’والدین سائنس دان بنانا چاہتے تھے‘ سعودی کار ریلی ڈرائیور یزید الراجحی کی کہانی
یزید الراجحی کا کہنا تھا کہ دسویں میں آٹھ مضامین میں فیل ہو نے پر پڑھائی چھوڑ دی (فوٹو: عاجل)
عالمی شہرت یافتہ سعودی کار ریلی ڈرائیور ’یزید الراجحی‘ کا کہنا ہے کہ والدین انہیں سائنس دان یا مختلف علوم کا ماہر بنانا چاہتے تھے مگر دسویں میں آٹھ مضامین میں فیل ہو نے پر پڑھائی چھوڑ دی۔
والد کی فیکٹری میں مزدور کے طور پر چھ ہزار ریال کی نوکری کی۔ بعدازاں ایک پروجیکٹ کی چھ ماہ نگرانی کرنے پر مجھے منافع میں سے 5 لاکھ ریال ملے۔
عاجل نیوز کے مطابق یزید الراجحی نے معروف فنکارہ اصالہ کی پوڈ کاسٹ میں اپنی زندگی کی کہانی سناتے ہوئے کہا کہ ’والد صاحب کا عجیب فارمولا تھا بہن بھائیوں میں جو پاس ہوتا، اسے ایک انعام ملتا تھا اور جو فیل ہوتا اسے دو انعام دیے جاتے تھے۔‘
اپنی زندگی کے نشیب و فراز کی داستان بیان کرتے ہوئے مزید کہا کہ ’والد صاحب نے گھر پر تین ٹیوٹر رکھے ہوئے تھے جو ہمیں عصر کی نماز کے فوری بعد سے لے کر عشاء تک پڑھاتے تھے، عشا کی نماز کی بعد والدہ مسجد لاتیں اور کھانا کھلا کر سلانے تک ہمارے ساتھ رہتی تھیں۔‘
’دسویں جماعت میں فیل ہونے کے بعد سکول جانے کا ارادہ ترک کردیا۔ والدہ نے بہت کوشش کی کہ میں اپنے اس ارادے سے باز آجاؤں مگر فیصلہ کر چکا تھا کہ اب دوبارہ اسکول کی شکل نہیں دیکھنی۔‘
’پڑھائی ترک کرنے کے بعد والد سے کہا کہ میں کام کرنا چاہتا ہوں۔ اس پر کہا گیا کہ اگر فیکٹری میں مزدور کے طورپر کام کرو گے تو ڈبل تنخواہ ملے گی اگر دفتر میں آفس ورک کرو گے تو آدھی تنخواہ ملے گی۔‘
یزید الراجحی نے بتایا کہ ’6 ہزار تنخواہ ملتی تھی۔ ’روم کولر‘ بنانے فیکٹری تھی، میں جس شعبے میں مزدوری کرتا تھا وہاں کولر کے پارٹس کو جوڑا جاتا تھا۔‘
’فیکٹری میں کام کر کے دل بھر گیا تو والد سے کہا کہ کوئی اور کام دیں جس پر انہوں نے کہا مکہ میں ایک تعمیراتی پروجیکٹ ہے جس کی نگرانی کرو اور منافع میں سے آدھا حصہ ملے گا۔‘
ان کے مطبق ’یہ تجویز اچھی لگی اور میں ریاض سے مکہ مکرمہ آ گیا۔ یہاں العزیزیہ کے علاقے میں تعمیراتی پروجیکٹ تھا جس میں مزدوروں کی نگرانی کرنا اور کام کی رفتار کا جائزہ لینا میری ذمہ داری تھی۔‘
الراجحی کا کہنا تھا کہ ’العزیزیہ کے علاقے کی تعمیراتی سائٹ پر ایک ہزار سے زیادہ مزدور تھے جو ایک کنٹریکٹر کی نگرانی میں کام کرتے تھے انہیں یومیہ کھانے کی مد میں 8 ریال ملتے تھے۔‘
مزدوروں کو کھانا فراہم کرنے کا خیال آیا۔ یومیہ ایک ہزار مزدوروں کے کھانے پر کافی رقم خرچ ہوتی تھی۔ میں نے سوچا کہ کیوں نہ سائٹ پر کیٹرنگ سروس شروع کردی جائے۔
اس طرح کام کے دوران اپنے پہلے کاروبار کا باقاعدہ آغاز کیا۔ یہ الگ بات تھی کہ میرا پروجیکٹ کامیاب نہ ہو سکا۔ اس کی وجہ تھی کہ مزدوروں کو روزانہ مرغی چاول کھانا پسند نہ تھا وہ مختلف کھانے کے طالب تھے جس پر انہوں نے کنٹریکٹر سے میری شکایت کی۔
انہوں نے کہا کہ ’مکہ میں 6 ماہ بڑی مشکل سے گزرے جبکہ پروجیکٹ 3 برس کا تھا اب میں واپس ریاض گیا جہاں والد صاحب سے کہا کہ میرا حساب کردیں میں اور وہاں کام نہیں کرسکتا۔ حساب کر کے مجھے چیک دیا گیاجو 5 لاکھ ریال کا تھا۔‘
’والد صاحب سے جان بوجھ کر چیک پر غلط دستخط کیے میں نے چیک لیتے ہی اسے نوٹ کیا کہ دستخط غلط ہیں جس پر فوری طورپر اس کی نشاندہی کی تو والد صاحب نے ہنستے ہوئے دوسرا چیک تھما دیا۔‘