اقوام متحدہ کا افغان طالبان کے ’اخلاقیات کے قانون‘ پر تشویش کا اظہار
اقوام متحدہ نے کہا کہ ’یہ قانون خواتین پر پہلے سے ہی نافذ پابندیوں میں اضافہ کرتا ہے۔‘ (فوٹو: روئٹرز)
افغانستان میں اقوام متحدہ کے مشن نے طالبان کے اخلاقیات کے اُس قانون پر تشویش کا اظہار کیا ہے جس کی حال ہی میں توثیق کی گئی ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق طالبان حکام نے بدھ کو اسلامی قوانین کی اپنی سخت تشریح کی بنیاد پر شہریوں کے طرز عمل اور طرز زندگی کے ضوابط کی وضاحت کرنے والے قوانین کی تشکیل کا اعلان کیا تھا۔
رواں سال 31 جولائی کو 35 شقوں پر مشتمل قانون کو سرکاری گزٹ میں شائع کیا گیا تھا جس میں ممنوعہ طرز عمل اور طرز زندگی کے بارے میں معلومات فراہم کی گئی تھیں۔
وزارت انصاف نے بدھ کو اپنی ویب سائٹ پر اعلان کیا تھا کہ طالبان کے سپریم لیڈر، ہیبت اللہ اخوندزادہ نے اس قانون کی منظوری دے دی ہے۔
افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن (یو این اے ایم اے) کی سربراہ روزا اوتن بائیفا نے کہا کہ ’یہ افغانستان کے مستقبل کے لیے تشویشناک امر ہے جہاں اخلاقی معائنہ کاروں کو خلاف ورزیوں کی وسیع اور بعض اوقات مبہم فہرستوں کی بنیاد پر کسی کو بھی دھمکیاں دینے اور حراست میں لینے کے صوابدیدی اختیارات حاصل ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’کئی دہائیوں کی جنگ کے بعد اور ایک خوفناک انسانی بحران کے دوران افغان عوام اس سے کہیں بہتر کے مستحق ہیں کہ اگر وہ نماز کے لیے دیر کر دیتے ہیں، مخالف جنس کے کسی ایسے فرد پر نظر ڈالیں جو خاندان کا رکن نہیں، یا کسی پیارے کی تصویر پاس رکھیں تو انہیں دھمکیاں دی جائیں یا جیل بھیج دیا جائے۔‘
اگست 2021 میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے قانون کے بہت سے اجزاء پہلے سے ہی غیر رسمی طور پر نافذ ہو چکے ہیں اور یہ واضح نہیں ہے کہ آیا ان کا باضابطہ میثاق جمہوریت سخت نفاذ کا باعث بنے گا۔
اقوام متحدہ کے امدادی مشن کی سربراہ روزا اوتن بائیفا نے کہا کہ ’یہ قانون افغان خواتین اور لڑکیوں کے حقوق پر پہلے سے ہی نافذ ناقابل برداشت پابندیوں میں اضافہ کرتا ہے، یہاں تک کہ گھر سے باہر خواتین کی آواز کو بھی بظاہر اخلاقی خلاف ورزی سمجھا جاتا ہے۔‘
قانون کہتا ہے کہ اگر خواتین گھر سے باہر نکلیں تو اپنے چہرے اور جسم کو ڈھانپیں اور ساتھ ہی اس بات کو یقینی بنائیں کہ ان کی آواز نہ سنی جائے۔
اقوام متحدہ نے قانون میں مذہبی اور صحافتی آزادیوں پر پابندیوں پر بھی تشویش کا اظہار کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ میڈیا کو شرعی قانون اور مذہب کے خلاف یا جانداروں کو دکھانے والا مواد شائع نہیں کرنا چاہیے۔