بلوچستان میں ایک ہی دن میں کوئلوں کی دو مختلف کانوں میں آنے والے حادثات میں پانچ کان کنوں کی موت ہوگئی۔
چیف انسپکٹر مائنز بلوچستان عبدالغنی کے مطابق ’بدھ کو ہرنائی کے علاقے شاہرگ میں پاکستان منرل ڈویلپمنٹ کارپوریشن کے زیرِانتظام کوئلے کان میں گیس کے باعث دو کان کن دم گھٹنے سے ہلاک ہو گئے۔‘
’مرنے والے دونوں کان کنوں کی لاشیں نکال لی گئی ہیں۔ کان کنوں کی شناخت باری اور لالی کے نام سے ہوئی جن کا تعلق بلوچستان کے ضلع پشین سے تھا۔‘
چیف انسپکٹر مائنز نے بتایا کہ ’دوسرا حادثہ دکی میں پیش آیا جہاں ایک کوئلہ کان میں اُترنے والے دو کان کن گیس سے دم گھٹنے کے باعث بے ہوش ہوگئے۔‘
’پھنسے ہوئے کان کنوں کو بچانے کے لیے اُن کا ایک ساتھی کان میں اُترا تو وہ بھی بے ہوش ہوگیا۔ بعد ازاں امدادی ٹیموں نے موقع پر پہنچ کر کان کنوں کو باہر نکالا تو تینوں دم توڑ چکے تھے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’کان کنوں کی شناخت افغانستان کے رہائشی عبدالرسول، ہمایوں اور محمد ناصر کے نام سے ہوئی۔ تینوں کی میتیں ان کے آبائی علاقےوں کو روانہ کردی گئی ہیں۔‘
عبدالغنی نے کہا کہ ’دونوں کوئلہ کانوں کو گیس جمع ہونے کی شکایات پر گذشتہ کئی ماہ سے بند رکھا گیا تھا اور کان کنوں کو نیچے اُترنے سے منع کیا گیا تھا۔‘
’تاہم کان کن اپنی مرضی سے گیس کی مقدار معلوم کرنے کے لیے نیچے اُترے اور حادثے کا شکار ہوگئے۔‘
پاکستان میں سب سے زیادہ کوئلہ بلوچستان میں پایا جاتا ہے۔ یہاں کا کوئلہ اینٹوں کے بھٹوں اور بجلی کے پاور پلانٹس سمیت کئی شعبوں میں استعمال ہوتا ہے۔
کوئلہ کانوں میں حفاظتی انتظامات اور سہولتوں کی عدم دستیابی کے باعث حادثات معمول ہیں اور ہر سال درجنوں کان کنوں کی جان چلی جاتی ہے۔
مائنز انسپکٹریٹ کے مطابق ’صرف رواں سال کے پہلے چار ماہ کے دوران اب تک 29 کان کن مختلف حادثات میں اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔‘