انڈین انتخابات کا چھٹا مرحلہ، محبوبہ مفتی سے مینکا گاندھی تک کون کون مدمقابل؟
واجپائی اور مودی کی حکومتوں میں وزیر رہنے والی مینکا گاندھی اتر پردیش سے الیکشن لڑ رہی ہیں۔ فائل فوٹو: این ڈی ٹی وی
انڈیا میں عام انتخابات کا چھٹا مرحلہ آج شروع ہو گیا ہے۔
این ڈی ٹی وی کی ایک رپورٹ کے مطابق اس مرحلے کے دوران چھ ریاستوں اور ایک یونین ٹیریٹری میں ووٹرز اپنے حق رائے دہی کا استعمال کر رہے ہیں۔
اس مرحلے میں کُل 889 امیدوار میدان میں ہیں۔
اس مرحلے کے دوران انڈین دارالحکومت دہلی سے لوک سبھا کی تمام سات نشستوں پر انتخابات کا انعقاد ہو رہا ہے۔
کئی اہم اور جانے پہچانے چہرے اس مرحلے میں انتخابی میدان میں اُترے ہیں جن میں سابق وزیر مینکا گاندھی، کشمیری لیڈر محبوبہ مفتی اور گلوکار منوج تیواری شامل ہیں۔
دیگر اہم امیدواروں میں ہریانہ کے سابق وزیراعلٰی منوہر لعل کھتر اور جے این یو کے سابق سٹوڈنٹ یونین صدر کنہیا کمار سرفہرست ہیں۔
محبوبہ مفتی
سابقہ ریاست جموں و کشمیر کی سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی اس بار اننت ناگ، راجوری سے لوک سبھا کی سیٹ پر اپنی جماعت پی ڈی پی کی امیدوار ہیں۔
اننت ناگ، راجوری کا لوک سبھا کا حلقہ، جو حد بندی کے بعد اننت ناگ کی سیٹ کی جگہ لے چکا ہے، میں 7 مئی کو انتخابات ہونے تھے، لیکن خراب موسم کی وجہ سے پولنگ ملتوی کر دی گئی۔
محبوبہ مفتی کا مقابلہ نیشنل کانفرنس کے امیدوار اور مذہبی رہنما میاں الطاف لاروی سے ہے۔ پی ڈی پی اور نیشنل کانفرنس دونوں انڈین اپوزیشن بلاک کے رکن ہیں، لیکن سیٹوں کی تقسیم پر علاقائی اتحاد ٹوٹنے کے بعد دونوں اب ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں۔
منوج تیواری
شمال مشرقی دہلی سے دو بار کے رکن پارلیمنٹ رہنے والے منوج تیوار وفاقی دارالحکومت میں واحد موجودہ رکن پارلیمنٹ ہیں جنہیں اس الیکشن میں بی جے پی نے امیدوار برقرار رکھا ہے۔
منوج تیواری سیاست میں آنے سے پہلے بھوجپوری فلم انڈسٹری میں ایک مقبول اداکار اور گلوکار تھے، وہ دہلی کی بی جے پی یونٹ کے سربراہ کے طور پر بھی خدمات انجام دے چکے ہیں۔
سنہ 2019 کے الیکشن میں انہوں نے دہلی کی سابق وزیراعلیٰ شیلا دکشت کو ساڑھے تین لاکھ ووٹوں کے فرق سے شکست دی۔
اس بار دہلی کی سات لوک سبھا سیٹوں پر عام آدمی پارٹی اور کانگریس نے انتخابی اتحاد کیا ہے۔ اور بی جے پی کے لیڈر کو کانگریس کے امیدوار کنہیا کمار کا سامنا ہے۔
کنہیا کمار
37 سالہ کنہیا کمار پہلی بار 2016 میں سرخیوں میں آئے جب دہلی پولیس نے انہیں پارلیمنٹ حملے کے مجرم افضل گرو کی پھانسی کی دوسری برسی کے موقع پر جے این یو کیمپس میں منعقدہ ایک تقریب کے سلسلے میں غداری کے الزام میں گرفتار کیا۔
سنہ 2019 کے انتخابات میں انہوں نے بہار کے بیگوسرائے سے سی پی آئی کے امیدوار کے طور پر الیکشن لڑا لیکن وہ بی جے پی کے لیڈر اور مرکزی وزیر گری راج سنگھ سے 4 لاکھ سے زیادہ ووٹوں سے ہار گئے۔
اب کانگریس کے ٹکٹ پر عام آدمی پارٹی کے اتحاد سے کنہیا کمار شمال مشرقی دہلی میں بی جے پی کے منوج تیواری کے خلاف میدان میں ہیں۔
دونوں امیدوار مشرقی اتر پردیش اور مغربی بہار کا احاطہ کرنے والے پوروانچل علاقے کے تارکین وطن کے ووٹوں کے حصول کی دوڑ میں ہیں۔
بنسوری سوراج
بی جے پی کی مضبوط رہنما اور سابق وزیر خارجہ آنجہانی سشما سوراج کی بیٹی، نئی دہلی کی اس سیٹ سے الیکشن لڑ رہی ہیں جو 2014 سے بی جے پی کے پاس ہے۔
یونیورسٹی آف واروک اور آکسفورڈ یونیورسٹی کی سابق طالب علم بنسوری سوراج سپریم کورٹ میں وکالت کی پریکٹس کرتی ہیں۔
اپنے پہلے انتخابی معرکے میں وہ عام آدمی پارٹی کے سومناتھ بھارتی کے خلاف ہیں، جو دہلی کے مالویہ نگر سے تین بار ایم ایل اے رہ چکے ہیں۔
مینکا گاندھی
اٹل بہاری واجپائی اور نریندر مودی دونوں کی قیادت والی بی جے پی حکومتوں میں وزیر کے طور پر کام کرنے والی چار بار کی ایم پی مینکا گاندھی اتر پردیش کے سلطان پور سے الیکشن لڑ رہی ہیں، جہاں سے وہ موجودہ رُکن پارلیمنٹ ہیں۔
گاندھی خاندان کی ایک اجنبی رکن سمجھی جانے والی منیکا گاندھی کا مقابلہ سماج وادی پارٹی کے رام بھول نشاد سے ہے۔
رام بھول نشاد کو اپوزیشن کے انتخابی اتحاد انڈیا بلاک کے سیٹ شیئرنگ معاہدے کے حصے کے طور پر کانگریس کی حمایت حاصل ہے۔
منیکا گاندھی کے بیٹے ورون پیلی بھیت سے موجودہ ایم پی ہیں۔ اُن کو اس بار بی جے پی نے پارٹی پالیسی سے مختلف بیانات دینے پر ٹکٹ دینے سے انکار کر دیا تھا۔
منوہر لال کھتر
ہریانہ کے سابق وزیراعلٰی کو اس بار بی جے پی نے لوک سبھا کے لیے میدان میں اُتارا ہے۔ وہ کرنال لوک سبھا سیٹ سے الیکشن لڑیں گے، جو گزشتہ ایک دہائی سے بی جے پی کے پاس ہے۔
منوہر لعل نے موجودہ ایم پی سنجے بھاٹیہ کی جگہ لی ہے۔ 70 سالہ سابق وزیراعلیٰ کا مقابلہ کانگریس کے دیویانشو بدھی راجہ سے ہے، جو ہریانہ میں یوتھ کانگریس یونٹ کی قیادت کرتے ہیں۔
اس حلقے میں این سی پی کے شرد پوار دھڑے اور دشینت چوٹالہ کی قیادت والی جننائک جنتا پارٹی، جو بی جے پی کی سابق اتحادی جماعت ہے، نے بھی امیدوار کھڑے کیے ہیں۔