سپریم کورٹ میں آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت سیاستدانوں کی تاحیات نااہلی سے متعلق کیس میں عدالت نے سوال اٹھایا کہ اگر ایک شخص نے کاغذات نامزدگی میں غلطی کی تو عدالت نے اسے گھر بھیج دیا کیا یہ سزا کافی نہیں؟ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ سزا کے بعد کبھی انتخابات نہ لڑسکے؟
منگل کو چیف جسٹس پاکستان قاضی فائزعیسٰی کی سربراہی میں 7 رکنی لارجر بینچ نے کیس کی سماعت کی۔
جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی بھی کا حصہ تھے۔
مزید پڑھیں
-
زرداری نااہلی کیس:”سیاسی لڑائی عدالت نہیں، پارلیمان میں لڑیں“Node ID: 383741
-
نواز شریف کے کاعذات نامزدگی کی منظوری کے خلاف اپیل دائرNode ID: 823861
سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کی سزا 5 سال کرنے کی قانون سازی کو سپورٹ کر رہے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’تاحیات نااہلی کے فیصلے پر نظر ثانی ہونی چاہیے۔‘ انہوں نے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی کی تشریح کے فیصلے کے دوبارہ جائزے کی استدعا کردی۔
دوران سماعت میر بادشاہ قیصرانی کےخلاف درخواست گزارکے وکیل ثاقب جیلانی نے بھی تاحیات نااہلی کی مخالفت کی۔ وکیل نے کہا کہ ’میں نے 2018 میں درخواست دائر کی جب 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی کا فیصلہ آیا۔ اب الیکشن ایکٹ میں سیکشن 232 شامل ہوچکا اس لیے تاحیات نااہلی کی حد تک استدعا کی پیروی نہیں کر رہا۔‘
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ’الیکشن ایکٹ 2017 کو کیا کسی نے عدالت میں چیلنج کیا؟ ‘ جس پر درخواست گزار کی جانب سے عدالت کو بتایا گیا کہ الیکشن ایکٹ کو کبھی بھی کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ ’کیا کوئی ایسی صوبائی حکومت ہے جو الیکشن ایکٹ 2017 کی مخالفت کرے؟‘ جس پر صوبائی ایڈووکیٹ جنرلز نے عدالت میں مؤقف دیا کہ ’تمام صوبائی حکومتیں الیکشن ایکٹ 2017 کو سپورٹ کر رہی ہیں۔‘

چیف جسٹس نے کہا کہ ’نااہلی کی مدت کا تعین آئین میں نہیں، اس خلا کو عدالتوں نے پُر کیا۔‘ جسٹس منصور علی شاہ نے اس موقع پر اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ ’سوال یہ ہے کہ کیا الیکشن ایکٹ میں دی گئی نااہلی کی مدت آئین سے زیادہ اہم تصور ہو گی؟ آرٹیکل 63 کی تشریح کا معاملہ ہے، سنگین غداری کرے تو الیکشن لڑ سکتا ہے۔ سول کورٹ سے معمولی جرائم میں سزا یافتہ الیکشن نہیں لڑ سکتا۔ کیا سپریم کورٹ کے فیصلے کوختم کرنے کے لیے آئین میں ترمیم کرنی پڑے گی؟ کیا آئین میں جو لکھا ہے اسے قانون سازی سے تبدیل کیا جاسکتا ہے؟‘
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ’آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف میں نااہلی کی میعاد کا ذکر نہیں ہے۔ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا جب تک عدالتی فیصلہ موجود ہے نااہلی تاحیات رہے گی۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ’آرٹیکل 62 ون جی اور آرٹیکل 63 ون جی کی زبان ایک سی ہے۔ آرٹیکل 63 ون جی کے تحت ملکی سالمیت اور نظریے کی خلاف ورزی کرنے والے کی نااہلی 5 سال ہے۔‘
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’اگر ایک شخص کے خلاف مقدمہ ہو تو وہ 2 سال سزا کاٹ کر واپس آسکتا ہے۔ مگرایک شخص کےخلاف مقدمہ نہ ہو بلکہ ڈکلیئریشن آجائے تو وہ دوبارہ آہی نہیں سکتا۔‘
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ’کیا کوئی شخص حلفیہ طور پر کہہ سکتا ہے کہ وہ اچھے کردارکا مالک ہے؟ اگر 2002ء میں قائد اعظم ہوتے تو وہ بھی نااہل ہوتے۔‘
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ’جب غیر منتحب لوگ قوانین بنائیں گے تو ایسے ہی ہو گا۔‘
چیف جسٹس نے مخدوم علی خان کو روسٹرم پر بلا لیا۔ انہوں نے کہا کہ میں موجودہ کیس میں جہانگیز خان ترین کا وکیل ہوں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ’آپ کو عدالتی معاون مقرر کرنے کا سوچ رہے تھے لیکن آپ پہلے ہی ہمارے سامنے فریق ہیں۔ یہ بتائیں کہ آرٹیکل 62 میں یہ شقیں کب شامل کی گئیں؟‘ جس پر مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ ’آرٹیکل 62 آئین پاکستان 1973 میں سادہ تھا۔ آرٹیکل 62 میں اضافی شقیں صدارتی آرڈر 1985 سے شامل ہوئیں۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ’یعنی ضیا نے کردار سے متعلق شقیں شامل کرائیں۔ کیا ضیاالحق کا اپنا کردار اچھا تھا؟ ستم ظریفی ہے کہ آئین کے تحفظ کی قسم کھا کر آنے والے خود آئین توڑ دیں اور پھر یہ ترامیم کریں۔‘
