Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مہسا امینی کی دوسری برسی، ایرانی خواتین عوامی مقامات پر حجاب کے بغیر

مختلف ممالک میں مہسا امینی کی ہلاکت کے خلاف احتجاج ہوا تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)
ایرانی خاتون مہسا امینی کی موت کو واقع ہوئے دو برس گزرنے کو ہیں تاہم اس واقعے کے نتیجے میں پیدا ہونے والے حالات کے بعد سے عوامی مقامات پر کسی خاتون کو سکارف یا حجاب کے بغیر دیکھنا کوئی غیرمعمولی بات نہیں رہی۔ 
امریکی خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق سوشل میڈیا پر لوگوں یا اپنے روزمرہ معمول کے بارے میں بنائی گئی ویڈیوز میں خواتین اور لڑکیوں کو اپنی زلفیں کھولے دیکھا جا سکتا ہے۔
ملک کے نئے اصلاح پسند صدر مسعود پزشکیان نے اخلاقی پولیس کے ہاتھوں خواتین کو ہراساں کرنے کے واقعات کو روکنے کے وعدے پر صدارتی انتخابی مہم چلائی تھی۔ تاہم ملک میں حتمی فیصلے کا اختیار 85 برس کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے پاس ہے جنہوں نے ماضی میں کہا تھا کہ ’نقاب نہ کرنا مذہبی طور پر حرام ہے اور سیاسی طور پر بھی۔‘
ایران میں حجاب اور سیاہ چادر طویل عرصے سے ایک سیاسی علامت بھی رہی ہے۔
جمعے کو ایران پر اقوام متحدہ کے فیکٹ فائنڈنگ مشن نے خبردار کیا تھا کہ ’انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں، بین الاقوامی قانون کے تحت جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے لیے بامعنی ادارہ جاتی تبدیلیاں اور احتساب، متاثرین اور زندہ بچ جانے والوں، خاص طور پر خواتین اور بچوں کے لیے، اب بھی مشکل طلب کام ہے۔
22 برس کی مہسا امینی 16 ستمبر 2022 کو ایک ہسپتال میں اس وقت دم توڑ گئیں جب ملک کی اخلاقی پولیس نے مبینہ طور پر حکام کی پسند کے مطابق حجاب نہ لینے پر گرفتار کیا تھا۔
مہسا امینی کی موت کے بعد ہونے والے مظاہروں کا آغاز سب سے پہلے ’زن، زندگی، آزادی‘ کے نعرے سے ہوا تاہم مظاہرین کی جانب سے جلد ہی خامنہ ای کے خلاف بغاوت کے نعرے بھی بلند ہوئے۔
مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن میں 500 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے تھے اور 22 ہزار سے زیادہ حراست میں لیے گئے۔
مہسا امینی کی دوسری برسی کے موقعے پر آج تہران کی سڑکوں پر شام کے وقت خواتین کو بغیر حجاب دیکھا جا سکتا ہے۔ ویکنڈ پر دن کی روشنی میں بھی خواتین کو تفریحی مقامات پر بغیر سر ڈھانپے دیکھا گیا۔
تہران شریف یونیورسٹی کی 25 سالہ طالبہ کا کہنا ہے کہ سکارف نہ پہنے کی ہمت مہسا امینی کی میراث ہے۔ ’وہ آج میری عمر کی ہوتیں اگر ان کی موت واقع نہیں ہوتی۔‘

ایران میں مہسا امینی کی ہلاکت کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے تھے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

لباس کے قواعد و ضوابط کی پیروی نہ کرنا اب بھی خطرے سے خالی نہیں۔ مظاہروں کو روکنے کے مہینوں بعد ایران کی اخلاقی پولیس عوامی مقامات پر واپس آ گئی ہے۔
لیکن پھر بھی کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ جولائی میں پزشکیان کا انتخاب، حجاب پر کشیدگی کو کم کرنے میں مدد کر رہا ہے۔
38 برس کے کتب فروش حامد زارنژوئی کا کہنا ہے کہ ’میرے خیال میں موجودہ پُرامن ماحول پزشکیان کے اقتدار سنبھالنے کی وجہ سے ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ پزشکیان طاقتور لوگوں کو قائل کر سکتے ہیں کہ خواتین کو حجاب پر مجبور کرنے کے لیے پابندیاں ضروری نہیں۔
بدھ کو ایران کے پراسیکیوٹر جنرل محمد موحدی آزاد نے سکیورٹی فورسز کو حجاب پر بحث و تکرار شروع کرنے سے متعلق خبردار کیا تھا۔
ایرانی میڈیا کے مطابق موحدی آزاد نے کہا کہ ’ہم نے خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی، اور ہم کریں گے۔ لیکن کسی کو بھی نامناسب رویہ اختیار کرنے کا حق نہیں ہے اگر کسی سے جرم بھی سرزد ہوا ہو۔‘

شیئر: