الوداعی کلمات خطبات نبی کریم ، صحابہؓ ، تابعین اور تبع تابعین سے منقول نہیں، یہ من گھڑت بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے
* * * * محمد آصف اقبال۔نئی دہلی* * *
عام طور پر ناکارہ اور کام چور لوگوں کی پہچان ہوتی ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریاں تو ادا نہیں کرتے لیکن چند دیگر خوشنودی کے کام انجام دے کر متعلقہ ذمہ دار کو خوش رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔اس کیلئے کبھی وہ جائز اور کبھی ناجائزطریقہ اختیار کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے ۔حقیقت یہ ہے کہ عام طور پر ذمہ دار یا افسر اپنے متعلقہ افراد سے باخبر ہوتا ہے اور وہ یہ بھی جانتا ہے کہ فلاں شخص جو اپنی ذمہ داری ادا نہ کرتے ہوئے دیگر حربے استعمال کر رہا ہے وہ دراصل اُس کی نظر میں قابل اعتماد بننے اور عرف عام میں اپنی ساکھ برقرار رکھنے کی ایک ناکام کوشش ہے ۔اس کے باوجود لوگ سمجھتے ہیں کہ افسرلاعلم ہے، ہماری کوششیں رنگ لائیں گی اور دوسروں پر ہم کو فوقیت حاصل ہو جائے گی۔
کچھ یہی معاملہ مذاہب میں عبادات میں غلو کے تعلق سے بھی ہے۔ چند لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ عبادات میں غلو کے دخول سے اپنے ان معبودانِ غیر حقیقی کے مخصوص بندوں میں شمار ہو جائیں گے جن میں عام لوگ نہیں ۔یہ معاملہ تو معبودانِ غیر حقیقی کا ہے لیکن وہ لوگ جو معبودِ حقیقی اور رب العا لمین کی عبادات کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں ،ان کو عبادات کا طریقہ، ان کی تعداد اور مقدار بھی متعین کرکے بتا دی گئی ہے ۔
اس کے باوجود وحدانیت کے قائل افراد کی بعض اوقات شدید خواہش ہوتی ہے کہ عبادت کے طریقہ اور تعداد میں کچھ اضافہ کر لیا جائے یا اگر اضافہ نہیں کر سکتے تو کچھ نئے رسم و رواج اورعقائد وافکار میں تبدیلی ہی لے آئیں تاکہ خواہشِ نفس کی تکمیل ہو جائے ساتھ ہی ہماری ساکھ بھی بحیثیت مسلمان برقرار رہے۔ممکن ہے کچھ ناسمجھ یا بھولے بھالے لوگ اس کے قائل ہوں لیکن معاملہ یہ ہے کہ یہ بھولے بھالے اور ناسمجھ لوگوں کا عمل نہیںبلکہ ان شاطر اور چالاک لوگوں کے حربے ہیں جو دین میں کجی پیدا کرنے کے درپے ہیں۔مقصد یہ ہے کہ امت کا شیرازہ بکھرجائے اوردینِ حنیف جن اوصاف و صفات سے مزین انسانوں کی تکمیل چاہتا ہے وہ نہ ہونے پائے۔
ایسے تمام مواقع پر یاد رکھنا چاہیے کہ دین میں کجی یا بے راہ روی کے نتیجہ میں نہ صرف امت منتشر المزاجی کا شکار ہوگی بلکہ رب غفور و رحیم کی نظر کرم سے بھی محروم ہو جائے گی۔معلوم ہوا کہ دین کے وہ کام جن کو عبادات کا درجہ دیا جاتا ہے ان میں کوئی نئی چیز پیدا کرنا، ان میں کمی یا زیادتی کرنا یا اس کی فکر اور عقیدے میں تبدیلی لانا،کارِ خیر نہیں بلکہ کارِ حرام ہے۔اسی لئے اللہ کے رسولنے فرمایا: "جس نے ہمارے دین میں کسی ایسی چیز کی ایجاد کی جو دین میں نہیں ہے تو وہ مردود ہے۔" مزید فرمایا : "جب کوئی قوم (دین میں ) نئی بات نکالتی ہے تو اس کے مثل ایک سنت اٹھالی جاتی ہے لہٰذا سنت کو مضبوط پکڑنا نئی بات نکالنے (بدعت) سے بہتر ہے۔" (مسند احمد بن حنبل)۔
اسی طرح ایک اور موقع پر اللہ کے رسولنے فرمایا: " بہترین بات اللہ کی کتاب ہے اور بہترین سیرت محمدؐ کی سیرت ہے اور سارے کاموں میں بدترین کام نئے نئے طریق ہیں اور ہر بدعت گمراہی ہے۔ "(صحیح مسلم)۔
آج امت مسلمہ دین وعبادت کے نام پر جن من گھڑت باتوںاور کاموں میں ملوث ہے ان میں ایک اہم مسئلہ رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو " جمعۃ الوداع"کہنا،سمجھنا اور برتنا بھی ہے۔ رمضان کے آخری جمعہ کو آج عرف عام میں جمعۃ الوداع کا نام دیا جاتا ہے، اس کے باوجود کہ یہ نام کتاب و سنت میں کہیں نہیں ملتا۔گرچہ یہ خیال کیا جا سکتا ہے کہ جس طرح ہجرت کے دسویں سال آپکے آخری حج کو حجۃ الوداع کہا جاتا ہے اسی طرح نبی کریمکے آخری رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو " جمعۃ الوداع"قرار دیا جا سکتا ہے لیکن سمجھنے کی بات یہ ہے کہ اللہ کے رسول نے حج صرف ایک مرتبہ ادا کیا اور وہی حج ،حجۃ الوداع بھی کہلایا لیکن رمضان کے روزے اور اس کے جمعہ ایک نہیں بلکہ بہت مرتبہ آپ کی عبادات کا حصہ رہے۔اس پس منظر میں یہ بات غلط ثابت ہوتی ہے کہ رمضان کے آخری جمعہ کو جمعۃ الوداع کہا جائے۔دیکھا جائے تو خصوصاً ہند و پاک، بنگلہ دیش اور اس کے علاوہ دیگر ممالک میں بھی رمضان کے آخری جمعہ میں خطبہ کے دوران خطباء ایسے اشعار پڑھتے اور تقاریر کرتے ہیں جن میں رمضان کے گزر جانے پر افسوس کیا جاتا ہے ۔
پھرہر ایک جملہ یا دو جملوں کے بعد کہتے ہیں "الوداع الوداع"یا کہتے ہیں"الفراق الفراق"یا کہتے ہیں"الوداع الوداع اے شہر رمضان"اور ان ہی جیسے دیگر الفاظ ومفاہیم بھی سامنے آتے ہیں جبکہ اس طرح اظہار افسوس اور ان الفاظ اور احساسات کا اظہار نہ مقتدمین اور نہ ہی متاخرین ِ محدثین نہ فقہا کی کتابوں اور نہ ہی خلفائے راشدین کے دورِ خلافت یا اس کے بعد کے دور میں ملتا ہے لہذا اس طرح کے خطبے روکنے چاہئیں کیونکہ:
٭یہ الوداعی کلمات پر مشتمل خطبات نبی کریم ، آپ کے صحابہ رضی اللہ اجمعین ، تابعین اور تبع تابعین سے منقول نہیں اور جو فعل ان تینوں زمانوں میں نہ پایا جائے وہ من گھڑت بدعت ہوتی ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔ ٭رمضان کے گزرنے پر افسوس کا اظہار غیر مشروع ہے کیونکہ روزے کا افطار تو فرحت کے اسباب میں سے ایک سبب ہے اور اس کی دلیل حضرت ابوہریرہؓ کی روایت کردہ وہ حدیث ہے جس میں اللہ کے نبی اکرم نے فرمایا: "روزہ دار کو2خوشیاں ملتی ہیں، ایک خوشی اس کو افطار کے وقت ہوتی ہے اور دوسری خوشی جب وہ اللہ تعالیٰ سے ملے گا، اُس وقت اس کو ملے گی۔"(بخاری و مسلم)۔ اور عید الفطر کے دن نمازِ عید تو مشروع ہے۔ رمضان کے روزے ختم ہونے اور ملک العلام کے حکم کو بجا لانے کی خوشی کی وجہ سے ہے تو پھر پریشان ہونے اور رمضان کا مہینہ گرزنے پر افسوس کا اظہار کرنے کی کوئی وجہ نہیں ۔
٭ اسلام کے پانچوں ارکان برابردرجہ کے ہیں اور رمضان کے گزرنے کی وجہ سے خصوصی طور پر غم کرنے کی کوئی دلیل نہیں اور نہ ہی اس کے بارے میں شریعت وارد ہوئی ہے، اور اگر یہ قیاس سے لیا ہے تو لازم آتا ہے کہ اس جیسی پریشانی اور تکلیف نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ ، ہر رکن کے بعد ہونی چاہیے اور اس کا کوئی بھی قائل نہیں۔جس طرح رمضان کے گزرنے اور دیگر عبادات نماز، حج اور زکوٰۃ کے اوقات گزرجانے کے درمیان فرق کسی عالم پر مخفی نہیں ،اسی طرح دیگر عبادات کے اوقات کے گزرجانے پرہمیں اظہارِ افسوس نہیں کرنا چاہیے۔
٭ آخری بات گرچہ وہ پہلے بھی کہی جا چکی ہے وہ یہ کہ نبی کریماور صحابہؓ کے طریق کی اتباع کرنے میں ہی مکمل خیر ہے اور ان تمام طریقوں، رسموں اور عرف ِ عام میں جاری و ساری باتوں سے پرہیز کیا جائے جو غیر شرعی کو شرعی اور غیر سنت کو سنت سمجھ لینے کے نتیجہ میں انجام دی جاتی ہیں کیونکہ ہر مباح جس کو التزام سے ادا کیا جائے وہ غیر مشروع ہو جاتا ہے اور جاہلوں کا عقیدہ خراب ہونے کی صورت میں اس مباح کا ترک کامل لوگوں پر واجب ہے تو علمائے کرام کو چاہیے کہ اس جیسا خطبہ پڑھنے کا التزام نہ کریں تاکہ یہ اس کے سنت ہونے کے اعتقاد تک نہ پہنچادے۔ جہاں تک کسی دن کی چھٹی کا تعلق ہے تو عام طور پر سرکاری اور نجی اداروں میں تہواروں اور مخصوص سرکاری دنوں کے مواقع پر ہی چھٹیاںدی یا لی جاتی ہیں لیکن آج ہمارے وہ ادارے جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں وہ رمضان المبارک کے آخری جمعہ کی چھٹی کا بھی مخصوص اہتمام کرتے ہیں۔سوچنا چاہیے اورزیر بحث لانا چاہیے کہ یہ مخصوص چھٹی ہم کیوں مناتے ہیں؟ جبکہ ہمارے ادارے سال کے بقیہ مہینوں میں بھی اور رمضان کے دیگر جمعوں میں بھی چھٹی نہیں کرتے ،توکیا وجہ ہے کہ رمضان کے آخری جمعہ میں اس چھٹی کا مخصوص اہتمام کیا جاتا ہے؟کیا ہم اس جمعہ کو تہوار کی شکل دینا چاہتے ہیں؟ یا اپنے قول و عمل سے اس کی مخصوص فضیلت بیان کرنا ہمارا مقصد ہے؟یہی وہ اعمال و افکار کے تضادات ہیں جن کی بنا پر عام مسلمان جمعۃ الوداع کے خطبہ کی خاص فضیلت سمجھتے ہوئے حاضر ہونے کا بہت اہتمام کرتے ہیں یہاں تک کہ اگر کوئی اس کو چھوڑ دے تو اس کو برے عقیدے والاگردانتے ہیں۔