Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مسلم لیگ ن اور جے یو آئی کے رابطے بحال، مولانا ’موم‘ ہو جائیں گے؟

مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف نے جمعے کو جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کی ہے۔
اسلام آباد میں مولانا فضل الرحمان کی رہائش گاہ پر پونے والی اس ملاقات میں نواز شریف کے ساتھ رانا ثنااللہ، احسن اقبال، ایاز صادق، سعد رفیق اور اسحاق ڈار موجود تھے۔ جبکہ جے یو آئی کی طرف سے مولانا عبدالغفور حیدری، حاجی غلام علی، اسلم غوری، نور عالم خان اور عثمان بادینی موجود تھے۔
وفود کی سطح پر ملاقات کے بعد نواز شریف اور مولانا فضل الرحمان نے علیحدگی میں بھی ملاقات کی۔ اس ملاقات کے بعد سیاسی مبصرین قیاس آرائیاں کر رہے ہیں کہ نواز شریف نے مولانا کو منانے اور وزارت عظمٰی کا ووٹ شہباز شریف کو دینے کے لیے قائل کرنے کی کوشش کی ہے۔
ملاقات کے بعد رانا ثنااللہ نے کہا ہے کہ ان کی کوشش ہے کہ مولانا ان کے ساتھ رہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ ’ون آن ون ملاقات میں پاکستان کی بہتری کے لیے کسی نتیجے پر پہنچیں ہوں گے، مولانا فضل الرحمان ہمارے ساتھ بہت شفیق ہیں انہیں ہم کہیں جانے نہیں دیں گے۔‘

’نواز شریف نے ووٹ نہیں مانگا‘

اس حوالے سے جے یو آئی کے سینیئر رہنما اسلم غوری نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ نواز شریف نے وزارت عظمٰی کے ووٹ کے متعلق کوئی بات نہیں کی اور ان کی جانب سے مسلم لیگی وفد کو بتا دیا گیا ہے کہ ان کے موجودہ نظام کے متعلق تحفظات ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ’نواز شریف نے مولانا سے ناراضگی کی وجوہات ضرور پوچھی ہیں جس کے جواب میں انہوں نے ان کو بتا دیا ہے کہ ان کے الیکشن کمیشن اور جمہوریت کو کنٹرول کرنے والوں کے حوالے سے تحفظات ہیں۔‘
’یہ انتخابات کے بعد نواز شریف کی مولانا سے پہلی ملاقات تھی۔ اس میں دونوں رہنماؤں کے مابین باہمی دلچسپی کے امور پر بات ہوئی ہے لیکن مولانا نے ان پر واضح کر دیا ہے کہ وہ موجود نظام سے خوش نہیں ہیں۔‘

جے یو آئی کے سینیئر رہنما اسلم غوری کے مطابق نواز شریف نے وزارت عظمٰی کے ووٹ کے متعلق کوئی بات نہیں کی۔ (فوٹو: سکرین گریب)

اسلم غوری کا کہنا تھا کہ ’ہماری نواز شریف سے نہیں بلکہ موجودہ نظام سے ناراضگی ہے۔ نواز شریف پر یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ وہ اس نظام کا حصہ نہیں رہنا چاہتے۔‘
’ہم تو اپنی موجودہ نشستوں سے بھی استعفے دینا چاہ رہے ہیں اور اس کے لیے پارٹی کے اندر مشاورت اور ماحول تیار کر رہے ہیں تاکہ جنرل کونسل کو اعتماد میں لیا جا سکے۔‘
شہباز شریف کو وزارت عظمٰی کا ووٹ دینے کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں جے یو آئی کے سینیئر رہنما نے کہا کہ اگرچہ نواز شریف نے اس بارے میں کوئی بات نہیں کی لیکن ان سے پہلے ان کی پارٹی کے آنے والے وفود ووٹ مانگتے رہے ہیں اور اس معاملے پر ابھی حتمی فیصلہ نہیں ہوا۔
ان سے جب پوچھا گیا کہ کیا جے یو آئی شہباز شریف کو ووٹ دینے کا سوچ رہی ہے تو انہوں نے کہا کہ ’آج کی ملاقات میں ایسی کوئی بات نہیں ہوئی۔‘

’ووٹ کی نہیں سیاسی اتحاد کی ضرورت‘

سینیئر تجزیہ کار ضیغم خان کے خیال میں نواز شریف اور حکومتی اتحاد کو مولانا فضل الرحمان کے ووٹ کی ضرورت بھی نہیں ہے اور وہ بار بار ان کے پاس ووٹ کے لیے نہیں بلکہ اپوزیشن میں بیٹھنے سے روکنے کے لیے جا رہے ہیں۔
’مولانا اگر اپوزیشن میں بیٹھ گئے تو وہ پی ٹی آئی کے ساتھ مل کر حکومتی اتحاد کے لیے بہت مشکلات پیدا کر دیں گے، اس لیے مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی انہیں ایسا کرنے سے روکنا چاہتے ہیں۔‘

ضیغم خان کے خیال میں نواز شریف اور حکومتی اتحاد کو مولانا فضل الرحمان کے ووٹ کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

ضیغم خان کا کہنا تھا کہ مولانا فوری طور پر حکومتی اتحاد کی بات نہیں مانیں گے اور امکان ہے کہ وہ وزیراعظم اور صدر دونوں عہدوں کے انتخابات کا بائیکاٹ کریں۔ تاہم جس وقت زرداری ان کو منانے کے لیے نکلے اس وقت وہ رضامند ہو جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ’مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور اسٹیبلشمنٹ تینوں مولانا فضل الرحمان کے دوست تھے اور ان تینوں نے الیکشن میں مولانا کی مدد نہیں کی جس کی وجہ سے وہ غصے میں ہیں۔ کیونکہ مولانا نے پی ڈی ایم بنا کر اور عمران خان کی حکومت گرا کر ان دوستوں کے لیے بہت کچھ کیا تھا اور اب بدلے میں انہیں کچھ نہیں ملا۔‘
انہوں نے کہا کہ اگر مولانا شہباز شریف یا آصف زرداری کو ووٹ دیتے ہیں تو یہ حیران کن ہو گا لیکن اگر وہ ان لوگوں کے منانے پر ان کے ساتھ شامل نہیں ہوتے تو وہ اس سے زیادہ حیران کن ہو گا۔
’مولانا ابھی اسٹیبلشمنٹ کو بھی پیغام دے رہے ہیں کہ وہ ناراض ہیں اور ان کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔ دوسری طرف حکمران اتحاد بھی مولانا کو تھوڑا وقت دے رہا ہے اور صدارتی انتخابات کے بعد وہ مولانا کو ساتھ ملانے کی بھرپور کوشش کریں گے جس کے بعد مولانا کے حکومت کے ساتھ مل جانے کے امکانات ہیں۔‘

نواز شریف کی ’ذاتی‘ درخواست؟

سینیئر صحافی مجیب الرحمان شامی سمجھتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمان اس وقت مشکل صورتحال سے دوچار ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ فی الحال حکمران اتحاد کو ووٹ نہیں دیں گے۔
انہون نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’مولانا فضل الرحمان کو بلوچستان میں بھی اپوزیشن کی طرف دھکیل دیا گیا ہے۔ اس لیے وہ مشکل سے دوچار ہیں اور لگتا نہیں کہ آسانی سے ووٹ دے دیں گے۔ ہاں اگر نواز شریف نے کوئی انتہائی ذاتی نوعیت کی درخواست کی ہے تو پھر دوسری بات ہے۔‘

شیئر: