Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سینیٹ الیکشن یا اختلافات؟ 2 ہفتے بعد بھی بلوچستان کابینہ نہ بن سکی

وزیراعلٰی سرفراز بگٹی کے مطابق مخلوط حکومتوں میں زیادہ سے زیادہ مشاورت کی ضرورت ہوتی ہے۔ (فوٹو: پی آئی ڈی)
وفاق اور ملک کے باقی تین صوبوں میں کابینہ تشکیل دے دی گئی ہے تاہم بلوچستان میں وزیراعلٰی کے حلف اٹھانے کے دو ہفتے سے زائد گزرنے کے باوجود کابینہ نہیں بنائی جا سکی ہے۔
حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ اتحادیوں اور سیاسی جماعتوں کے اندر اختلافات کے باعث اس عمل میں مزید تاخیر ہوسکتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی قیادت سینیٹ کے انتخابات کے بعد وزارتیں تقسیم کرنا چاہتی ہیں۔
بلوچستان میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی مخلوط حکومت قائم ہے۔ بلوچستان عوامی پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی، جماعت اسلامی، حق دو تحریک اور ایک آزاد رکن نے بھی حکومت کی حمایت کر رکھی ہے۔ اس طرح 65 رکنی ایوان میں حکومتی اتحادیوں کی تعداد 45 ہے۔
دونوں بڑی جماعتوں میں شامل ارکان اسمبلی کے ساتھ ساتھ باقی چھوٹی جماعتیں بھی وزارتوں کے حصول کی خواہشمند ہیں تاہم اٹھارہویں ترمیم کے تحت صوبے میں 14 وزرا اور پانچ مشیروں سے زائد حجم کی کابینہ تشکیل نہیں دی جا سکتی۔
مسلم لیگ (ن) بلوچستان کے صوبائی صدر شیخ جعفر مندوخیل نے اردو نیوز کو بتایا کہ حکومت سازی کے حوالے سے طے شدہ معاہدے کے تحت وزارت اعلٰی پیپلز پارٹی کو دینے کے بعد کابینہ میں 60 فیصد حصہ مسلم لیگ (ن) کو ملے گا یعنی آٹھ  وزرا اور دو مشیر مسلم لیگ (ن) سے لیے جائیں گے۔ باقی وزارتیں پیپلز پارٹی کو ملیں گی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اتحادیوں کے درمیان کابینہ کی تشکیل میں کوئی اختلاف نہیں لیکن سب اپنی اپنی بھاگ دوڑ ضرور کر رہے ہیں کہ اچھی اور اہم وزارتیں لے سکیں۔ یہ بھاگ دوڑ جماعتوں کے اندر بھی اور اتحادیوں کے آپس میں بھی چل رہی ہے۔‘
حکومتی ذرائع نے اردو نیوز کو بتایا ہے کہ پیپلز پارٹی نے ن لیگ کی جانب سے آٹھ وزارتیں اور مشیر کے دوعہدے دینے سے انکار کیا ہے۔ اس بابت ن لیگ کے صوبائی صدر جعفر مندوخیل کا کہنا تھا کہ ابھی تک کابینہ کے حوالے سے معاملات طے نہیں پائے جا سکے ہیں۔ ہم نے اپنا مطالبہ پیپلز پارٹی کے سامنے رکھا ہے آئندہ تین چار دنوں میں اس پر مشاورت ہو گی، دیکھتے ہیں کیا فیصلہ ہوتا ہے۔
جعفر مندوخیل کا کہنا تھا کہ باقی جماعتوں کو اگر وزارتیں دینی ہیں تو وہ پیپلز پارٹی کو اپنے کوٹے میں سے دینا پڑیں گی۔

بلوچستان میں کبھی کسی پارٹی کو اسمبلی میں اکثریت نہیں ملی۔ (فوٹو: اے ایف پی)

