Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر خان اور وزیراعلٰی مریم نواز کے درمیان تنازع کیا ہے؟

کچھ عرصے سے گورنر پنجاب ن لیگ کی حکومت سے خوش دکھائی نہیں دیتے (فائل فوٹو: فیس بک، پی ایم ایل این)
پاکستان کے صوبہ پنجاب میں مسلم لیگ ن کی حکومت ہے لیکن ایک سیاسی بندوبست کے تحت صوبے کی گورنر شپ پیپلز پارٹی کے حصے میں آئی۔
اٹک سے تعلق رکھنے والے پیپلز پارٹی کے رہنما سردار سلیم حیدر خان پنجاب کے گورنر بنائے گئے۔ بظاہر تو یہ بندوبست دونوں سیاسی جماعتوں ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی شراکت اقتدار کو متوازن رکھنے کے لیے بنایا گیا لیکن پچھلے کچھ وقت سے گورنر پنجاب ن لیگ کی حکومت سے خوش دکھائی نہیں دیتے۔
ان کی طرف سے پہلا محاذ اس وقت کھولا گیا جب پنجاب حکومت نے صوبے کی یونیورسٹیوں میں وائس چانسلرز لگانے کے لیے سمری بھیجی تو انہوں نے یہ کہہ کر دستخط کرنے سے انکار کر دیا کہ یہ فہرستیں میرٹ پر تیار نہیں کی گئی ہیں۔
صرف یہی نہیں بلکہ انہوں نے نئی آئینی ترمیم کے معاملے پر وزیراعظم شہباز شریف پر بھی تنقید کی۔ انہوں نے کہا کہ کسی جج کو ایکسٹینشن دینے سے عدلیہ متاثر ہو گی۔
ن لیگ نے پہلے پہل اس تنقید کو وائس چانسلرز کی تعیناتی میں ’حصہ داری‘ سے تعبیر کیا کہ گورنر اصل میں اپنی مرضی سے تقرریاں کرنا چاہتے ہیں۔ حال ہی میں گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر نے مریم نواز کی حکومت کو اس بات پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے کہ حکومت سرکاری سکولوں کو پرائیویٹ کیوں کر رہی ہے، یہ تعلیم کو تباہ کرنے کے مترادف ہے۔
یہ بیان ایسے وقت میں آیا ہے جب ایک ہی ہفتے میں بلاول بھٹو نواز شریف سے دو ملاقاتیں بھی کر چکے ہیں۔ تو ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ پیپلزپارٹی کے گورنر ن لیگ کی پنجاب کی حکومت سے نالاں کیوں ہیں؟
اس سوال کی کھوج کے لیے جب اردو نیوز نے گورنر ہاؤس کے ہی ایک اعلیٰ افسر سے رابطہ کیا تو انہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’بنیادی مسئلہ گورنر صاحب کے اپنے اضلاع میں افسران کی تقرری کا ہے۔ ایک تو افسران ان کی مرضی کے نہیں لگے اور کچھ افسران کو وہ تبدیل کروانا چاہتے ہیں تاہم حکومت کی جانب سے انکار کیا جا رہا ہے۔ لیکن ان بیانات کا کوئی سیاسی پس منظر ہو تو اس بارے میں کچھ کہا نہیں جا سکتا۔‘
اس صورت حال پر پیپلزپارٹی سے رابطہ کیا گیا تو پنجاب اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر علی قاسم گیلانی نے بتایا کہ ’اگر آپ کہیں کہ پیپلزپارٹی پنجاب میں حکومتی معاملات سے خوش ہے تو میں کہوں گا کہ نہیں ہے۔ جن چیزوں کا ہم سے تحریری وعدہ کیا گیا تھا وہ پوری نہیں ہوئی ہیں۔ ہماری ایک کمیٹی بھی بنی ہوئی ہے جس میں دونوں جماعتوں کے رہنما ہیں، میں بھی اس میں ہوں لیکن وہاں بھی بہت سست روی سے معاملات چل رہے ہیں۔ لیکن گورنر صاحب کے حالیہ بیانات اس کمیٹی کی سست روی کی وجہ سے نہیں ہیں۔ وہ جب بھی کرتے ہیں جائز تنقید ہی کرتے ہیں اور یہ ان کا حق ہے۔‘

وزیراطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری کا کہنا ہے کہ ’ہمیں تو حیرانی ہے کہ گورنر صاحب کو ہمیں بتانا پڑتا ہے کہ ان کا کام کیا ہے۔‘ (فائل فوٹو: گورنر ہاؤس)

علی قاسم گیلانی سے جب پوچھا گیا کہ کیا گورنر صاحب اپنے ضلعے میں افسران کی تقرریوں کے باعث حکومت سے ناراض ہیں؟ تو ان کا کہنا تھا کہ ’بالکل، یہ وجہ درست اور یہ جائز بات ہے۔ ایک گورنر اگر اپنے ضلعے میں ایک ایس ایچ او تبدیل نہ کروا سکے توغصہ تو آئے گا۔ آپ ہمیں دیکھ لیں ملتان میں ہماری تین سیٹیں ہیں، پی ٹی آئی کی دو اور ن لیگ کی ایک ہے لیکن وہاں بھی افسر ہماری مرضی کے نہیں لگے ہوئے۔ لیکن کوئی بات نہیں، ہمیں اس سے فرق نہیں پڑتا۔ گورنر ایک سیاست دان بھی ہیں اور انہوں نے مستقبل میں بھی اپنے ضلعے کی سیاست کرنی ہے۔ ان کے جائز مطالبات مانے جانے چاہییں۔‘
دوسری جانب وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری کا کہنا ہے کہ ’ہمیں تو حیرانی ہے کہ گورنر صاحب کو ہمیں بتانا پڑتا ہے کہ ان کا کام کیا ہے۔ حکومت کیسے چلنی ہے، یہ کام آئین نے ان کے ذمے نہیں لگایا۔ انہیں کبھی ہمارے سکولوں سے مسئلہ ہو جاتا ہے، کبھی یونیورسٹیوں سے۔ سندھ میں جہاں ان کی جماعت کی 16 برس سے حکومت ہے، وہاں سکولوں میں گدھے باندھے جاتے ہیں۔ شرح تعلیم کئی جگہوں پر صفر ہے۔ تو ہمیں وہ نہ بتائیں کہ ہم نے صوبہ کیسے چلانا ہے۔‘
انہوں نے تبادلوں سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ایسے بلیک میل کر کے کام نہیں لیے جاتے۔ مریم نواز کی حکومت میں صرف میرٹ چلتا ہے۔ یہ عثمان بزدار کی یا فرح گوگی کی حکومت نہیں کہ تبادلوں پر پیسہ بنایا جائے۔ اگر کسی کو میرٹ سے مسئلہ ہے تو ہم اس کا کچھ نہیں کر سکتے۔‘

شیئر: