری بات ہے)
رات خالی ہی رہے گی مرے  چاروں جانب
اور یہ کمرہ ترے خواب سے بھر جائے گا
(واہ۔ سبحان اللہ۔ کیا بات ہے ظفر تیری۔ اللہ تجھے سلامت رکھے اور شعروں کا یہ سلسلہ جاری رہے)
چار سو پھیلتی خوشبو کی حفاظت کرنا
اتنا آساں بھی نہیں تجھ سے محبت کرنا
(واہ، وا)
 راکھ ہو سکتا ہوں میں دور بھی رہ کر تجھ سے
اتنی توفیق ہے اب بھی ترے  پروانے میں
(سبحان اللہ۔واہ۔ توفیق کا لفط خوب ہے)
  کام دشوار تھا اور عمر بھی سب خرچ ہوئی
ان اندھیروں پہ کسی خواب کو لہرانے میں
(بھئی تم ہائیلی امیجنیٹو ہو)
ذاکرہ تھی کوئی اور خوب رلاتی تھی ظفر
 مجلسیں پڑھتی ہوئی دل کے عزا خانے میں
(یہ کمال کا شعر ہے)
دیر لگتی ہے کنارے کی طرف آنے میں
کام دشوار تھا اور عمر بھی سب خرچ ہوئی
(واہ)
 جس رات مہکتی ہیں کسی رات کی یادیں
اس رات گزرتی ہی نہیں رات ہماری
( رات کو کیسے مختلف انداز میں لائے ہو۔ یہ ہے زبان و بیان پر کمال۔ شتر بے مہار والا کمال نہیں۔ شاعر کو پتا ہوتا ہے لفظوں کو شعر میں کیسے لانا ہے۔)
شرمندہ بہت ہیں ظفر اس عیب سخن پر
اور اس کے سوا کوئی ہنر بھی نہیں رکھتے
ظفر، یہ وقت ہی بتلائے گا کہ آخر ہم
 بگاڑتے ہیں زباں یا زباں بناتے ہیں
یہ شعر سن کر مشتاق صاحب نے کہا: جس غزل کا شعر ہے وہ بڑی کمال کی غزل ہے۔ اس کا یہ شعر بھی مجھے یاد ہے: 
کہ مل سکے نہ ہمارا سراغ ہم کو بھی
 بناے ابر و ہوا پر مکاں بناتے ہیں
شعر گوئی کا سلسلہ رکا تو میں نے مشتاق صاحب کو بتایا کہ گزشتہ دنوں ظفر صاحب کےانٹرویو سے معلوم ہوا کہ ان کی نظموں کا مسودہ افتخار جالب سے کہیں گم ہو گیا تھا۔
میں نے اس موقع پر نمونے کے طور پر ظفر صاحب کی وہ نظم سنائی جو ناصر کاظمی اور انتظار حسین کے زیر ادارت 1857 نمبر میں شائع ہوئی تھی۔
شاعر اس نظم کو بھول چکا تھا۔ مشتاق صاحب کے ذہن میں بھی یہ نہیں تھی البتہ ’خیال‘ میں چھپی صفدر میر کی نظم انہیں خوب یاد تھی اور وہ اسے گذشتہ دن محمد سلیم الرحمٰن صاحب کو سنا چکے تھے۔
  دونوں  نے افتخار جالب کا ذکر بڑے اچھے لفظوں میں کیا۔ انہیں ذہین اور لائق آدمی قرار دیا جسے شعر کی بڑی سمجھ تھی۔
 اس کے بعد صلاح الدین محمود کو بڑی محبت سے یاد کیا جو اچانک دنیا سے چلے گئے۔ مشتاق صاحب نے ان کے یہ گن گنوائے: ’نفیس اور شائستہ۔ خوش لباس۔ نیٹ اینڈ کلین۔ شاعر اور مدیر۔ آرگنائزڈ آدمی۔ ذاتی لائبریری میں اعلیٰ اور نایاب کتابیں۔ اب جن کا کچھ پتا نہیں۔ موسیقی کاعمدہ ذوق۔‘
   ان کے گھر کی محافل کا تذکرہ رہا۔ مشتاق صاحب کو ان کے بیگم کے ہاتھ کے گرم گرم پکوڑے اور ظفر صاحب کا امرود والا شعر یاد آیا:
 کھلائیں اس کو اوکاڑے کے امرود
 اگر آئے صلاح الدین محمود
 ظفر صاحب نے بڑی حسرت سے کہا:
کیا دن تھے، اصل دن ہماری زندگی کے وہی دن تھے‘

رخصت کرتے ہوئے ظفر صاحب نے احمد مشتاق صاحب سے کہا کہ  ’اچھا میری جان اپنا خیال رکھنا۔‘ (فوٹو: محمود الحسن)

مشاق صاحب کہنے لگے: منیر احمد شیخ بھی جلدی چلا گیا۔ انیس ناگی کا کتاب پڑھتے پڑھتے انتقال ہو گیا۔ اب یادیں اور فریادیں ہی رہ گئیں۔
 ظفر صاحب گویا ہوئے: اب تو کسی کو فون کرتے ڈر لگتا ہے کہ پتا چلے کہ بھئی وہ تو گئے۔ ہم سے عمر میں کہیں چھوٹے لوگ بھی چلے گئے۔۔۔
’منیرنیازی ایسی اچھی محفل لگاتا تھا۔ کیا فقرے اس کے ہوتے تھے۔‘
انتظار صاحب کا ذکر آیا تو ظفر صاحب کہنے لگے ان سے چھیڑ چھاڑ چلتی رہتی تھی۔ مشتاق صاحب نے کہا انتظار نے ’عیب و ہنر‘ کا دیباچہ بہت کمال کا لکھا ہے۔ ظفر صاحب نے اس دیباچہ کا تھوڑا پس منظر بتایا:
’اچھا اس وقت میری اور ان کی کشمکش چل رہی تھی۔ میں نے ان سے کہا، آپ جو لکھیں گے میں چھاپ دوں گا، خلاف لکھو گے وہ بھی چھاپ دوں گا۔‘
میں نے کہا انتظار صاحب نے بڑی خوبصورتی سے آموں سے بات شروع کی اور پھر اس کا ٹانکا آپ کی شاعری کو پڑھنے کے سلیقے سے ملا دیا۔
 چائے آئی تو ظفر صاحب نے اس پر شعر سنایا:
 جانِ ظفر درکار ہے اب تو
میٹھی بات اور پھیکی چائے
میں نے ظفر صاحب سے پوچھا ان کی مشتاق صاحب سے پہلی ملاقات کب اور کہاں ہوئی؟
ٹی ہاؤس میں ملاقات ہوئی۔ مظفر علی سید، انتظار حسین، شیخ صلاح الدین، ناصر کاظمی اور احمد مشتاق اکٹھے بیٹھتے تھے۔ یہ پچاس کی دہائی کی بات ہے۔‘
ظفر صاحب نے اپنے شعر سنانے کے بعد مہمانِ عزیز سےکہا ’اچھا، شعر سنا نہ کوئی ‘
اس پر مشتاق صاحب نے اپنے یہ شعر سنائے:
اپنی بھی رسم و راہ بیابانیوں سے تھی
ہم بھی کچھ آبلوں کے نشاں چھوڑ جائیں گے
 اب بھی ساحل کو ہے گزرے ہوئے طوفاں کا ملال
جانے کس موج گریزاں کا تمنائی تھا
 (پہلے مصرعے کے بارے میں ظفر صاحب نے کہا:پہلی بار کسی نے یہ بات کہی ہے)
  عالمِ دید بھی کیا عالمِ تنہائی تھا
خوفِ ہجراں تھا نہ اندیشہ رسوائی تھا
کب تلک پیشیاں بھگتے تنِ تنہا میرا
جرح اک عمر سے جاری ہے بیانِ دل پر
آج  لکھا  ہوا دیکھا ہے  کسی اور کا نام
کل کسی اور کی تختی تھی مکانِ دل پر
 کبھی خواہش نہ ہوئی انجمن آرائی کی
کوئی کرتا ہے حفاظت مری  تنہائی کی
(سبحان اللہ)
ان شعروں کے بعد  وہ شعر سنایا جس کی داد انہیں کبھی  ظفر صاحب سے ملی تھی:
میں نےدل سے کہا ہم جھیل گئے ہجر کا دن
دل نے چپکے سے کہا شام ذرا ہونے دو
 مشتاق صاحب نے کہا کہ چند شعر بھی لوگوں کو یاد رہ جائیں تو بڑی بات ہے۔ کہنے لگے کہ حفیظ جونپوری کے ایک شعر نے اسے زندہ رکھا ہے:
 بیٹھ جاتا ہوں جہاں چھاؤں گھنی ہوتی ہے
 ہائے کیا چیز غریب الوطنی ہوتی ہے
 یہ تو مطلع ہے۔ مشتاق صاحب نے غزل کے دو اور شعر بھی سنائے:
 ہجر میں زہر ہے ساغر کا لگانا منہ سے
 مے کی جو بوند ہے ہیرے کی کنی ہوتی ہے
پی لو دو گھونٹ کہ ساقی کی رہے بات حفیظؔ
 صاف انکار سے خاطر شکنی ہوتی ہے
ظفر صاحب نے شعر سننے کے بعد کہا ’روایت نہ ہوتی تو ہم نے کہاں شعر کہنے تھے‘
اس پر مشتاق صاحب نے کہا ادیب سہارنپوری کا ایک شعرسنو:
 اڑنے لگے ہیں قشقہ و داغِ جبیں کے رنگ
اچھے رہے جو تھے غم جاناں لیے ہوئے
یہ شعر سن کر ظفر صاحب کی طبعیت دوبارہ رواں ہوئی اور انہوں نے غزل سنائی اور مزید شعر بھی:
 شمار ہونا ہے یا بے شمار ہونا ہے
یہی ہمارا نہ ہونا ہزار ہونا ہے
لگی ہوئی ہے جو آنکھوں میں تیری  آمد و رفت
ابھی تو دل نے ترا رہ گزار ہونا ہے
جہاں جہاں نہیں امکان تیرے آنے کا
وہاں وہاں بھی تیرا انتظار ہونا ہے
رکیں گے کیا ترے دریا کے درمیان میں ہم
کہ آر ہونا ہے یا ہم نے پار ہونا ہے
کبھی تو آپ کریں گے ہمارے ساتھ انصاف
کبھی تو آپ نے ایماندار ہونا ہے
 ظفر کے ہاتھ بھی خالی ہیں اور دل بھی مگر
اسی نے آپ کا امیدوار ہونا ہے
(واہ واہ)
گلی گلی مرے ذرے بکھر گئے تھے ظفر
خبر نہ تھی کہ وہ کس راستے سے گزرے گا
(تم نے پھیلا دیا ساری جگہ اپنے آپ کو۔ لوگوں کو پتا ہی نہیں شاعری ہوتی کیا ہے۔ ظفر اقبال حقیقی  معنوں میں قادر الکلام ہے۔)
 مہماں رہے تو ہوں گے ہم اس دل میں چار دن
لیکن وہاں ہماری سکونت کبھی نہ تھی
 کھلا کھلا بھی ہوا دار بھی ہے دل کا مکاں
تو آ کے چار دن اس میں کبھی قیام تو کر
(ظفر بات کھری کرتا ہے)
رنگت ہی اڑی رہتی ہے چہرے کی سراسر
اظہار محبت کی ضرورت نہیں پڑتی
(یہ باریکیاں جو ہیں اسے نکتہ آفرینی کہتے ہیں)
اس شوخ پہ مرنا تو بڑی بات ہے لیکن
کہتے ہیں کہ اس عمر میں اچھا نہیں لگتا
اصرار تھا انھیں کہ بھلا دیجیے ظفر
 ہم نے بھلا دیا تو وہ اس پر بھی خوش نہیں
کون تھا وہ جو رہا اپنے شب و روز میں گم
مر گئے جس کی منڈیروں پہ کبوتر میرے
ایک شاعر میں ہوا ظاہر زمانے بھر کا عجز
تمکنت سارے جہاں کی ایک استانی میں تھی
آیا تھا گھر سے ایک جھلک دیکھنے تری
 میں کھو کے رہ گیا ترے بچوں کے شور میں
  کسی کے دل میں جگہ مل گئی ہے تھوڑی سی
سو کچھ دنوں سے ظفر گوشہ گیر ہو گیا ہوں
  شہر میں ہے اگر کوئی میرا ہوتا سوتا
راستہ بھول گیا ہوں مجھے گھر لے جائے
رنج و راحت تری دہلیز پہ چھوڑ آیا ہوں
وہ محبت تری دہلیز پہ چھوڑ آیا ہوں
تاکہ پھر تجھ کو ضرورت نہ پڑے پوچھنے کی
اپنی حالت تری دہلیز پہ چھوڑ آیا ہوں
لمس کی گرمی کہاں سے آئی تھی اس میں ظفر
 یہ اگر وہ خود نہیں تھا یہ اگر آواز تھی
اکثر مرے خاموش اندھیروں کے افق پر
تا دیر چمکتی رہی آواز تمھاری
صبح سی ہر دم  کیے رکھتا ہے جو چاروں طرف
دیکھنے میں اس کا اپنا شام جیسا رنگ ہے

 احمد مشتاق صاحب نے ظفر صاحب سے جانے کی اجازت چاہی تو انہوں نے کہا نہیں  تھوڑی دیر اور بیٹھو۔ (فوٹو: محمود الحسن)

یہ شعر سننے کے بعد احمد مشتاق صاحب بولے: ’اعلیٰ۔ ظفر نے شاعری میں بہت ساری ترکیبییں  بہت سارے نئے الفاظ برتے۔ پورا شاعر دیکھنا چاہیے۔ اس میں کرافٹ بھی ہو۔زبان پر عبور بھی ہو۔ حس مزاح بھی ہو۔شوخی بھی۔ تنقید بھی۔ خود تنقیدی بھی۔نئے تجربات بھی۔ یہ سب ظفر کی شاعری میں ہے۔‘
ظفر صاحب نے جو شعر سنائے وہ اس لیے بہت اہم ہیں کہ ان کا سامع کوئی اور نہیں غزل کا ممتاز شاعر ہے۔ سخن فہم ہے۔ ان کا وہ ہم عصر ہے جس کی شاعری وہ پسند کرتے ہیں اور وہ ان کی شاعری کا مداح ہے۔ اس لیے اسے اپنا کلام سنانا بڑی معنویت رکھتا ہے۔
ظفر صاحب نے بتایا: ’سنگ میل والے میری  ساری کتابیں شائع کر رہے ہیں۔ کلیات ’اب تک‘ کی آٹھ جلدیں ہوں گی، ہر جلد میں چھ کتابیں۔ ساری کتابیں الگ الگ بھی شائع ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ نے رسی مزید دراز کی تو اور بھی کتابیں آجائیں گی۔‘
 احمد مشتاق صاحب نے ظفر صاحب سے جانے کی اجازت چاہی تو انہوں نے کہا نہیں  تھوڑی دیر اور بیٹھو۔  مشتاق صاحب نے بتایا کہ کل محمد سلیم الرحمٰن سے ملاقات ہوئی ۔ ظفر صاحب کہنے لگے میرا اپنا بڑا جی کرتا ہے ان سےملنے کو۔
اس دوران کسی کا فون آگیا تو اسے ظفر صاحب نے بتایا:
’میں بہت مزے میں ہوں۔ اس وقت احمد مشتاق میرے پاس بیٹھے ہیں اور ان سے گفتگو میں بڑا لطف آرہا ہے۔‘
احمد مشتاق صاحب ابھی اور بھی بیٹھتے لیکن حسین نقی صاحب کا فون آیا کہ وہ دوپہر کے کھانے پر ان کا انتظار کر رہے ہیں۔ ظفر صاحب سے ان کے گھر کا خاصا فاصلہ ہے، اس لیے مشتاق صاحب نے ظفر صاحب سے اجازت طلب کی اور رخصت ہوتے ہوئے  ان سے کہا:
اپنا خیال رکھ اور شعر لکھتے رہو۔ اللہ تمھیں خوش رکھے۔ اللہ تمھیں سلامت رکھے۔ بہت مزہ آیا۔ اس طرح کبھی شعر نہیں سنے۔ مجھے یقین نہیں آتا کہ میں یہاں تک پہنچوں گا‘
ظفر صاحب نے دمِ رخصت مہمانِ عزیز سے کہا:
 ’اچھا میری جان اپنا خیال رکھنا‘

شیئر: