پشاور میں منی ہائسٹ کی تھیم پر بنا ’بیلا چاؤ‘ ریستوران کیوں بند ہوا؟
پشاور میں منی ہائسٹ کی تھیم پر بنا ’بیلا چاؤ‘ ریستوران کیوں بند ہوا؟
بدھ 30 اکتوبر 2024 7:30
فیاض احمد -اردو نیوز، پشاور
ویٹرز چوروں کا لباس اور ماسک پہن کر کسٹمرز کو سروس فراہم کرتے تھے (فوٹو: بیلا چاؤ فیس بک)
بین الاقوامی فلم سیریز منی ہائسٹ نے پوری دنیا میں دھوم مچائی مگر اس سیریز کی تھیم پر بننے والا پشاور کا ریستوران ناکامی سے دوچار ہوا اور اپنے افتتاح کے صرف ڈیڑھ سال بعد ہی بند ہو گیا۔
بیلا چاؤ ریستوران کے مالک کا کہنا ہے کہ انہیں حکومت کی جانب سے بھاری ٹیکسوں کی وجہ سے اپنے کیفے کو بند کرنا پڑا۔
تہکال روڈ پر واقع اس کیفے میں ویٹرز منی ہائسٹ کے کرداروں یعنی چوروں کا لباس اور ماسک پہن کر کسٹمرز کو سروس فراہم کرتے تھے۔
اپنے منفرد انداز کی وجہ سے یہ کیفے شہریوں میں اتنا مقبول ہو گیا کہ کسی وقت بھی چلے جائیں کسٹمرز کا رش ہی دیکھنے کو ملتا۔
نہ صرف پشاور کے شہریوں بلکہ لاہور سے بھی وی لاگرز نے اس کیفے پر ویڈیوز بنائیں اور یہاں کے کھانے سے لطف اندوز ہوئے۔
ویسے تو اس ریستوران کے آس پاس دیگر فوڈ کمپنیوں نے اپنی فرنچائزز کھولیں لیکن سب سے زیادہ رونق ’بیلا چاؤ‘ میں ہی نظر آتی۔
کیفے کو بند کرنے کی وجہ کیا بنی؟
افتتاح کے ڈیڑھ سال بعد جب کیفے بند ہو گیا تو شہریوں کے ساتھ ساتھ ہوٹل اینڈ ریسٹورنٹ انڈسٹری سے جڑے افراد بھی تشویش میں مبتلا ہو گئے کہ آخر اتنے مشہور کیفے کو بند کیوں کر دیا گیا۔
بیلا چاؤ کیفے کے مالک شعیب خٹک نے اُردو نیوز کو بتایا کہ انہوں نے ساری جمع پونچی اس کاروبار پر لگا دی تھی۔ شہریوں کے لیے منفرد آئیڈیا لے کر آنے کا مقصد معیاری خوراک کے ساتھ تفریح کا موقع فراہم کرنا تھا۔
’کیفے نے اچھی شہرت حاصل کی مگر انتظامیہ کے روّیے اور حکومتی پالیسی نے کاروبار کو شدید نقصان پہنچایا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’ضلعی انتظامیہ کی جانب سے مختلف وجوہات پیش کر ک تنگ کیا جاتا رہا، ہم نے پھر بھی کاروبار جاری رکھا مگر نت نئے ناموں سے ٹیکسز کی بھرمار نے کیفے کو بند کرنے پر مجبور کر دیا۔‘
شعیب خٹک نے کہا کہ ’بیلا چاؤ ایک فیملی ریستوران تھا جس میں 20 سے زائد ملازمین کام کرتے تھے مگر ہمیں بھاری دل کے ساتھ یہ کیفے بند کرنا پڑا۔‘
پشاور میں صرف ’بیلا چاؤ‘ ہی نہیں بلکہ معروف یوٹیوبر کی جانب سے کھولا گیا ’خان ٹینر‘ کیفے جس کا ایک سال پہلے دھوم دھام کے ساتھ آغاز کیا گیا تھا، قلیل عرصے میں بند کردیا گیا۔
ریستورانوں کے کاروبار سے وابستہ معروف تاجر خالد ایوب نے اُردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ حکومت کی جانب 12 سے زائد قسم کے ٹیکسز لگائے گئے ہیں جو کاروباری افراد بالخصوص ہوٹل اینڈ ریسٹورنٹس مالکان کو ادا کرنا پڑ رہے ہیں۔
’وفاقی اور صوبائی حکومت کی جانب سے الگ الگ ٹیکسز وصول کئے جاتے ہیں۔ سب سے پہلے ایف بی آر کو ٹیکس ادا کرتے ہیں اس کے بعد صوبائی محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کی جانب سے پراپرٹی ٹیکس وصول کیا جاتا ہے۔‘
تاجر خالد ایوب کے مطابق بلڈنگ کے مالک پر الگ ٹیکس لاگو کیا جاتا ہے جبکہ کرایہ دار پر الگ سے پروفیشن ٹریڈنگ ٹیکس کے نام سے پیسے وصول کیے جاتے ہیں۔
انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’خیبرپختونخوا ریونیو اتھارٹی پھر الگ سے سیلز ٹیکس لیتی ہے۔ اسی طرح محکمہ سیاحت ، ٹاون کمیٹی سمیت درجنوں اقسام کے ٹیکسز لیے جاتے ہیں۔‘
خالد ایوب کا کہنا تھا کہ ’حکومت بے شک ٹیکس وصول کرے لیکن کاروباری افراد کو مواقع فراہم کرکے آسانی پیدا کرے۔ یہاں ضلعی انتظامیہ کے افسران مالکان کو ڈراتے دھمکاتے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’گزشتہ تین سالوں کے اندر پشاور یونیورسٹی روڈ پر پانچ مزید ریستوران بند ہوئے ہیں جن میں سے تین میرے ہیں۔‘
دوسری جانب خیبرپختونخوا چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی جانب سے موقف اپنایا گیا ہے کہ حکومت ایک جانب سرمایہ کاروں کو کاروبار کی دعوت دے رہی ہے دوسری جانب ان کے لیے سازگار ماحول کے بجائے مشکلات پیدا کررہی ہے۔
واضح رہے کہ اس معاملے پر اردو نیوز نے صوبائی حکومت سے ردعمل لینے کی کوشش کی مگر موقف نہ مل سکا۔