پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے کاروباری مراکز میں کئی ایسے دفاتر ہیں جہاں دن کی روشنی کم اور رات سیاہی پھیلتے ہی کام شروع ہوتا ہے۔
یہ وہ جگہیں ہیں جہاں نوجوان مرد و خواتین، ہیڈ فون لگا کر غیرملکی لہجے میں بات کرتے نظر آتے ہیں۔
لیکن ہر کال سینٹر ایک جیسا نہیں ہوتا۔ کچھ قانونی کاروبار کرتے ہیں، تو کچھ ایسے بھی ہیں جو دھوکہ دہی کا گڑھ بن چکے ہیں۔
مزید پڑھیں
رات کے اندھیرے میں کراچی کے ایک پوش علاقے میں ایک عمارت کی کھڑکیوں سے ہلکی روشنی جھلک رہی تھی۔ بظاہر ایک عام دفتر نظر آنے والی یہ جگہ درحقیقت ایک غیرقانونی کال سینٹر تھا جہاں چند افراد کمپیوٹر سکرینز پر جھکے کام میں مصروف تھے۔
اس کال سینٹر کا مقصد بیرون ملک شہریوں کی مالی معلومات حاصل کر کے انہیں دھوکہ دینا تھا مگر انہیں اندازہ نہیں تھا کہ ایف آئی اے کی ٹیم پہلے ہی ان پر نظر رکھے ہوئے تھی۔
وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے چند ماہ قبل کراچی کے پوش علاقے ڈیفنس فیز 5 میں ایک غیرقانونی کال سینٹر پر چھاپہ مارا۔
کارروائی کے دوران چھ افراد کو گرفتار کیا گیا جن میں عبدالرحمان، وقار سمیت دیگر شامل تھے۔ یہ گروہ خود کو سکیورٹی اداروں کا اہلکار ظاہر کرتا تھا اور غیرملکی شہریوں کے کریڈٹ اور ڈیبٹ کارڈ کی تفصیلات چوری کر کے کرپٹو کرنسی اکاؤنٹس میں رقم منتقل کرتا تھا۔

ایک اور کارروائی میں ایف آئی اے کے سائبر کرائم سرکل نے گلشنِ اقبال میں ’جنریشن 96‘ نامی ایک اور غیرقانونی کال سینٹر پر چھاپہ مارا۔
اس چھاپے میں عبدالحمید، شاہان افضل اور نعمان علی نامی تین ملزمان کو گرفتار کیا گیا جو بینک کے نمائندے بن کر صارفین سے ان کے مالیاتی کوائف حاصل کرتے اور انہیں غیرقانونی طریقوں سے استعمال کرتے تھے۔
ایف آئی اے حکام کا کہنا ہے کہ غیرقانونی کال سینٹرز منظم دھوکہ دہی کے نیٹ ورک کا حصہ ہیں جو بیرون ملک شہریوں کو نشانہ بناتے ہیں۔
ایسے سینٹرز اکثر چھوٹے، ناقص سہولیات والے دفاتر میں قائم کیے جاتے ہیں جنہیں مقامی محاورے میں ’ڈبہ‘ کہا جاتا ہے۔
’ڈبے‘ وہ غیرقانونی اور غیررجسٹرڈ کال سینٹرز ہوتے ہیں جو اکثر غیر معروف مقامات پر چھوٹے کمروں میں قائم کیے جاتے ہیں۔
ان میں زیادہ تر ایسے نوجوان کام کرتے ہیں جنہیں روزگار کی تلاش ہوتی ہے، مگر وہ غیرقانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے خطرے سے بے خبر ہوتے ہیں۔

ان کال سینٹرز میں کام کرنے والے ملازمین کو غیرملکی صارفین سے بات کروا کر مالی تفصیلات حاصل کرنے کا کہا جاتا ہے اور ان معلومات کا استعمال جعل سازی کے لیے کیا جاتا ہے۔
یہ دفاتر ناصرف قانون کی نظر میں غیرقانونی ہیں بلکہ یہاں کام کرنے والے افراد کے لیے بھی کسی قسم کی سکیورٹی یا ملازمت کا تحفظ نہیں ہوتا۔
سابق وفاقی وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ٹیلی کمیونیکیشن اور چیئرمین قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی و ٹیلی کمیونیکیشن سید امین الحق نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں آئی ٹی کا شعبہ تیزی سے ترقی کررہا ہے، ہر سال پاکستان کی ایکسپورٹ میں اضافہ ریکارڈ کیا جا رہا ہے، یہ خوش آئند بات ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’دنیا بھر میں ٹیکنالوجی کا مثبت اور منفی دونوں طرح ہی استعمال کیا جا رہا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں کچھ ایسے کیسز سامنے آئے ہیں جن میں آئی ٹی سیکٹر کی آڑ میں جرائم پیشہ افراد نے غیرقانونی سرگرمیاں کی ہیں۔ ان کے خلاف اداروں نے کارروائیاں کی بھی ہیں اور مسلسل کر بھی رہے ہیں۔‘
سید امین الحق کا کہنا تھا کہ ’تیزی سے بدلتی دنیا میں پاکستان کو وقت کے ساتھ چلنا ہے۔ چند منفی سوچ رکھنے والے افراد کی غیرقانونی سرگرمیوں سے پورے آئی ٹی سیکٹر یا کال سینٹرز کو غلط نہیں کہا جا سکتا۔ پاکستان میں بہت سی کمپنیاں بہت اچھا کام کررہی ہیں، جس سے ملک کے زرمبادلہ بھی کمایا جا رہا ہے اور روزگار کے مواقع بھی بڑھ رہے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ غیرقانونی سرگرمیوں میں ملوث افراد کے خلاف گھیرا تنگ کیا جائے اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے کام کرنے والوں کو سہولیات فراہم کی جائیں۔

کراچی میں آئی ٹی کے شعبے کے ماہر نعمان صدیقی نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’یہ نام (ڈبہ) ان دفاتر کی ناقص حالت، غیرقانونی حیثیت اور ملازمین کو دی جانے والی کم تنخواہوں اور غیرمحفوظ ماحول کی وجہ سے مشہور ہوا ہے۔‘
’زیادہ تر کال سینٹرز بغیر رجسٹریشن کے کام کرتے ہیں، اور ان میں کام کرنے والے نوجوانوں کو بنیادی سہولیات تک فراہم نہیں کی جاتیں۔‘
آئی ٹی کے شعبے کے ماہر عارف خان کا کہنا ہے کہ ’یہ ڈبہ کال سینٹرز عام طور پر چھوٹے پیمانے پر کام کرتے ہیں، مگر ان کے ذریعے بین الاقوامی سطح پر بڑی مالی دھوکہ دہی کی جاتی ہے۔ ان میں سے بیش تر سینٹرز کرپٹو کرنسی اور آن لائن بینکنگ کے سکیمرز کے ساتھ منسلک ہوتے ہیں جو غیر ملکی صارفین کو نشانہ بناتے ہیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ان غیرقانونی کال سینٹرز کے خلاف کارروائی اہم لیکن ساتھ ہی اس شعبے میں ریگولیشن اور شفافیت لانے کی بھی اشد ضرورت ہے تاکہ جائز کاروبار متاثر نہ ہوں۔‘
کراچی میں ’ڈبہ‘ کہلانے والے ان کال سینٹرز کا مستقبل غیریقینی ہے۔ اگر ان میں شفافیت، ملازمین کے حقوق کا تحفظ اور قانونی دائرہ کار میں کام کرنے کا رجحان پیدا کیا جائے تو ان کے کاروباری تشخص میں بہتری آ سکتی ہے۔