Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کوئٹہ میں مظاہرین اور پولیس میں دوبارہ جھڑپیں، بلوچ یکجہتی کمیٹی کا دھرنا مؤخر

ایک پولیس اہلکار نے بتایا مظاہرین کو منتشر کرتے ہوئے پیچھے دھکیل دیا(فائل فوٹو: بی وائی سی)
کوئٹہ میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مظاہرین اور پولیس کے درمیان سنیچر کو پھر تصادم کی اطلاعات ہیں۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی نے دھرنا موخر کرنے کا اعلان کیا ہے۔
پولیس کی جانب سے سریاب روڈ پر دھرنے پر بیٹھے مظاہرین پر آنسو گیس کی شیلنگ اور لاٹھی چارج کیا گیا جس کے جواب میں مظاہرین نے پتھراؤ کیا۔
سریاب پولیس تھانے کے ایک اہلکار نے بتایا ’پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرتے ہوئے پیچھے دھکیل دیا۔‘
انہوں نے دعویٰ  کیا ’مشتعل مظاہرین نے سریاب روڈ پر یونیورسٹی اورمنیر مینگل روڈ پر واقع سیف سٹی کیمروں  کو نقصان پہنچایا جبکہ یونیورسٹی کے قریب ڈاکخانے اور گرین بس سٹاپ کو بھی نقصان پہنچایا گیا۔‘
دوسری جانب بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائی سی کی جانب سے آفیشل وٹس ایپ چینل پر جاری بیان میں پولیس اور سکیورٹی فورسز پر طاقت کے  استعمال اور مظاہرین پر فائرنگ کے الزامات عائد کیے ہیں۔
بیان میں دعویٰ کیا گیا کہ’پورے علاقے کو سیل کردیا گیا ہے، زخمیوں کو ہسپتال تک جانے کی اجازت نہیں دی جارہی، سیکڑوں پرامن مظاہرین کو گرفتار کیا گیا اور مبینہ طور پر براہ راست فائرنگ کی جارہی ہے۔‘
بیان میں کہا گیا کہ ’اس صورتحال کے پیش نظر سریاب روڈ پر جاری دھرنے کو مؤخر کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان اتوار کی صبح کیا جائےگا۔‘
تین ہلاکتیں بی وائی سی کے مسلح غنڈوں کی فائرنگ سے ہوئیں‘ کمشنر کوئٹہ کا دعویٰ 
کمشنر کوئٹہ ڈویژن کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائی سی) کے رہنماؤں کو سول ہسپتال پر حملے اور عوام کو پُرتشدد احتجاج پر اُکسانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔
یہ بیان بی وائی سی کی جانب سے تنظیم کی سربراہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ سمیت دیگر رہنماؤں کی گرفتاری کے دعوؤں کے بعد سامنے آیا ہے، تاہم سرکاری اعلامیے میں گرفتار افراد کی تعداد اور ان کے نام ظاہر نہیں کیے گئے۔

 پندرہ گھنٹے بعد جمعے کی شام موبائل فون سروس بحال کردی گئی(فائل فوٹو: بی وائی سی)

بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ ماہ رنگ بلوچ سمیت بلوچ یکجہتی کمیٹی کے کئی رہنماؤں اور کارکنوں کو آج صبح احتجاجی دھرنے سے گرفتار کیا گیا جو پولیس کے ساتھ تصادم میں ہلاک ہونے والے افراد کی میتوں کے ہمراہ سریاب روڈ پر دیا جا رہا تھا۔
کوئٹہ کے بجلی روڈ تھانے کے ایک اہلکار نے تصدیق کی کہ ماہ رنگ بلوچ کو پولیس سٹیشن لایا گیا تھا اور اس کے بعد انہیں جیل منتقل کردیا گیا، تاہم جیل انتظامیہ نے تاحال ماہ رنگ بلوچ کی منتقلی کی تصدیق نہیں کی۔
یاد رہے جمعے کو کوئٹہ میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے بیبرگ بلوچ سمیت تنظیم کے دیگر رہنماؤں و کارکنوں کی گرفتاریوں کے خلاف احتجاجی ریلی نکالی گئی تھی۔پولیس کی جانب سے مظاہرین کو منتشر کرنے کی کوششوں کے بعد تصادم شروع ہوا۔ 
بی وائی سی کا الزام ہے کہ پولیس نے مظاہرین پر فائرنگ کی جس سے تین ہلاکتیں ہوئیں اور 12 سے زائد افراد زخمی ہوئے۔
بی وائی سی کی سربراہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی قیادت میں مظاہرین نے جمعے کی شب سریاب روڈ پر لاشیں رکھ کر دھرنا شروع کر دیا تھا جہاں سے بعدازاں انہیں گرفتار کر لیا گیا۔
کمشنر کوئٹہ کی جانب سے کئی گھنٹوں بعد بی وائی سی کے رہنماؤں کی گرفتاری کی تصدیق کی گئی اور دعویٰ کیا گیا کہ ہلاکتیں پولیس کی فائرنگ سے نہیں بلکہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی قیادت کے ہمراہ موجود مسلح غنڈوں کی فائرنگ سے ہوئیں۔
کمشنر کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’21 مارچ 2025 کو جعفر ایکسپریس کے ہلاک شدہ دہشت گردوں کے حق میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے احتجاج کے دوران پرتشدد مظاہرین نے پولیس پر پتھراؤ کیا اور فائرنگ کی۔‘
موبائل فون نیٹ ورک بحال
بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مظاہرین اور پولیس کے درمیان جمعے کو تصادم کے نتیجے میں ہلاکتوں کے بعد کوئٹہ میں حالات کشیدہ ہوگئے تھے جس کے باعث جمعہ کی شب کوئٹہ میں موبائل فون نیٹ ورک مکمل بند کردیے گئے تھے۔
 پندرہ گھنٹے بعد جمعے کی شام کو موبائل فون سروس تو بحال کردی گئی، تاہم موبائل انٹرنیٹ سروس اب بھی متاثر ہے۔
شٹرڈاؤن اور پہیہ جام ہڑتال
بی وائی سی کی اپیل پر ماہ رنگ بلوچ، بیبرگ بلوچ اور تنظیم کے دیگر رہنماؤں اور کارکنوں کی گرفتاریوں کے خلاف کوئٹہ، مستونگ، قلات، خضدار، چاغی، نوشکی، واشک، کوہلو، تربت، پنجگور اور گوادر سمیت بلوچستان کے کئی شہروں میں پہیہ جام اور شٹرڈاؤن ہڑتال کی گئی۔
مظاہرین کی جانب سے کوئٹہ کراچی شاہراہ سمیت کئی اہم قومی شاہراہوں کو مختلف مقامات پر رکاوٹیں کھڑی کرکے بند کیا گیا۔
کوئٹہ میں بھی سریاب روڈ، قمبرانی روڈ، منیر مینگل روڈ اور اطراف کے علاقوں میں مظاہرین نے سڑک پر پتھر رکھ کر اور ٹائر جلاکر ٹریفک بند رکھی۔
 سریاب روڈ پر منیر مینگل روڈ کارنر کے قریب مشتعل مظاہرین نے سیف سٹی کے کھمبے اور کیمروں کو گرا کر تباہ کردیا۔
احتجاج کے باعث کوئٹہ کے بلوچ اکثریتی علاقوں میں بیشتر دکانیں اور مارکیٹیں بند رہیں، تاہم شہر کے وسطی علاقوں میں کاروباری مراکز کھلے رہے مگر سڑکوں پر ٹریفک معمول سے کم رہی۔
سریاب روڈ پر عارف گلی کے سامنے بی وائی سی کی جانب سے احتجاجی دھرنا تاحال جاری ہے جس میں خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد شریک ہے۔ مظاہرین ماہ رنگ بلوچ اور بی وائی سی کے دیگر رہنماؤں کی رہائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ 

شیئر: