امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے وائس آف امریکہ اور امریکی فنڈ پر چلنے والے دیگر نشریاتی اداروں کے عملے کو چھٹی پر بھیج دیا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق صدر ٹرمپ جو امریکی عالمی ایڈ ایجنسی اور محکمہ تعلیم کی فنڈنگ روک چکے ہیں، نے جمعے کو ایک ایگزیکٹو آرڈر جاری کیا۔
اس آرڈر میں انہوں نے امریکی ایجنسی برائے عالمی میڈیا کو وفاقی بیوروکریسی کے ان عناصر میں شامل کیا جو صدر کے مطابق ’غیر ضروری‘ ہیں۔
مزید پڑھیں
وائس آف امریکہ، ریڈیو فری ایشیا، ریڈیو فری یورپ اور دیگر آؤٹ لیٹس کے سینکڑوں عملے کو سنیچر ایک ای میل موصول ہوئی جس میں کہا گیا تھا کہ انہیں ان کے دفاتر جانے سے روک دیا جائے گا اور انہیں پریس پاسز اور دفتر سے جاری کردہ سامان واپس کر دینا چاہیے۔
وائٹ ہاؤس کی جانب سے بیان میں کہا گیا ہے کہ اس اقدام سے یہ یقینی بنایا جائے گا کہ ’ٹیکس دہندگان اب قدامت پسند پروپیگنڈے کی زد میں نہیں ہیں۔‘
وائس آف امریکہ کے ڈائریکٹر مائیکل ابرامووٹز نے کہا ہے کہ وہ ان ایک ہزار 300 افراد میں شامل ہیں جنہیں سنیچر کو چھٹی پر بھیجا گیا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ ’مجھے دُکھ ہے کہ 83 سالوں میں پہلے بار وائس آف امریکہ کو خاموش کیا جا رہا ہے۔‘
فیس بک اپنی پوسٹ میں وائس آف امریکہ کے ڈائریکٹر مائیکل ابرامووٹز کا کہنا تھا کہ ’وی او اے کو سوچ سمجھ کر کی جانے والی اصلاحات کی ضرورت ہے اور ہم نے اس سلسلے میں پیشرفت کی ہے تاہم، آج کا اقدام وائس آف امریکہ کو اپنے اہم مشن کو انجام دینے سے قاصر کر دے گا۔‘
انہوں نے فیس بک پر کہا کہ اس کی کوریج، جو 48 زبانوں میں لگائی جاتی ہے، ہر ہفتے 36 کروڑ افراد تک پہنچتی ہے۔
ریڈیو فری یورپ/ریڈیو لبرٹی کے سربراہ جنہوں نے سرد جنگ کے دوران سوویت بلاک میں نشریات شروع کیں، نے فنڈنگ کی منسوخی کو ’امریکہ کے دشمنوں کے لیے ایک بہت بڑا تحفہ‘ قرار دیا۔
یو ایس ایجنسی فار گلوبل میڈیا کے سابق چیف فنانشل افیسر گرانٹ ٹرنر نے اسی میڈیا آفسز کے لیے’خونی ہفتہ‘ قرار دیا۔
ٹرمپ کے دیگر کٹوتی والے اقدام کی طرح امریکی مالی اعانت سے چلنے والے میڈیا کو ختم کرنے کے اقدام کو چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