Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

گوگل سرچ نے 77 سال سے بچھڑے سرحد پار بھائیوں کو کیسے ملایا؟

یہ کہانی ہے ایک ایسے خاندان کی ہے جو سنہ 1947 کے ہنگاموں میں بچھڑ گیا تھا۔ فوٹو: سکرین گریب
’وہ نہایت ضعیف دکھائی دے رہے تھے۔ چہرے پر گہری جھریوں کی وجہ سے ان کی آنکھیں واضح دکھائی نہیں دے رہی تھیں لیکن میں جب بھی سوال کرتی تو ان کی آنکھوں سے آنسو ٹپکنا شروع ہو جاتے تھے۔ وہ ہر بات شروع کرنے سے پہلے ’ہم بچھڑ گئے‘ دہراتے اور اپنی داستان سناتے۔‘
یہ الفاظ ہیں انڈیا کے دارالحکومت دہلی میں قائم جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کی ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر نونیکا دتہ کے، جن کی بدولت انڈیا میں موجود مہندر سنگھ کو پاکستان میں اپنے بھائیوں کا سراغ ملا۔
مہندر سنگھ اور پاکستان میں ان کے سگے بھائیوں اللہ بخش اور نعمت علی کی کہانی سناتے ہوئے انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’یہ سنہ 1947 میں بچھڑنے والے بھائیوں کے ملاپ کی ایک ایسی کہانی ہے جس میں جدا ہونے والوں نے براہ راست بہت کم کوشش کی لیکن اوپر والا خود راستے بناتا گیا۔‘
ڈاکٹر نونیکا دتہ نے کیمبرج یونیورسٹی سے تاریخ میں پی ایچ ڈی کر رکھی ہے اور ان دنوں جواہر لال نہرو یونیورسٹی دہلی میں تاریخ پڑھاتی ہیں۔ ان کے آبا ؤ اجداد سنہ 1947 میں گاؤں ویرم دتاں تحصیل شکرگڑھ سے امرتسر ہجرت کر گئے تھے۔ آج کل وہ سنہ 1947 میں ہونے والی تباہ کاریوں اور ریڈ کلف ایوارڈ پر تحقیق کر رہی ہیں۔

مہندر سنگھ جو محمد شفیع تھے

یہ کہانی ہے ایک ایسے خاندان کی ہے جو سنہ 1947 کے ہنگاموں میں بچھڑ گیا تھا۔ اس وقت مہندر سنگھ انڈین پنجاب کے شہر فیروز پور میں آباد ہیں جبکہ ان کے بھائی اللہ بخش اور نعمت علی پاکستانی پنجاب کے شہر ننکانہ صاحب میں مقیم ہیں۔
مہندر سنگھ گل کا اپنا نام محمد شفیع بھٹی تھا لیکن سنہ 1947 میں بٹوارے کے بعد انہوں نے انڈیا کے ایک سکھ گھرانے میں پرورش پائی جہاں ان کا نام مہندر سنگھ گل پڑ گیا جبکہ ان کا باقی خاندان فیروز پور سے پاکستان پہنچ گیا۔
یہ گھرانہ ضلع فیروز پور میں مکھو نامی علاقے کے پاس بّلوکے گاؤں میں رہتا تھا۔ اس گاؤں میں مسلمان راجپوت اور کھرل خاندان آباد تھے۔ ان کے خاندان میں سے 28 افراد تقسیم کے وقت پاکستان پہنچے جبکہ باقی افراد منتشر ہو گئے اور کچھ نہر میں ڈوب گئے۔
مہندر سنگھ کے والد کا نام چراغ دین تھا جو اپنے گاؤں کے نمبردار تھے۔ ان کے تین بھائیوں میں اللہ بخش، محمد اقبال اور نعمت علی شامل تھے۔ محمد اقبال کا اب انتقال ہو چکا ہے جبکہ باقی سارے حیات ہیں۔ ان کی والدہ کا تعلق انڈین پنجاب کے ایک گاؤں کامل والا سے تھا۔
ڈاکٹر نونیکا دتہ کے مطابق وہ مہندر سنگھ سے کئی بار مل چکی ہیں اور ان سے ان کی کہانی ان کی ہی زبانی سنی ہے۔
مہندر سنگھ گِل کے خاندان میں ان کے دو بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں۔ اب تو ان کی پوتے پوتیاں بھی ان کے گھر کے صحن میں کھیلتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کی ساری رشتہ داریاں اب سکھ گھرانوں میں ہیں جبکہ ان کے دیگر بھائی ننکانہ صاحب میں مقیم ہیں جہاں ان کی مزید اولاد بھی ان کے ہمراہ رہتی ہے۔

ڈاکٹر نونیکا دتہ کے مطابق وہ مہندر سنگھ سے کئی بار مل چکی ہیں اور ان سے ان کی کہانی ان کی ہی زبانی سنی ہے۔ فوٹو: اردو نیوز

مہندر سنگھ کے اپنے بھائیوں سے ملن کی داستان اس وقت شروع ہوئی جب پاکستان کے ایک پنجابی زبان کے وی لاگر عباس خان لاشاری نے نومبر سنہ 2022 میں ایک ویڈیو بنائی جو ڈاکٹر نونیکا دتہ تک جا پہنچی۔

کہانی کہاں سے شروع ہوئی؟

عباس خان لاشاری تقسیم کے بعد رونما ہونے والے حالات اور تقسیم کے وقت پنجاب کے بچھڑے خاندانوں پر بیتے حالات فلم بند کر کے ان کی ویڈیو یوٹیوب پر اپلوڈ کرتے ہیں۔
ان کی ویڈیوز کی بدولت کئی بچھڑے خاندان آپس میں مل چکے ہیں لیکن مہندر سنگھ کی کہانی سب سے الگ ہے۔
عباس خان لاشاری نے اردو نیوز کو بتایا کہ 25 نومبر 2022 کو وہ کیلیفورنیا سے آئے اپنے مہمانوں کو ننکانہ صاحب لے کر گئے جہاں وہ اپنے بزرگوں کا گاؤں کوٹ شمشیر سنگھ دیکھنا چاہتے تھے۔
ان کے مطابق جب وہ ننکانہ صاحب پہنچے تو وہاں ان کی ملاقات محمد شریف نامی شہری سے ہوئی، جنہوں نے ان سے اپنے چچا سے ملوانے کی خواہش کا اظہار کیا۔
’محمد شریف میرے قریب آئے اور پنجابی میں کہنے لگے سردار صاحب جی! سانوں ساڈا چاچا ہی لبھ دیو۔‘
محمد شریف نے عباس خان کے ہمراہ مہمانوں اور کیمروں کو دیکھ کر یہ امید باندھی کہ وہ ان کے بچھڑنے والے چچا کو ان سے ملوانے میں معاونت کر سکتے ہیں۔ عباس خان نے ان سے حال احوال پوچھا تو انہوں نے سنہ 1947 کی کہانی بتائی جس میں ان کے ایک چچا انڈیا میں ہی رہ گئے تھے۔ عباس خان نے ان سے دریافت کیا کہ اگر ان کے خاندان میں کسی کو آنکھوں دیکھا حال معلوم ہو تو ان کی مدد کی جا سکتی ہے جس پر محمد شریف نے اپنے تایا اور چچا کا حوالہ دیا تاہم اس موقع پر ان کی ملاقات نہ ہو سکی لیکن انہوں نے محمد شریف سے ضروری معلومات حاصل کر لیں۔

عباس خان لاشاری کا کہنا تھا کہ ’ہم نے زوم کال پر میٹنگ رکھی۔ مہندر سنگھ نحیف تھے اور آنکھیں کمزور تھیں۔‘ فوٹو: اردو نیوز

محمد شریف نے عباس خان لاشاری کو انڈیا میں ان کے گاؤں کی تفصیل بتائی۔ اور فیروز پور میں مکھو کے پاس سرہالی پدھری نامی گاؤں اور وہاں کے نمبردار منگل سنگھ کا حوالہ دیا۔
انہوں نے انڈین پنجاب میں اپنے دوستوں سے رابطہ کیا لیکن کوئی سراغ نہ مل سکا۔ عباس خان نے اس دوران کوشش جاری رکھی اور بالآخر انہوں نے منگل سنگھ کے پوتے ہرجندر سنگھ سے رابطہ قائم کیا تاہم انہوں نے عباس خان کو بلاک کر دیا جس کے بعد اس کہانی میں عباس خان کی دلچسپی اور تجسس میں اضافہ ہوا۔
اس دوران نو مہینے گزر گئے لیکن انہیں کوئی کامیابی نہیں ملی۔ جس کے بعد انہوں نے خود کوٹ شمشیر سنگھ جا کر محمد شریف کے بزرگوں کا انٹرویو ریکارڈ کرنے کا ارادہ کیا۔
عباس خان 11 جولائی سنہ 2023 کو کوٹ شمشیر سنگھ روانہ ہوئے۔ وہاں پہنچنے پر انہوں نے محمد شریف کے تایا اللہ بخش اور نعمت علی سے گفتگو کی۔
عباس خان نے مزید بتایا کہ ’محمد شریف کے تایا اللہ بخش تقسیم کے وقت 15 سال کے تھے جبکہ ان کے چچا نعمت علی بمشکل سات سال کے ہوں گے۔ میں نے دونوں بھائیوں کا انٹرویو ریکارڈ کیا اور یوٹیوب پر اس امید کے ساتھ اپلوڈ کر دیا کہ شاید کہیں سے ان کے بچھڑے بھائی کا سراغ مل سکے۔‘

مہندر سنگھ اپنے خاندان سے کیسے الگ ہوئے؟

مہندر سنگھ کے بڑے بھائی اللہ بخش نے اردو نیوز کو سنہ 1947 میں اپنے بھائی سے بچھڑنے کی داستان سناتے ہوئے بتایا کہ انڈین پنجاب کے شہر فیروز پور کے علاقے مکھو کے آس پاس تلونڈی نام کا ایک گاؤں آباد تھا جہاں ان کی برادری کا مہدی خان نامی شخص رہتا تھا۔
ان کے بقول ’جب سنہ 1947 میں حملے شروع ہوئے تو ہم نے تلونڈی گاؤں کے مہدی خان کو اپنا سپہ سالار منتخب کیا۔ وہ بااثر تھا اور بات کرنے کا سلیقہ جانتا تھا۔ پہلے ہم نے اپنے ہی علاقے میں فوج کا انتظار کیا تاکہ فوج ہمیں سرحد پار کرنے میں مدد فراہم کرے لیکن کوئی نہیں آیا جس کے بعد ہم قافلے کی شکل میں اپنے گاؤں سے نکلے۔‘
’مکھو سے نکلتے ہی نہر کے قریب ان پر حملہ ہو گیا۔ اس وقت محمد شفیع کا ہاتھ ان کے والد چراغ دین نے پکڑ رکھا تھا۔ اس حملے کے دوران تلوار کے وار سے محمد شفیع کا ہاتھ چراغ دین سے چھوٹ گیا جو آج تک دوبارہ نہیں ملا۔‘

مہندر سنگھ اور ان کے بھائیوں کو ملانے میں ڈاکٹر نونیکا دتہ اور عباس خان لاشاری نے بنیادی کردار ادا کیے۔ (فوٹو: سکرین گریب)

اللہ بخش کا کہنا تھا کہ ’اس لڑائی کے بعد ہم وہاں سے نکلے۔ میری چھوٹی بہن نہر میں ڈوب گئی تھی جبکہ نعمت علی سے متعلق بھی یہ خدشہ تھا لیکن وہ ٹرین میں لاشوں کے نیچے دب کر محفوظ رہے۔ راستے میں مزید لڑائیاں ہوئیں لیکن ہم گنڈا سنگھ تھانے آ گئے۔ یہ تھانہ پاکستان کی حدود میں تھا۔‘
اللہ بخش یہ ساری کہانی بتاتے ہوئے آبدیدہ ہو رہے تھے اور ان کی آواز رقت آمیز ہو گئی تھی۔ وہ اب رک رک کر جملہ ادا کرتے۔ ان کے مطابق ان کو محمد شفیع کا غم کھائے جا رہا تھا۔
’ہم کئی دنوں سے بھوکے تھے لیکن گنڈا سنگھ تھانے میں روکھی سوکھی ہی سہی لیکن روٹی ملی۔ اب ہماری نئی زندگی کا آغاز ہو چکا تھا۔ ہمارا بھائی بچھڑ گیا تھا لیکن حالات نے ہمیں وہ غم بھلانے پر مجبور کر دیا۔‘
ان کے مطابق محمد شفیع کی یاد میں ان کے ماں باپ رویا کرتے تھے۔ ان کے والد اس واقعے کے دو سال بعد فوت ہو گئے جبکہ والدہ بھی صرف چار سال مزید زندہ رہ سکیں۔
اللہ بخش کے مطابق اس واقعے کے بعد پورا خاندان پاکستان میں اپنے کام کاج کے سلسلے میں مصروف ہوگیا تاہم انہیں اپنے بھائی کی جدائی کا غم کھائے جا رہا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ’ہمیں امید تھی کہ وہ زندہ ہو گا۔ ایک دن مہدی خان نے کسی کے ذریعے پیغام بھیجا کہ محمد شفیع زندہ سلامت منگل سنگھ نمبردار پدھری والے کے ہاں موجود ہے۔‘
’یہ لمحہ ایسا تھا کہ ان کی جان میں جان آئی۔ انہیں بتایا گیا کہ گنڈا سنگھ بارڈر پر آ کر محمد شفیع کو لے جائیں لیکن مقررہ تاریخ پر ہنگامہ کھڑا ہو گیا۔ بھگدڑ مچنے کی وجہ سے منگل سنگھ محمد شفیع کو واپس لے گیا۔‘
اللہ بخش کا کہنا تھا کہ ’اس وقت تو محمد شفیع نہیں ملا لیکن ہم نے منگل سنگھ کو خط لکھا تاکہ ہمارا بھائی ہمارے حوالے کیا جائے لیکن اس نے جواب میں بتایا کہ وہ کسی بیماری کے باعث فوت ہو گیا ہے۔
انہوں نے مزید تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ خودپور نامی گاؤں کا بلندا گجر سمگلنگ کا کام کرتا تھا جو تلونڈی کے مہدی خان کا شناسا تھا۔
’بلندا گجر ایک بار سمگلنگ کے غرض سے موہن سنگھ نامی شخص کے پاس گیا جہاں ان کی ملاقات محمد شفیع، جو مہندر سنگھ تھے، سے ہوئی۔ کئی ماہ بعد بلندا گجر نے مہدی خان سے ملاقات کی۔ بلندا گجر نے مہدی خان کو محمد شفیع سے متعلق آگاہ کیا۔‘

عباس خان لاشاری نے ننکانہ صاحب اللہ بخش کے ہاں پہنچے تو ڈاکٹر نونیکا دتہ فیروزپور بنڈالہ میں محمد شفیع کے گھر گئیں۔ (فوٹو: سکرین گریب)

مہدی خان اللہ بخش کے ہاں پیغام بھیجتا ہے جس کے بعد یہ لوگ محمد شفیع کو پھر لینے گئے لیکن وہ نہیں ملا۔ کئی مواقع ایسے آئے کہ جب انہیں محمد شفیع ملتے ملتے رہ گیا۔ اتنی کوششوں کے بعد بھی جب وہ نہیں ملے تو یہ سب اپنی زندگی میں مصروف ہو گئے۔
اس وقت سے ستمبر سنہ 2024 تک انہیں محمد شفیع سے متعلق کوئی سراغ نہیں ملا۔
اس دوران پنجابی یوٹیوبر عباس خان لاشاری کی ویڈیو بھی ریکارڈ ہوئی جس میں اللہ بخش اپنی ساری کہانی سناتے ہیں۔ عباس خان انڈیا میں اپنے دوستوں سے بار بار اپڈیٹ لیتے رہتے لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔

نونیکا دتہ کی محمد شفیع سے ملاقات

عباس خان کی ویڈیو اپلوڈ ہوئے دو سال گزر چکے تھے۔ انڈین پروفیسر نونیکا دتہ رواں برس جون اور جولائی کے مہینوں میں اپنی تحقیق کے سلسلے میں پنجاب گئیں۔
انہوں نے بتایا کہ ’گرمی کا موسم تھا اور یہاں پنجاب میں رواج ہے کہ گرمیوں میں میٹھے پانی کی سبیل لگتی ہے۔ میں اسی سبیل سے پانی پی رہی تھی کہ اچانک ایک شخص میرے پاس آئے اور کہا کہ قریب ہی بنڈالہ نامی گاؤں میں ایک نفیس بزرگ رہتے ہیں اور وہ ایک مسلمان گھرانے سے تھے۔‘
ڈاکٹر نونیکا دتہ کے مطابق انہوں نے بنیادی معلومات لینے کے بعد اپنی تحقیق پر توجہ دی اور واپس دہلی آ گئیں۔ کچھ دنوں بعد وہ بنڈالہ گاؤں اسی مسلمان بزرگ سے ملنے پہنچیں۔
’جب میں بتائے ہوئے پتے پر پہنچی تو ایک گھر میں ان بزرگ بابا جی کے پوتے پوتیاں میرے ساتھ بیٹھے اور گفتگو کرتی رہے۔ اس دوران ایک بابا جی نمودار ہوئے جو انتہائی ضعیف تھے۔ چہرے پر گہری جھریوں کی وجہ سے ان کی آنکھیں واضح دکھائی نہیں دے رہی تھیں۔‘
انہوں نے کہا کہ جب وہ اس بزرگ بابا جی سے ملیں تو انہوں نے اپنے متعلق معلومات دینا شروع کیں۔
’مجھے اس وقت تک کوئی اندازہ نہیں تھا کہ یہ کون ہیں اور یہاں تک کیسے پہنچے؟ مجھے صرف یہ علم تھا کہ یہ ایک مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ بابا جی نے کہا کہ وہ کھیتی باڑی کرتے ہیں اور اسی طرح دیگر چیزیں بتائیں۔‘

عباس خان لاشاری سنہ 2022 میں جب ننکانہ صاحب گئے تھے تو وہاں محمد شریف نامی شہری نے ان سے اپنے چچا سے ملوانے کی خواہش کا اظہار کیا۔ (فوٹو: سکرین گریب)

ان کے مطابق یہ مہندر سنگھ تھے جنہوں نے بتایا کہ وہ فیروز پور کی تحصیل زیرہ میں ایک چھوٹے سے گاؤں بلوکے سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ نو یا 10 سال کی عمر میں اپنے خاندان سے بچھڑ گئے تھے۔
ڈاکٹر نونیکا دتہ کا کہنا تھا کہ جب میں نے ان سے دوبارہ نام پوچھا تو انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا ’محمد مہندر سنگھ شفیع۔ یہ نام سن کر میں چونک گئی اور اس کہانی میں دلچسپی لینے لگی۔‘
مہندر سنگھ نے جو کہانی بتائی وہ کہانی وہی تھی جو پاکستان میں پنجابی یوٹیوبر عباس خان لاشاری کو اللہ بخش نے بتائی تھی لیکن تاحال ڈاکٹر نونیکا کو اس کا علم نہیں تھا۔ مہندر سنگھ یا محمد شفیع نے ڈاکٹر نونیکا کو اپنی زندگی سے متعلق بتایا کہ انہیں سوہن سنگھ کے خاندان نے اپنا لیا تھا۔
’مجھے محمد شفیع نے بتایا کہ انہیں سوہن سنگھ نامی شخص اپنے ساتھ لے آئے جن کی بیوی ہربنس کور نے انہیں ماں جیسا پیار دیا۔ موہن سنگھ ایک بااثر سردار تھے۔ انہوں نے محمد شفیع کو مہندر سنگھ بنایا اور انہیں اپنی جائیداد میں حصہ بھی دیا۔ ان کی پرورش سے لے کر شادی بیاہ تک سب کچھ انہوں نے کیا۔‘
محمد شفیع کی کہانی سننے کے بعد ڈاکٹر نونیکا دہلی آ گئیں اور ان سے متعلق تحقیق کرنے لگیں۔

جب ایک گوگل سرچ نے محمد شفیع کو خاندان سے ملوایا

ڈاکٹر نونیکا دتہ بتاتی ہیں کہ وہ دہلی آنے کے بعد محمد شفیع کی ریکارڈ کی گئی گفتگو سن رہی تھیں اور ساتھ ہی اس کے نوٹس بنا رہی تھی۔
ان کے مطابق ’میں نے سوچا کہ محمد شفیع بار بار بلوکے نامی گاؤں کا ذکر کر رہے تھے۔ میں نے فون نکالا اور گوگل پر صرف اس گاؤں کا نام سرچ کیا تو میرے سامنے ایک ویڈیو آئی جس کا عنوان ’ویر دی اُڈیک‘ تھا۔ میں نے ویڈیو پر کلک کیا تو عباس خان لاشاری نام کے ایک یوٹیوبر چند بزرگوں کے ساتھ بیٹھے گفتگو کر رہے تھے۔ جب ویڈیو میں محمد شفیع کا نام آیا تو وہ منظر دیکھ کر میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔‘
ڈاکٹر نونیکا بتاتی ہیں کہ انہوں نے یہ ویڈیو ابھی پوری نہیں دیکھی تھی کیونکہ وہ یہ سب محسوس کر کے حیران تھی کہ کس طرح سرحد پار ایک یوٹیوبر کی ویڈیو ان کے سامنے آئی اور اس میں بھی وہی نام دہرایا جا رہا ہے جس سے ان کی ملاقات ہوچکی ہے۔
’یہ وہی کہانی تھی جو مہندر سنگھ یعنی محمد شفیع نے مجھے یہاں انڈیا میں بتائی تھی۔ کچھ وقت کے لیے تو میرے سامنے سب کچھ رک سا گیا تھا۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے؟‘

مہندر سنگھ گِل کے خاندان میں ان کے دو بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں۔ (فوٹو: سکرین گریب)

انہوں نے ویڈیو دیکھنے کے بعد ویڈیو پر کمنٹ کیے اور عباس خان لاشاری کو رابطہ کرنے کا کہا لیکن کئی دن گزرنے کے باوجود بھی ان سے کوئی رابطہ نہیں ہوا۔
’چونکہ یہ ویڈیو بہت پرانی تھی۔ مجھے خدشہ لاحق ہوگیا کہ محمد شفیع کا خاندان تو مل گیا لیکن اب اس یوٹیوبر سے کس طرح رابطہ کروں؟ میرے جذبات انتہائی منتشر تھے مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ ویڈیو میں تو نمبر بھی دیا گیا تھا۔‘
اس کے بعد ڈاکٹر نونیکا دتہ نے ویڈیو سے نمبر لیا اور واٹس ایپ پر عباس خان کے لیے ایک پیغام چھوڑا لیکن ان سے کوئی رابطہ قائم نہ ہو سکا۔
’مجھے جلدی تھی اور میں انتظار نہیں کر سکتی تھی اس لیے میں نے کال کی لیکن عباس خان نے کال نہیں اٹھائی۔ میں مایوس ہو کر بیٹھ گئی۔‘
اس حوالے سے عباس خان لاشاری نے بتایا کہ یہ 11 ستمبر 2024 کی بات ہے کہ جب وہ صبح کے وقت اٹھے تو ان کے نمبر پر کئی پیغامات اور مسڈ کالز آئی ہوئی تھیں۔
’میں نے رابطہ کیا تو یہ ڈاکٹر نونیکا دتہ تھیں اور وہ میری ویڈیو کا حوالہ دے رہی تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ جن کا آپ نے انٹرویو کیا ہے ان کا بھائی زندہ ہے اور وہ ان سے مل چکی ہیں۔‘
عباس خان کے مطابق ’جذبات کی وجہ سے ڈاکٹر نونیکا کی سانس پھول رہی تھی۔ محمد عباس نے دریافت کیا کہ محمد شفیع کہاں رہتے ہیں تو ڈاکٹر نونیکا نے جواب دیا کہ وہ ضلع فیروز پور کے ایک گاؤں بنڈالہ میں رہتے ہیں جو دریائے ستلج کے قریب واقع ہے۔‘

جب 77 سال بعد محمد شفیع نے اپنے بھائیوں سے بات کی

عباس خان لاشاری اور ڈاکٹر نونیکا دتہ گفتگو کے بعد اپنی اپنی منزل کی جانب روانہ ہوئے۔ عباس خان لاشاری نے ننکانہ صاحب اللہ بخش کے ہاں پہنچے تو ڈاکٹر نونیکا دتہ فیروزپور بنڈالہ میں محمد شفیع کے گھر گئیں۔
ڈاکٹر نونیکا اس بارے میں بتاتی ہیں کہ ’میں نے مہندر سنگھ کے بیٹے کو بتایا کہ ان کے والد کا اصل خاندان اور ان کے سگے بھائی زندہ ہیں اور پاکستان میں ہیں۔ میں نے کہا کہ وہ اپنے بھائی سے بات کرنا چاہتے ہیں تو انہوں نے بلا حیل و حجت ہمیں نہ صرف اجازت دی بلکہ پورا خاندان اس خوشی کو منانے کے لیے اکٹھا ہوا۔‘
’مہندر سنگھ بار بار پوچھتے رہے کیا نعمت اور اقبال سے بھی بات ہو گی؟ وہ بہت خوش تھے اور بغیر رکے مسلسل بچپن کے دن یاد کر رہے تھے۔‘

مہندر سنگھ سنہ 1947 کی تقسیم کے دوران اپنے خاندان سے بچھڑ گئے تھے۔ (فوٹو: اوہایو سٹیٹ یونیورسٹی)

عباس خان لاشاری کا کہنا تھا کہ ’ہم نے زوم کال پر میٹنگ رکھی۔ مہندر سنگھ نحیف تھے اور آنکھیں کمزور تھیں۔ زوم کال پر میں نے مہندر سنگھ کو بتایا کہ آپ کے بھائی زندہ ہیں بات کراوں؟ تو ان کی آنکھیں کھل گئیں۔ انہوں نے اپنے بھائیوں سے گفتگو شروع کی۔ یہاں ارد گرد موجود تمام افراد یہ منظر دیکھ کر مسلسل رو رہے تھے۔‘
دونوں جانب بھائیوں نے کافی دیر تک گفتگو کی لیکن انٹرنیٹ کی خرابی کی وجہ سے رابطہ منقطع ہو گیا۔

بچھڑے بھائی ملیں گے کب؟

سنہ 1947 سے شروع ہونے والی جدائی کی یہ داستان بالآخر سنہ 2024 میں آن لائن ملاپ کی صورت اختیار کر گئی لیکن اب ڈاکٹر نونیکا دتہ اور عباس خان لاشاری اس آن لائن ملاقات کو براہ راست ملاقات میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔
ڈاکٹر نونیکا نے مہندر سنگھ کے پاسپورٹ کے لیے اپلائی کر دیا ہے۔ وہ کہتی ہیں ’اگر یہ سرحد نہ ہوتی تو میں پیدل چل کر ان کی ملاقات کروا دیتی لیکن سرکاری کام میں وقت لگتا ہے اس لیے امید ہے کہ اس بار نہیں تو کسی اور موقع پر، لیکن اب ان بھائیوں کی ملاقات کروا کر ہی مجھے سکون ملے گا۔‘
عباس خان لاشاری بھی اس حوالے سے پرامید ہیں۔ ان کو امید ہے کہ حکومتِ پاکستان مہندر سنگھ کو جلد ویزہ فراہم کرے گی۔ اور وہ اپنے پورے خاندان کے ساتھ یہاں آ کر دہائیوں سے بچھڑے اپنے بھائیوں سے ملاقات کر سکیں گے۔
وہ کہتے ہیں ’فیروز پور بنڈالہ سے ننکانہ صاحب کوٹ شمشیر سنگھ محض 127 کلومیٹر دور ہے۔ اگر وہاں سے پیدل بھی چلا جائے تو یہ سفر 24 گھنٹے میں ختم ہو جائے گا، لیکن مہندر سنگھ کو یہ سفر تمام کرنے میں 77 سال لگ گئے۔ رختِ سفر میں سارا بچپن اور جوانی خرچ ہوگئی، رو رو کے آنکھوں کی بینائی چلی گئی۔ یہ مہندر سنگھ کی زندگی کا سب سے مہنگا سفر ہوگا۔‘

شیئر: