بڑی طا قتو ں کے چھو ٹے مما لک پر جھپٹنے،دھو نس جمانے کی منہ بو لتی تصویر ہمارے ہاںصرف کا غذ وں تک محدود ہیں،طا قت ور کی جہا لت، عقل مند وں کو رو ند رہی ہے،کو ئی شعبہ ز ندگی ایسا نہیں جو ’’ جس کی لا ٹھی ،اس کی بھینس‘‘ جیسی من مانی سے محفو ظ ہو
* * *تسنیم امجد ۔ ریا ض* * *
زما نہ قدیم میں ایسا وحشیا نہ دوربھی گزرا ہے جس میں اخلا قی ضا بطوں کا فقدان تھا ۔ جس کی لا ٹھی اس کی بھینس کا معاملہ تھا ۔ان دنوں ہر کو ئی دوسرے کو اپنا مطیع بنانے کے چکر میں رہتا تھا ۔لوٹ ما ر بھی عروج پر تھی۔یہ دور غیر انسا نی روایات کا حامل قرار دیاجا سکتا تھا۔ وقت گز رنے کے ساتھ انسانی ضمیر میں تبدیلی آئی جس نے اسے اصولوں پر مبنی زندگی گزا رنے پر مجبو ر کیا ۔یہ اصول اخلا قیا ت پر مبنی تھے۔ ہمیں اس حقیقت کو مد نظر رکھنا چا ہئے کہ اخلا قی اقدار کا احترام کر نے والا معا شرہ ہی با م عروج کو پہنچتا ہے ۔قا نو ن انہی اخلا قی قدروں کی حفاظت کا ذمہ دارہوتا ہے ۔قا نو ن اور اخلا قیات کا چولی دامن کا ساتھ ہے ۔ حکو متیں عوام کے مختلف گرو ہو ں میں بہتر تعلقات کے قیام اور امن سے بھر پو ر زندگی کے لئے قوا نین کا نفا ذ عمل میں لا تی ہیں تا کہ عوام کی زندگی متوازن ہو ۔اس کے بغیر افرا تفری اور بے یقینی کا غلبہ ہو گا ۔
دھنک کے صفحے پر دی گئی تصویر آج کے مہذ ب دور میں چھینا چھپٹی کی نشا ندہی کر رہی ہے۔یہ تیسری دنیا کے مما لک کے اندرو نی حالات اور بڑی طا قتو ںکے چھو ٹے مما لک پر جھپٹنے اور دھو نس جمانے کی منہ بو لتی تصویرہے ۔ معاشرے میں طا قتور اور کمز ور افراد اکٹھے بستے ہیں۔قا نو ن کا اولین مقصد یہی ہے کہ وہ کمز و رو ں کے حقوق کا تحفظ کرے تا کہ ان کی آزادی کوئی طا قتور سلب نہ کر سکے ۔اس کا مقصد افراد میں تعا ون اور با ہمی مر وت کو فرو غ دینا ہے۔ فلا حی ریا ست کے تصور نے قا نو ن کی ذمہ داریا ں بڑ ھا دی ہیں۔اب یہ ایک خو شحال زندگی فرا ہم کر نے کا بھی ذمہ دار ہے ۔
اس مختصر تفصیل کے بعد آئیے !وطن عزیز کے حالات کا جا ئزہ لیتے ہیں کہ ہم کہا ں تک اپنے قوانین سے مستفیدہو رہے ہیں: افسوس سے کہنا پڑ تا ہے کہ یہ صرف کا غذ وں تک محدود ہے۔ طا قت ور کی جہا لت، عقل مند وں کو رو ند رہی ہے۔کو ئی شعبہ ز ندگی ایسا نہیں جو ’’ جس کی لا ٹھی ،اس کی بھینس‘‘ جیسی من مانی سے محفو ظ ہو۔پو لیس خود کر پشن میں پیش پیش ہے ۔نہ جا نے حب ا لو طنی کا جذ بہ کہاں کھو گیا؟ گز شتہ ہفتے ایک عز یز کا بیٹا سخت پریشانی میں نظر آیا ،بتانے لگا کہ میرا فز کس کا پر چہ تو بہت اچھا ہو گیا تھا لیکن پریکٹیکل کی فکر لگی ہے کیو نکہ ٹیچر کی بات بابا نے نہیں ما نی تھی۔وہ مجھے ٹیو شن پڑ ھا نے کا کہہ رہے تھے ۔میں کمرہ امتحان سے با ہر آیا تو مجھے روک کر پہلے تو پو چھا کہ پر چہ کیسا ہوا پھر بو لے ،پر چہ جتنا بھی اچھا ہوا ہو، کو ئی فائدہ نہیں جب تک میں پریکٹیکل میں پا س نہ کروں، تم پاس نہیں ہو سکتے۔اپنے باپ سے کہنا کہ تمہارے بیٹے کے مستقبل کی چا بی میر ے ہا تھ میں ہے ۔یہ کہہ کر وہ تو مو ٹر سا ئیکل پر سوارہو کر چل دیئے لیکن میں ہکا بکا کھڑے کا کھڑا رہ گیا ۔بابا بھی یہ سن کر پریشان ہو ئے۔
لمحۂ فکر یہ یہ ہے کہ جب قو م کے معماران کا یہ حا ل ہو گا تو امید کس سے رکھی جا سکتی ہے ؟اسی طرح ہر محکمے میں رشوت کا با زا ر گرم ہے۔ صداقت اور دیا نت داری جوہمیشہ سے ہما ری پہچا ن رہی، وہ آج عنقا ہو رچکی ہے ۔اسے چراغ لے کر تلاش کر یں تو بھی ناکامی ہاتھ آتی ہے ۔آج وہی کا میا ب ہے جو چھینا چھپٹی سب سے بہترجا نتا ہے۔انسانی زند گی کی کو ئی وقعت ہی نہیں رہی ۔حال ہی میں ایک بے چارہ سینیٹری ور کر ڈاکٹروں کی بے حسی کا شکار ہو کر جان کی بازی ہار گیا ۔ڈاکٹروں نے اسے ہاتھ لگا نے سے انکار صرف اس لئے کیا تھاکہ اس کے اوپر گٹر کی گندگی لگی تھی ۔ ذرا سو چئے یہ کہاں کی انسانیت ہے اور کہاں کی اخلاقیات ؟ ایسے بے شمار واقعات ہمارے اردگرد بکھر ے ہما را منہ چڑا رہے ہیں۔کا ش ہمیں احساس ہو جا ئے کہ ان گنا ہو ں کی سزا دنیا میں بھی ضرورملتی ہے ۔غریب بے چا رہ رو ٹی کی فکر میں کبھی گردے بیچتا ہے اور کبھی اپنے جگر کے ٹکڑوں کی بو لی لگا دیتا ہے ۔ شا عر نے صحیح کہاہے کہ:
مر جھا گئے ہیں دل یہا ں
انسا نیت ہے اب کہا ں
لو گو ں کے دل پتھر ہو ئے
اک گھر میں ما تم پھر بچھا
فا قے میں تھا سا را ہی گھر
لو گو ں پہ تھی ان کی نظر
کچھ تو کو ئی دے جا ئے گا
آخر کرم ہو جا ئے گا
اسی تصویر کا دوسرا رخ مما لک کے درمیا ن’’ ٹگ آف وار‘‘ ہے ۔جس کے پاس پا ور زیادہ ہے، وہ چھو ٹے ممالک کے ساتھ زورآزمائی کر کے تیس مار خان بننا چا ہتا ہے۔بین ا لا قوامی قانون خاموش تما شا ئی بنا ٹوٹ پھوٹ کا نظارہ کرتا ہے جبکہ اس کا فرض ہے کہ علاقا ئی مسا ئل کو، جو بڑی جنگو ں کی صورت اختیار کر سکتے ہیں ، با ہمی افہام و تفہیم اور بین ا لا قوامی قرار دادوں کے ذریعے حقیقت پر مبنی دلا ئل اور اثبات سے حل کر نے کی کو شش کرے۔اقوام متحدہ اور بین ا لا قوامی برادری اگر اس چھینا چھپٹی کا قلع قمع نہیں کر سکتیں تو پھرانہیں اپنی بڑا ئی اور بین ا لاقوامی حیثیت کے گُن گانے کا بھی کوئی حق نہیں۔ ہر قوم اپنے وطن کی حفا ظت چا ہتی ہے اور حب ا لوطنی سے سرشار ہونے کے باعث جنگ کا را ستہ اختیار کرنے پر مجبور ہو تی ہے۔ اس طرح طاقت آزمانے کے شو ق میں پو ری دنیا جنگ کی لپیٹ میں آ سکتی ہے ۔مزید بر آں عا لم اسلام کے تمام مسلمان ایک قو م کی حیثیت رکھتے ہیں۔
علامہ اقبا ل کا فر ما ن ہے کہ جب کو ئی فرد کسی منظم انسا نی گروہ کے ساتھ ایک جزو کی حیثیت سے زندگی گزارتا ہے تو اس کا وجود دنیا کو محسوس ہو تا ہے لیکن جس وقت وہ اپنے تعلقات قوم سے منقطع کر لیتا ہے تو اس کی کو ئی حیثیت نہیں رہتی ۔ہم مسلمانوںکو یہ حقیقت مدنظر رکھنی چا ہئے کہ:
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
مو ج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں
اتفاق و اتحاد سے کمزورلوگوں میں بھی بے پناہ قوت آ جا تی ہے۔پانی کا قطرہ اپنی انفرا دی حیثیت سے با لکل غیر اہم ہے مگر جب یہی قطرہ سمندر کی طو فا نی مو جو ں کا حصہ بنتا ہے تو لا کھو ں من وزنی جہا ز اس کے تھپیڑوں سے پنا ہ ما نگتے ہیں اور چٹا نیں اس کے سا منے سر خم کر دیتی ہیں۔اس حقیقت کو مز ید یو ں واضح کیا گیا ہے کہ:
ڈالی گئی جو فصل خزاں میں شجر سے ٹوٹ
ممکن نہیں ہری ہو سحاب بہار سے
ہے لا زوال عہد خزاں اس کے واسطے
کچھ واسطہ نہیں ہے اسے بر گ و با ر سے
ملت کے ساتھ را بطہ استوار رکھ
پیو ستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ
وطن عزیز میں آج یکجہتی کی اشد ضرورت ہے۔آپا دھا پی سے کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آسکتا کیو نکہ پہچا ن تو وطن سے ہی ہے۔اس پر آنچ آنے سے ہما را وجود کچھ نہیں رہے گا ۔یہی احساس ایک ہو نے کے لئے کا فی ہے۔ہمیں انفرادی سطح پر اپنا اپنا محاسبہ کر نا چا ہئے ۔ ذرا غور کیجئے مسلما نو ں کی تعداد دنیا بھر میں ایک ارب سے زیادہ ہے اور پچا س سے زا ئد مسلم مما لک دنیا کے نقشے پر موجود ہیں مگر پھر بھی ہم اغیار کے سامنے سر نگو ںہیں؟ اگر چہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بے شمار معد نی وسا ئل سے نوا زا ہے۔ اتحاد بین المسلمین آج وقت کی پکار ہے۔ پا ر ٹی با زی کو با لا ئے طا ق رکھ کرحکمرا نو ں کا چنا ئو کر نے سے محب وطن لیڈ رو ں کا انتخاب ممکن ہو سکے گا ۔
بہتر زندگی کے تقا ضوں کے پیش نظر انتظامی مشینر ی کو مستحکم کر نے کے ساتھ ساتھ خود احتسابی بھی ضروری ہے ۔ وطن عزیز کے گو نا گو ں مسائل کا حل مشکل نہیں، بس مو ثر ذریعۂ عمل درکا ر ہے اور دین اسلام کے ز ریں ا صولو ں کو مد نظر رکھنا ضروری ہے۔