تاحیات نااہلی کی مدت کی آئینی وقانونی تشریح، سپریم کورٹ کا نوٹس
چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ کی تاحیات نااہلی کے معاملے پر دو آرا ہیں۔ فائل فوٹو: روئٹرز
پاکستان کی سپریم کورٹ نے تاحیات نااہلی کے معاملے پر عدالتی فیصلے اور الیکشن ایکٹ کی شق میں تضاد پر نوٹس لیتے ہوئے اٹارنی جنرل اور صوبوں کے ایڈووکیٹ جنرل سے معاونت طلب کی ہے۔
پیر کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے تاحیات نااہلی کی مدت کے تعین کے کیس کو عدالتی بینچ کے سامنے مقرر کرنے کے لیے ججز کمیٹی کو بھجوایا ہے۔
سپریم کورٹ نے اپنے آرڈر میں لکھوایا کہ مقدمات کو سماعت کے لیے مقرر کرنے والی کمیٹی کے فیصلے کے بعد یہ کیس اگلے سال جنوری میں سنا جائے گا۔
عدالت نے اپنے حکم نامے میں یہ بھی لکھوایا کہ موجودہ کیس کو انتخابات میں تاخیر کے آلہ کار کے طور پر استعمال نہیں کیا جائے گا۔ اور اس حوالے سے نوٹس انگریزی زبان کے دو بڑے اخبارات میں شائع کیا جائے۔
سپریم کورٹ نے تاحیات نااہلی کے معاملے کا نوٹس پنجاب اسمبلی کے سابق رکن میر بادشاہ قیصرانی کو انتخابات میں حصہ لینے سے روکنے کی ایک درخواست کی سماعت کے دوران لیا۔
بادشاہ قیصرانی کو سپریم کورٹ نے جعلی ڈگری کے کیس میں تاحیات نااہل کر دیا تھا۔
سپریم کورٹ نے اپنے آج کے آرڈر میں لکھا کہ مقدمات کو سماعت کے لیے مقرر کرنے والی کمیٹی طے کرے گی کہ اس کیس کو سننے والا لارجر بینچ پانچ رکنی ہو یا سات رکنی عدالتی بینچ اس آئینی معاملے کی تشریح کرے۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کہا کہ اس عدالتی حکم نامے کی نقل الیکشن کمیشن کو بھی ارسال کی جائے۔
عدالت نے کہا کہ کوئی سیاسی جماعت اس کیس میں فریق بننا چاہے تو بن سکتی ہے۔
دوران سماعت ایک موقع پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ انتخابات کے حوالے سے کوئی غیریقینی صورتحال نہیں، اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو یہ سپریم کورٹ کی توہین ہوگی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ موجودہ کیس 2018 کے انتخابات سے متعلق ہے اور اب نئے انتخابات سر پر ہیں تو یہ نظرثانی کیس قابل سماعت معاملہ کیسے ہے؟
درخواست گزار کے وکیل ثاقب جیلانی نے کہا کہ موجودہ کیس کا اثر آئندہ انتخابات پر بھی ہو گا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے پوچھا کہ میر بادشاہ قیصرانی کو نااہل کیوں کیا گیا؟
درخواست گزار کے وکیل نے بتایا کہ میر بادشاہ قیصرانی کو جعلی ڈگری کی بنیاد پر 2007 میں نااہل کیا گیا، ہائیکورٹ نے میر بادشاہ کو 2018 کے انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دی۔ میر بادشاہ قیصرانی کو آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہل کیا گیا تھا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ اگر کسی کی سزا ختم ہو جائے تو تاحیات نااہلی کیسے برقرار رہ سکتی ہے؟
درخواست گزار نے کہا کہ جھوٹے بیان حلفی پر کاغذات نامزدگی جمع کرانے والے کو نااہل ہی ہونا چاہیے، سپریم کورٹ نے آرٹیکل 62 ون ایف کی تشریح پر پانامہ کیس میں فیصلہ دے دیا تھا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ کی تاحیات نااہلی کے معاملے پر دو آرا ہیں۔ نیب کیسز میں اگر تاحیات نااہلی کی سخت سزا ہے تو قتل کی صورت میں کتنی نااہلی ہوگی؟
وکیل نے بتایا کہ قتل کے جرم میں سیاست دان کی نااہلی پانچ سال کی ہو گی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ بچے کے ساتھ زیادتی جیسے سنگین جرم کی سزا بھی پانچ سال نااہلی ہے۔
چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا تاحیات نااہلی اور آرٹیکل 62 ون ایف سے متعلق کوئی نیا قانون بھی آ چکا ہے؟
وکیل نے بتایا کہ حال ہی میں الیکشن ایکٹ میں ترمیم کر کے نااہلی کی زیادہ سے زیادہ مدت پانچ سال کر دی گئی ہے۔