بلوچستان میں نواب اسلم رئیسانی کے دور میں پوری اسمبلی میں صرف ایک رکن اپوزیشن میں شامل تھے اور 65 میں سے لگ بھگ 60 ارکان کو کابینہ کا حصہ بنایا گیا تھا تاہم اس کے بعد اٹھارہویں ترمیم لا کر کابینہ کے حجم کو محدود کر دیا گیا تھا۔
بلوچستان میں پچھلی کئی حکومتوں کی تشکیل کے معاملات کو قریب سے دیکھنے والے صحافی و تجزیہ کار عرفان سعید کا کہنا ہے کہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد بلوچستان میں وزارتوں کی تقسیم  ہر وزیراعلٰی کے لیے ایک مشکل عمل رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ صوبے میں کبھی کسی ایک جماعت کو اکثریت نہیں ملی ہمیشہ مخلوط حکومت قائم ہوتی ہے آج کی حکومت میں بھی کئی جماعتیں شامل ہیں اس لیے سب کو ساتھ لے کر چلنا اور خوش کرنا وزیراعلٰی کے لیے آسان نہیں ہوتا۔
عرفان سعید کے مطابق ’ن لیگ کی تو خواہش ہے کہ کابینہ اور حکومت میں مزید جماعتیں شامل نہ ہو لیکن پیپلز پارٹی اپنی صوبائی حکومت کو مضبوط دیکھنا چاہتی ہے۔ اس لیے عددی طور پر ضرورت نہ ہونے کے باوجود وہ نہ صرف چھوٹی اتحادی جماعتوں بلکہ نیشنل پارٹی اور جے یو آئی  جیسی اپوزیشن کی جماعتوں کو بھی ساتھ لے کر چلنا چاہتی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ نہ صرف اتحادی جماعتوں کا آپس میں بلکہ سیاسی جماعتوں کے اندر بھی وزارتوں کی تقسیم کے حوالے سے سنگین اختلافات پائے جاتے ہیں۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ میں سیاسی ہم آہنگی کا فقدان نظر آرہا ہے۔ ان جماعتوں میں زیادہ تر الیکٹ ایبلز شامل ہو کر منتخب ہوئے ہیں۔ وہ اچھی وزارتیں حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ جیسے صحت، تعلیم، تعمیرات و مواصلات، ترقی و منصوبہ بندی اور محکمہ آبپاشی جس میں فنڈز اور ملازمتیں زیادہ ہیں۔
حکومت کی حمایت کرنے والے حق دو تحریک کے رکن بلوچستان اسمبلی مولانا ہدایت الرحمان کا کہنا تھا کہ باقی صوبوں میں کابینہ کی تشکیل ہو گئی ہے لیکن یہاں سینٹ کے انتخابات کا انتظار کیا جا رہا ہے تاکہ اراکین اسمبلی کہیں بک نہ جائیں۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کو پتہ ہے کہ ان کے اراکین اسمبلی سینیٹ میں بک جائیں گے اس لیے کابینہ کی تشکیل میں تاخیر کر رہی ہیں۔ بلوچستان کو منڈی بنادیا گیا ہے یہ باعث شرمندگی ہے۔

مولانا ہدایت الرحمان الیکشن 2024 کے انتخابات میں صوبائی نشست حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ (فائل فوٹو)

تجزیہ کار عرفان سعید بھی یہ سمجھتے ہیں کہ کابینہ کی تشکیل اپریل میں سینیٹ کے انتخابات کے بعد ہو گی کیونکہ حکومتی جماعتوں کو خدشہ ہے کہ  ٹکٹس کی تقسیم  پر ان کے ارکان اسمبلی ناراض ہو کر ادھر ادھر جا سکتے ہیں اس لیے وہ وزارتوں کا لالچ دے کر انہیں قابو میں رکھنا چاہتی ہیں۔
تاہم وزیراعلٰی بلوچستان سرفراز بگٹی نے میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے اس تاثر کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ افواہیں پھیلانا مناسب بات نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ مخلوط حکومتوں میں زیادہ سے زیادہ مشاورت کی ضرورت ہوتی ہے اور مشاورت کے لیے وقت اور فراغت چاہیے۔ صدارتی انتخابات، سینٹ کے ضمنی انتخاب کے بعد سینیٹ کے انتخابات سر پر آگئے ہیں۔
وزراعلٰی کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور دیگر جماعتوں کے نمائندوں پر مشتمل کمیٹی صوبائی کابینہ کی تشکیل کے لیے مشاورت کر رہی ہے۔ جلد کابینہ کو حتمی شکل دے دی جائے گی۔

شیئر: