امریکہ میں امیگریشن جج نے حکومت کو ایک دن کی مہلت دی ہے کہ وہ کولمبیا یونیورسٹی کے طالب علم محمود خلیل کو ملک بدر کرنے کے لیے ثبوت پیش کرے۔ عدالت کا کہنا ہے کہ وہ جمعے کو اس حوالے سے اپنا فیصلہ سنائے گی۔
برطانوی خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق کولمبیا یونیورسٹی کے طالب علم محمود خلیل کو ایک ماہ قبل نیویارک میں امیگریشن کے اہلکاروں نے 1,200 میل دور دیہی علاقے لوزیانا کے حراستی مرکز میں منتقل کر دیا تھا۔
مزید پڑھیں
-
’مزاحمت چھوڑ دو‘، فلسطینی کارکن محمود خلیل کی گرفتاری کیسے ہوئی؟Node ID: 887199
اسسٹنٹ چیف امیگریشن جج جیمی کومنز نے جینا، لوزیانا میں لاسل امیگریشن کورٹ میں سماعت کے دوران کہا کہ ’اگر وہ ملک بدر کرنے کے قابل نہیں ہے تو میں جمعے کو اس کیس کو ختم کر دوں گا۔‘
محمود خلیل کیس کی سماعت کے دوران کمرۂ عدالت میں موجود تھے اور وہ اپنی نشست سے اپنے اٹارنی مارک وان ڈیر ہوٹ کو سکرین پر دیکھ سکتے تھے جو کیلیفورنیا سے عدالتی کارروائی میں شامل تھے۔
محکمۂ ہوم لینڈ سکیورٹی کے وکلاء نے جج جیمی کومنز کو بتایا کہ وہ بدھ کی شام 5 بجے تک ثبوت فراہم کر دیں گے۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اس نے 1952 کے ایک قانون کے تحت محمود خلیل کی ملک بدری کا حکم دیا ہے۔ یہ قانون وزیر خارجہ کو کسی بھی ایسے شخص کی مستقل رہائش منسوخ کرنے کی اجازت دیتا ہے، جس کے بارے میں وہ فیصلہ کرتے ہیں کہ وہ امریکی خارجہ پالیسی کو نقصان پہنچا رہا ہے۔
امریکی حکومت کا یہ بھی کہنا ہے کہ فلسطین کے حامی محمود خلیل کو ملک سے اس لیے بھی بےدخل کر دینا چاہیے کیونکہ انہوں نے اپنی ویزا درخواست میں اس بات کو چُھپایا کہ انہوں نے اقوامِ متحدہ کی فلسطینی امدادی ایجنسی کے لیے کام کیا۔

انہوں نے اپنی درخواست میں یہ بھی نہیں بتایا کہ وہ بیروت میں برطانوی سفارت خانے میں شام کے دفتر کے لیے کام کرتے تھے اور وہ کولمبیا یونیورسٹی اپتھائیڈ ڈائیوسٹ گروپ کے رُکن تھے۔
منگل کی سماعت کے دوران جج نے حکومت کے الزامات کو پڑھ کر سنایا جبکہ محمود خلیل کے اٹارنی وان ڈیر ہوٹ نے ہر الزام کی تردید کی۔
محمود خلیل کی گرفتاری کے بعد وزیر خارجہ مارکو روبیو نے کہا تھا کہ انہوں نے سینکڑوں غیر ملکی طلباء کے ویزے منسوخ کر دیے ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ امریکہ کے اسرائیل کے ساتھ دفاعی تعاون کے خلاف کالج کے احتجاج میں یہودی طلباء کو ہراساں کرنا بھی شامل ہے۔
اُدھر ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ نے کارنیل یونیورسٹی کے لیے ایک ارب ڈالر اور نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی کے لیے سات کروڑ 90 لاکھ ڈالر کی فنڈنگ روک دی ہے۔
ایک امریکی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر روئٹرز کو بتایا کہ جو فنڈنگ روکی جا رہی ہے اس میں زیادہ تر وہ گرانٹس اور کنٹریکٹس شامل ہیں جو صحت، تعلیم، زراعت اور دفاع کے وفاقی محکموں کے ساتھ ہیں۔