مغل سلطنت کی راجدھانی دہلی سے قریباً آٹھ سو کلومیٹر شمال میں اُس وقت قبائلی علاقے کوہاٹ کے حسین خان آفریدی نے اپنے خاندان کے ساتھ اُترپردیش کا رُخ کیا۔
یہ وہ عہد تھا جب بہت سے پشتون قبیلے بہتر مستقبل کی تلاش میں وسطی ہندوستان کی جانب ہجرت کر رہے تھے۔ روہیلا پٹھان بھی اِسی دور میں اُترپردیش کے مختلف علاقوں میں آباد ہوئے۔ اُس وقت مغل فرمانروا محمد شاہ سلطنتِ دہلی کے بادشاہ تھے اور مغلوں کا زوال شروع ہو چکا تھا۔
حسین خان کا خاندان دہلی کے نواح میں اُترپردیش کے قصبے قائم گنج میں آباد ہوا جہاں انہیں ترقی کرنے کے بہتر مواقع میسر آئے۔ حسین خان کی نسل میں سے ہی ایک فدا حسین خان بھی تھے جو تعلیم میں گہری دل چسپی رکھتے تھے۔ انہوں نے قانون کے امتحان میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد ریاستِ حیدرآباد کا رُخ کیا جہاں اُس وقت چھٹے نظام برسرِاقتدار تھے۔ وہ صرف 39 برس کی عمر میں تپ دق کا شکار ہو کر چل بسے۔ انڈیا کے پہلے مسلمان صدر ڈاکٹر ذاکر حسین انہی کے صاحب زادے تھے۔
مزید پڑھیں
ڈاکٹر ذاکر حسین کی شخصیت کے کئی حوالے ہیں۔ وہ ماہرِ معیشت تھے، سماجی صلاح کار تھے، سیاست دان تھے، فلسفی تھے، مترجم تھے اور سب سے بڑھ کر ماہرِ تعلیم تھے جو اُن کی شناخت کا اہم ترین حوالہ ہے۔
ڈاکٹر ذاکر حسین کا ذکر ہو رہا ہے تو بتاتے چلیں کہ وہ آج ہی کے روز 8 فروری 1897 کو ریاستِ حیدرآباد میں پیدا ہوئے۔
وہ تعلیم تو طب کی حاصل کرنا چاہتے تھے مگر اُن کا یہ خواب تشنہ رہا اور یوں انہوں نے سال 1918 میں محمدن اینگلو اورینٹل کالج (ایم اے او کالج) علیگڑھ سے فلسفے، انگریزی ادب اور معیشت میں گریجویشن کرنے کے بعد ماسٹرز کیا اور اسی کالج میں لیکچرار بھرتی ہوگئے۔ انہوں نے اسی دور میں سیاست میں بھی حصہ لینا شروع کر دیا تھا اور وہ اُن دنوں ہی کالج کی طلبا یونین کے نائب صدر منتخب ہوئے۔
سال 1920 میں گاندھی نے علیگڑھ کے ایم اے او کالج کا دورہ کیا اور برطانوی راج کے خلاف عدم تعاون کی تحریک چلانے کی اپیل کی تو کچھ اساتذہ اور طالب علم اس تحریک کا حصہ بن گئے جنہوں نے اسی برس انڈیپینڈنٹ نیشنل یونیورسٹی کی بنیاد رکھی جس کا مقصد ایسی تعلیم دینا تھا جو نوآبادیاتی اثر سے آزاد ہو۔ یہ یونیورسٹی ہی بعدازاں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے نام سے معروف ہوئی جسے سال 1925 میں علیگڑھ سے دہلی منتقل کر دیا گیا۔
آگے بڑھنے سے قبل یہ بتاتے چلیں کہ اس یونیورسٹی کے پہلے شیخ الجامعہ (وائس چانسلر) مولانا محمد علی جوہر اور امیر جامعہ (چانسلر) حکیم محمد اجمل تھے۔
خالدہ ادیب معروف ترک ناول نگار، استاد، قوم پرست اور حقوقِ نسواں کی دانشور تھیں۔ وہ کچھ عرصہ انڈیا بھی رہیں اور ترکی واپس جانے کے بعد کتاب ’ان سائیڈ انڈیا‘ لکھی جس میں انہوں نے اپنا یہ مشاہدہ پیش کیا ہے کہ اس جامعہ کے قیام کے دو مقاصد تھے، ’اول تو ہندوستانی شہری ہونے کے ناتے مسلمان نوجوانوں کو اُن کے حقوق اور فرائض کے بارے میں آگاہ کرنا اور دوسرا اسلامی فکر اور رویوں کی ہندو آبادی کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرنا۔ عمومی مقصد یہ تھا کہ مسلمان اپنی اسلامی شناخت کو قائم رکھتے ہوئے ایک قوم کے طور پر متحد ہوں۔ یہ اپنے مقاصد میں اگر کلی طور پر نہیں تو کسی بھی دوسرے اسلامی ادارے کی نسبت گاندھی کی تحریک سے زیادہ قریب تھی۔‘
جامعہ ملیہ اسلامیہ کے لیے ابتدائی برسوں میں فنڈز کی کمی کے باعث اپنی بقا ممکن رکھنا آسان نہیں تھا جس کی بنیادی وجہ عدم تعاون کی تحریک کے علاوہ خلافت کمیٹی کا بند ہو جانا بھی تھا۔

اس دوران ڈاکٹر ذاکر معاشیات میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے کے لیے جرمنی چلے گئے جہاں یونیورسٹی آف برلن میں اُن کے سپروائزر معروف ماہرِ معیشت، تاریخ دان اور ماہرِ عمرانیات ورنر سمبارٹ تھے۔
برلن میں قیام کے دوران ڈاکٹر ذاکر ادبی سرگرمیوں میں بھی متحرک رہے۔ انہوں نے گاندھی کی تقریروں کا ترجمہ کرنے کے علاوہ دیوانِ غالبؔ اور حکیم اجمل خانؔ کی شاعری پر بھی کام کیا۔
وہ سال 1926 میں جرمنی سے تعلیم مکمل کر کے وطن واپس لوٹے تو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے وائس چانسلر بنائے گئے۔ اُس وقت اُن کی عمر محض 29 برس تھی۔ یوں وہ دنیا کے کم عمر ترین وائس چانسلر کا اعزاز حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔
ڈاکٹر ذاکر کے سامنے بطور وائس چانسلر سب سے بڑا امتحان جامعہ کی مالی مشکلات کو دور کرنا تھا جس کے لیے نظام آف حیدرآباد کے علاوہ بہت سے مخیر مسلمانوں سے مالی مدد حاصل کی گئی۔
اجے کمار شرما اپنی کتاب ’دہلی میں تعلیمی اداروں کی تاریخ‘ میں لکھتے ہیں کہ سال 1928 میں جامعہ کے معاملات کو چلانے کے لیے ایک کمیٹی قائم کی گئی اور ڈاکٹر ذاکر حسین اس کے سیکرٹری مقرر ہوئے۔ سوسائٹی کا تاحیات رُکن بننے کے لیے اراکین نے اگلے 20 برسوں کے لیے 150 روپے سے زیادہ تنخواہ وصول نہ کرنے کا عہد کیا۔ یہ عہد کرنے والے ابتدائی 11 اراکین میں ڈاکٹر ذاکر حسین بھی شامل تھے۔‘
جامعہ نے ایک آئین بھی تشکیل دیا جس کے تحت یہ طے پایا کہ نوآبادیاتی طاقتوں سے کوئی مالی مدد حاصل نہیں کی جائے گی جب کہ فروغِ اُردو، اسلامی تعلیم کے احیا کے علاوہ آزادی کے جذبے کو آگے بڑھانا بھی جامعہ کے مقاصد میں شامل تھا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ 1946 میں محمد علی جناح نے کانگریس کی جانب سے ڈاکٹر ذاکر حسین کو انڈیا کی نگران حکومت میں شامل کرنے کی تجویز کو ویٹو کر دیا تھا مگر ان اختلافات کے باوجود اسی برس ڈاکٹر ذاکر حسین جامعہ کی گولڈن جوبلی تقریبات میں جناح کو مدعو کرنے میں کامیاب رہے۔ یہ تقریب اس لیے بھی یادگار ہی کہ اس میں آل انڈیا مسلم لیگ کی جانب سے محمد علی جناح، فاطمہ جناح اور لیاقت علی خان اور کانگریس کی جانب سے جواہرلعل نہرو اور مولانا ابوالکلام آزاد جیسے رہنما شریک ہوئے۔
ڈاکٹر ذاکر حسین اور محمد علی جناح میں نظری اختلاف کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ڈاکٹر ذاکر حسین مسلمانوں کے لیے جداگانہ انتخابات کی پالیسی کے خلاف تھے۔
ڈاکٹر ذاکر کا ایک اہم کام انڈیا میں بنیادی تعلیم کے لیے گاندھی کی قیادت میں پالیسی کی تشکیل بھی تھا جس میں ڈاکٹر ذاکر نے سات برس تک کسی قسم کی فیس کے بغیر مادری زبانوں، دستکاری، موسیقی اور ہندوستانی زبانوں کی تعلیم دینے کی تجویز دی تھی۔
آل انڈیا مسلم لیگ نے مگر اس پایسی کی کھل کر مخالفت کی جس کے خیال میں اس کی وجہ سے انڈیا میں مسلم تہذیب مٹ جائے گی اور ہندوستانی زبانوں پر توجہ دینے سے اُردو پر سنسکرت کا رنگ غالب آ جائے گا۔
تقسیم کے بعد ڈاکٹر ذاکر نے انڈیا میں رہنے کا ہی انتخاب کیا۔ وہ سال 1948 میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کی وائس چانسلر شپ سے الگ ہوئے تو علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر بنا دیے گئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس یونیورسٹی کا تحریکِ پاکستان میں اہم کردار رہا تھا۔ ممتاز شاعر جون ایلیا تو ازراہِ مزاح کہا کرتے تھے کہ ’پاکستان تو علی گڑھ یونیورسٹی کے لونڈوں کی ’سازش‘ کا نتیجہ ہے۔‘
تقسیم کے دنوں میں فسادات جاری تھے جب ڈاکٹر ذاکر کشمیر جا رہے تھے تو جالندھر ریلوے سٹیشن پر اُن کی جان بہ مشکل بچ سکی جس کا ذکر انہوں نے معروف مذہبی عالم، مصنف اور فلسفی عبدالماجد دریابادی کے نام اپنے خط میں بھی کیا تھا۔ یہ ایک تفصیلی خط ہے جس میں سے ایک اقتباس ملاحظہ کیجیے جو اُس عہد میں اساتذہ کے لیے احترام کے جذبے کو نمایاں کرتا ہے،
ڈاکٹر ذاکر لکھتے ہیں کہ ’اچانک ایک نوجوان بوگی میں داخل ہوا، وہ میری جانب بڑھا اور استفسار کیا،’کیا آپ ڈاکٹر ذاکر حسین ہیں؟‘ میں نے خود سے کہا، ’بلاوا آ چکا ہے۔‘ لیکن میں نے اُس (نوجوان) سے کہا، ‘میں ہی ہوں‘۔ وہ یہ سن کر جھک گیا اور میرے قدموں کو چھوا۔ ’بھائی، یہ کیا کر رہے ہو؟‘ میں حیرت سے چلایا۔‘ اُس نے کہا، ’یہ درست ہے کہ آپ مجھے نہیں جانتے مگر آپ میرے استاد کے استاد ہیں۔ میں سوریا کانت شاستری جی سے پڑھا ہوں اور وہ آپ کے طالب علم تھے اور اکثر آپ کے بارے میں بات کیا کرتے تھے۔‘
ڈاکٹر ذاکر کے دور میں علیگڑھ یونیورسٹی نے بالآخر تقسیم کے باعث پیدا ہونے والی غیریقینی صورتِ حال پر قابو پا لیا۔
ڈاکٹر ذاکر اپریل 1952 میں راجیہ سبھا کے رُکن منتخب کیے گئے۔ وہ راجیہ سبھا میں چار برس کی مدت مکمل کرنے کے بعد دوبارہ رُکن منتخب کیے گئے مگر انہوں نے جولائی 1957 میں راجیہ سبھا کی رُکنیت سے استعفیٰ دے دیا کیوں کہ انہیں ریاستِ بہار کا گورنر بنا دیا گیا تھا۔ یہ اُن کی تعلیمی میدان میں انجام دی گئی خدمات کا اعتراف تھا۔ وہ اس دوران فروغِ تعلیم کے لیے کام کرنے والی مختلف تنظیموں میں بھی متحرک کردار ادا کرتے رہے اور یونیسکو کے ایگزیکٹو بورڈ میں بھی خدمات انجام دیں۔
